کِلکل یا کَل کَل؟۔

انور شعور بہت اچھے شاعر ہی نہیں، زبان و بیان پر بھی پورا عبور رکھتے ہیں۔ ایک اخبار میں روزانہ قطعہ لکھتے ہیں، اور یہ کوئی آسان کام نہیں۔ جمعرات 5 مارچ کو ان کا قطعہ پڑھا جس کا ایک شعر تھا:۔

فقط مہنگائی سے ہے گھر میں کل کل
میاں بیوی میں ناچاقی نہیں ہے

گھروں میں جو کل کل ہورہی ہے اس کی وجہ مہنگائی ہی ہے۔ تاہم ’کل کل‘ کے دونوں کاف پر بڑے اہتمام سے زبر لگایا گیا ہے یعنی بروزن دلدل۔ ہم سمجھے کہ اپنی قابلیت جھاڑنے کا موقع مل گیا کہ کِل کِل کے دونوں کاف بالکسر ہیں اور زبر لگانے کا سہو کمپوزر سے ہوا ہوگا۔ ویسے تو کل کل کو ملا کر لکھا جاتا ہے، یعنی کِلکِل، اور عام طور پر جھلمل کے وزن پر بولا جاتا ہے۔ ایک محاورہ بھی ہے ’’دانتا کلکل‘‘۔ ہم سمجھے کہ ایک بڑی غلطی پکڑ لی، لیکن احتیاطاً لغات سے بھی رجوع کرلیا۔ بیشتر لغات میں کلکل بالکسر ہی ہے اور عوام کی زبان پر یہی ہے۔ تاہم نوراللغات کے مولوی نورالحسن نیر (مرحوم) کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ کلکل کو بالکسر تو لکھا ہے مگر یہ وضاحت بھی کی ہے کہ فارسی میں بالفتح و فتح سوم یعنی کَلکل ہے۔ مطلب ہے بے ہودہ بکنا، جھگڑا، بک بک، بے ہودہ حجت۔ ایک مطلب ہے عورتوں کا بلند آواز سے لڑنا۔ اور ضروری نہیں کہ اس کے لیے عورت مارچ ہی نکالا جائے۔ بلند آواز سے لڑنے کے لیے اگر شوہر اور ساس دستیاب نہیں تو پڑوسنیں تو ہیں۔ کہتے ہیں کہ خواتین گھر کے کاموں سے فارغ ہوکر دیوار کے پار پڑوسن کو دعوت دیتی ہیں ’’آئو پڑوسن لڑیں‘‘۔ جواب آتا ہے ’’لڑے میری جوتی‘‘۔ اور یوں کلکل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ مستورات کی زبانوں پر کلکل بالکسر ہی ہے اور یہ لفظ انہی کے کام کا ہے، لیکن مرزا محمد رفیع سوداؔ کے کلام سے یہ لفظ بالفتح ظاہر ہوتا ہے۔ ان کا قطعہ ہے:۔

کہا تھا اس نے مجھے کہ آئوں گا میں کل
ملا جو آج تو کل کا وہی پھر آیا خلل
جو پوچھا میں کہ تری کل کو بھی کہیں ہے کل
تو ہنس کے کہنے لگا جا عبث نہ کر کَلکل

اب استاد سوداؔ نے کلکل کو مذکر باندھا ہے تو انور شعور نے بھی شاید انہی کا اتباع کیا ہے اور وہی سودا بیچا ہے۔ تاہم دیگر اساتذہ نے کلکل اور کلکلانا کو کاف بالکسر ہی سے باندھا ہے۔
اسی کلکل سے ایک محاورہ ہے ’’دانتا کلکل‘‘۔ یہ ہندی کا لفظ ہے اور مطلب وہی ہے: جھگڑے فساد کی باتیں۔ مثلاً ’’روز کی دانتا کلکل اچھی نہیں‘‘۔ ایک شعر ہے:۔

