افغانستان… نیا امریکی کھیل کیا ہوگا؟

یہ بات واضح ہے کہ 29 فروری 2020ء کو قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکہ اور طالبان کے درمیان جو امن معاہدہ ہوا ہے وہ امریکہ نے مجبوری میں کیا ہے۔ اس وقت افغانستان میں 13 ہزار امریکی فوجی موجود بتائے جاتے ہیں، جن کے محفوظ انخلا کے لیے ’’دہشت گرد‘‘ طالبان سے ضمانت کی ضرورت تھی۔ امریکی فوج کے محفوظ انخلا کے لیے 14 ماہ کی مدت کا تعین کیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ ’’دھمکی‘‘ بھی دی تھی کہ اگر طالبان نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو امریکہ اپنی پوری قوت کے ساتھ طالبان پر حملہ کرکے ان کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج تھک چکی ہے، جبکہ امریکی سیاسی قیادت کے سر پر اس جنگ کا ایسا بوجھ پڑ گیا ہے جس سے نجات حاصل کرنا ہر امریکی سیاسی قیادت کی فوری ضرورت بن گیا۔ اس جنگ کا آغاز بش جونیئر نے کیا تھا۔ لیکن اب ان کے جانشین ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کی سب سے بڑی اور سپریم ملٹری پاور کی شکست کا اعتراف ان الفاظ میں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ’’ہم مزید 20 برس تک افغانستان کے تحفظ کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔ ہمیں اپنی فوج کی اپنے ملک میں ضرورت ہے۔ افغانستان میں افغان نیشنل آرمی اور افغان نیشنل پولیس جن کو ہم نے ایک ڈیڑھ عشرے تک تربیت دی ہے انہیں اپنے ملک کے تحفظ کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے‘‘۔ ان الفاظ کے ساتھ اعترافِ شکست کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ہم اب تھک چکے ہیں‘‘۔ یہ اعتراف دنیا کی واحد سپریم ملٹری پاور کی سیاسی قیادت کا اعترافِ شکست ہے۔ جبکہ انتہائی پسماندہ اور جدید ٹیکنالوجی سے محروم طالبان ہیں جو اب بھی معرکہ آرائی کے لیے تیار ہیں۔ آج بیس برس بعد جو عالمی منظرنامہ بنا ہے وہ اہلِ نظر کے لیے غیر متوقع نہیں ہے، سوائے اس کے کہ جن کے دل و دماغ مادّی طاقتوں سے مسحور تھے اور غلامانہ ذہنیت نے جن کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تھا، اور وہ ظلم و استبداد کے آلہ کار بن کر مجاہدینِ افغانستان اور افغان مسلمانوں کے مصائب پر ہنستے تھے، حالانکہ دنیا کو افغانستان کی تاریخ معلوم تھی کہ افغانستان دنیا بھر کی ایمپائر کا قبرستان ہے، جو حملہ آور ہوا ہے وہ ناکام ہوا ہے۔ افغانستان کے مسلمانوں نے صرف نصف صدی کی محدود مدت میں افغانستان کو دو سپر پاور کا قبرستان بنا کر تاریخ کو دہرایا ہے۔ اب اس جنگ کا نیا مرحلہ شروع ہورہا ہے۔ یہ نیا مرحلہ افغان مجاہدین، طالبان اور دیگر افغان گروپوں کے ساتھ اہلِ پاکستان کے لیے بھی ایک نیا امتحان ہے۔ افغانستان پر پہلے سوویت روس اور اس کے بعد امریکی قبضے نے پاکستان کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امریکہ مسلسل ’’ڈومور‘‘ کا دبائو ڈالتا رہا ہے۔ اب بھی ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے شکنجے کے سخت ہونے کا سبب یہ ہے کہ امریکی ٹانگ افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے۔ پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے جو سودا گری کی ہے اُس کے حقائق منظر عام پر آجائیں تو معلوم ہوگا کہ کیسے کیسے پست کردار کے قوم فروش اور ضمیر فروش مسلط تھے۔ ان کی داستانوں اور کہانیوں کے بعد میر جعفر اور میر صادق جیسے کردار مقدس محسوس ہونے لگیں گے۔ افغانستان کے پہاڑ دنیا کی دیگر فوجی اور اقتصادی طاقتوں کے لیے بھی عبرت کدہ بنے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر جاری ہوئی ہے کہ روس اور امریکہ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مستقبل میں انہیں افغانستان میں ’’اسلامی حکومت‘‘ کسی بھی حال میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ دوسری طرف چین کی طرف سے افغانستان سے امریکی فوجی انخلا پر اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوج نکال کر اپنی ساری توجہ چین کے خلاف دینا چاہتا ہے۔ ایک چینی اخبار نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ واشنگٹن افغانستان سے فوجی انخلا کے لیے اتنا پُرعزم کیوں ہے؟ اور خود ہی اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ اپنے اسٹرے ٹیجک حریف چین سے نمٹنے کی تیاری کرنا ہے، امریکہ بھاری رقم خرچ کرنے سے اس لیے گریزاں ہے کہ اس بچت کو چین پر قابو پانے کے لیے استعمال کرسکے۔
روس اور چین کی افغانستان میں امریکی فوجی قوت کی شکست پر تشویش نئے عالمی منظرنامے کا اہم پہلو ہے۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی شکست کا فائدہ سب سے زیادہ روس اور چین کو ہوا ہے۔ افغانستان میں امریکی شکست نے یک قطبی نظام (Unipolar World) کو کثیر قطبی دنیا (Multipolar World) میں تبدیل کیا ہے۔ ان بیس برسوں میں دونوں علاقائی اقتصادی طاقتوں کو اپنے پیر جمانے کی مہلت ملی ہے۔ اس وجہ سے یہ دونوں قوتیں افغان مجاہدین کی شکر گزار بھی ہیں` لیکن ان دونوں طاقتوں کو امریکی فوجی شکست پر مسرت کے ساتھ مجاہدینِ افغانستان کی نظریاتی فتح پر تشویش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی اخبار نے امریکی فوجی انخلا کو ’’انسدادِ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ سے انحراف قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے عالمی مبصرین کابل میں ہونے والی تبدیلی کو ایک نئے بحران کی ابتدا کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس اعتبار سے اب یہ افغان طالبان کا امتحان ہے کہ وہ میدان میں جیتی ہوئی جنگ کے ثمرات کس طرح برقرار رکھتے ہیں ۔ طالبان، امریکہ معاہدے کا دوسرا مرحلہ بین الافغان مذاکرات ہیں۔ امریکی فوجی قبضے کے نتیجے میں قائم ہونے والی افغان حکومت میں انتشار ظاہر ہونے لگا ہے۔ یہ تماشا بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک ملک میں ایک ہی دن دو صدور نے حلف اٹھایا ہے۔ افغان طالبان کابل حکومت کو جائز تسلیم نہیں کرتے لیکن وہ ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ معاہدے کی پابندی کرتا ہے یا نیا کھیل شروع ہوگا۔
(یحییٰ بن زکریا صدیقی)