دُر دنداں پہ مبتلا دل ہے
دل میں اور مجھ میں دانتا کلکل ہے

دانتا (ہندی) کے بھی کئی مطلب ہیں، مثلاً دندانہ، کنگھی یا آرے یا پہیے کا۔ ’دانتے پڑجانا‘ کا مطلب ہے دھارگرجانا، کُند ہوجانا۔ انور شعور کے مذکورہ قطعہ میں ایک لفظ ’ناچاقی‘ ہے جو اردو میں عام استعمال میں ہے۔ یعنی اختلاف، جھگڑا وغیرہ۔ لیکن ناچاقی اصل میں کیا ہے۔ ’نا‘ تو حرفِ نفی ہے، یعنی ناچاقی ’چاقی‘ کی ضد ہوئی، مگر یہ چاقی کبھی سننے یا پڑھنے میں نہیں آئی۔ البتہ ’چاق‘ تو مستعمل ہے جو ترکی سے اردو میں آیا ہے۔ چاق، چوبند کی ترکیب عام ہے جس میں بعض ستم ظریف ’و‘ بھی ڈال دیتے ہیں۔ اردو میں چاق تنہا استعمال نہیں ہوتا۔ گویا ’چاق‘ ہے تو ’چاقی‘ بھی ہوگا جس کی نفی ’ناچاقی‘ ہے۔ ماہرینِ لسانیات بتائیں کہ یہ ’چاقی‘ کیا ہے؟ فارسی میں ایک لفظ ہے ’ناچاق‘۔ (صفت) مطلب ہے علیل، بدمزہ۔ اسی سے ناچاقی ہے جس کا مطلب ہے علالت، بدمزگی، اَن بن، بگاڑ، شکر رنجی۔
گزشتہ دنوں جسارت میں ’’آکاس بیل‘‘ کے عنوان سے بہت اچھا مضمون نظر سے گزرا۔ تاہم محترم مضمون نگار نے آکاس بیل کا ایک نام عشق پیچاں بھی دیا ہے۔ آکاس بیل اور عشق پیچاں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ آکاس بیل تو بغیر جڑوں، پتوں کے ہوتی ہے، اور ’آکاش‘ غذا حاصل کرتی ہے۔ یہ جس پودے، درخت سے لپٹ جائے اُس کی ساری توانائی چوس کر اُسے سُکھا دیتی ہے۔ اس کی شاخیں زرد رنگ کی ہوتی ہیں، لیکن عشق پیچاں کی جڑیں زمین میں ہوتی ہیں اور اس پر نیلے رنگ کے پھول بھی کھلتے ہیں۔ اس کی شاخ زمین میں دبا دیں تو جلد ہی جڑ پکڑ لیتی ہے۔ ’عشق پیچاں ‘ یہ نام فارسی کا ہے، یہ بیل اپنے قریب کسی بھی درخت یا دیوار سے ایسے لپٹ جاتی ہے جیسے عشق کا روگ۔ تاہم آتشؔ کے شعر سے لگتا ہے کہ آکاس بیل کی صفات اس میں ہیں۔ شعر ہے:۔

جس سے لپٹا سوکھا مجنوں کی طرح وہ درخت
عشق پیچے پر مجھے ہوتا ہے شک زنجیر کا

آکاس بیل کو امر بیل بھی کہتے ہیں۔ آکاس، آکاش ہے، اور آکاش کا مطلب ہے زمین اور آسمان کے درمیان کی فضا۔ یہ اسی لیے آکاس بیل کہلاتی ہے کہ اس کی جڑیں زمین میں نہیں ہوتیں، فضا میں معلق رہ کر دوسروں کا خون چوستی ہیں۔
ایک بڑا دلچسپ جملہ اخباروں میں پڑھنے میں آتا ہے ’’مقتولوں کو قتل کردیا گیا‘‘۔ لیکن جو پہلے ہی مقتول ہوں انہیں کیسے قتل کیا جاسکتا ہے؟ رپورٹر کا مطلب ہوتا ہے کہ تین یا چار افراد کو قتل کردیا گیا۔ کورونا وائرس تو ان شاء اللہ جلد ختم ہوجائے گا، لیکن زبان میں بگاڑ کا وائرس شاید ختم نہ ہو کہ اس کی سنگینی اور خرابی کا ادراک ہی نہیں۔