’میرا جسم، میری مرضی‘ مغرب میں فکرمندی

تزئین حسن

گزشتہ برس پاکستان میں ’عورت مارچ‘ میں ’میرا جسم، میری مرضی‘ یعنی دوسرے لفظوں میں شادی سے قبل آزادانہ جنسی تعلقات کو عورت کا حق قرار دینے کا نعرہ لگایا گیا۔ آیئے، مغرب کے معروف تھنک ٹینکس (مراکز دانش) کی رپورٹوں کی روشنی میں ’میرا جسم، میری مرضی‘ یا فری سیکس کے نظریے کے عورت کی زندگی اور مغربی تہذیب پر ہمہ گیراثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مغرب میں تحریک خود اختیاریِ نسواں (Feminism) نے عورتوں کے حقوق کی مناسبت سے خاصی پیش رفت کی ہے۔ اس کا ایک منفی پہلو آزادانہ جنسی تعلقات کو عورتوں کے حق کے طور پر متعارف کروانا بھی ہے۔ آج مغربی ممالک اور دیگر صنعتی ترقی یافتہ ممالک میں غیر شادی شدہ جوڑوں کا ایک ساتھ رہنا قانوناً درست ہے، معاشرے میں اسے کوئی بُرائی نہیں سمجھا جاتا، اور ایسے بچوں کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہے جو اِن تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوں۔ ایسے بچوں کی ذمہ داری ان کے حقیقی ماں باپ پر تو عائد ہوتی ہے، مگر ریاست بھی انھیں اپنی ذمہ داری تصور کرتی ہے۔ تاہم، ان کے اپنے ’مراکزِ دانش‘ کے مطابق ’’اس کے نتیجے میں بے شمار پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں، جن سے خود خواتین بھی متاثر ہیں اور آبادی میں کمی کے رجحان سے ان قوموں کی بقا کو خطرہ لاحق ہے‘‘۔
l بنا شادی بچوں کی شرح پیدائش میں اضافہ: 2017ء میں شائع ہونے والی ییل یونی ورسٹی کی تحقیقاتی رپورٹ Out of Wedlock Births Rise Worldwide (شادی کے بغیر دنیا میں بچوں کی پیدائش کا اُبھار) کے مطابق دنیا کے کچھ علاقوں میں بغیر شادی کے پیدا شدہ بچوں کی تعداد، کُل بچوں کے 70 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ امریکہ میں یہ تعداد 40فی صد، اور شمالی یورپ کے ممالک میں یہ شرح 70فی صد تک چلی گئی ہے۔ گزشتہ 50برسوں میں شادی کے بغیر بچوں کی پیدائش میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ’سنگل مدرز‘ (اکیلی ماؤں) کی تعداد میں بھی۔ تفصیل یہ ہے کہ ساری دنیا میں ’اکیلی ماؤں‘ کے ساتھ پلنے والے بچوں کی تعداد کُل بچوں کی تعداد کے25 سے 33 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کی وجوہ میں ترقی یافتہ ممالک میں: خاندانی نظام کا ختم ہونا اور مخالف جنس کے لوگوں کا آزادانہ میل جول، ایسے بچوں کو قانونی حیثیت دینا اور پالنے والے والدین کو مالی مدد فراہم کرنا شامل ہیں۔
بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ What Can Be Done to Reduce Teen Pregnancy and Out of Wedlock Births (نوعمری کے حمل اور نکاح کے بغیر پیدائش کو کیسے کم کیا جائے؟) کے مطابق ’’اس معاملے کا ایک تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ایسی کم عمر ماؤں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو ہائی اسکول کے دوران ہی ماں بن جاتی ہیں۔ ایسے واقعات بھی اچنبھے کی بات نہیں رہ گئے، جن میں نوعمر لڑکیاں دس گیارہ سال کی عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ اسکولوں میں ابتدائی کلاسوں سے بچوں کو جنسی تعلیم دی جاتی ہے اور برتھ کنٹرول کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ بلاشبہ ملکی قانون ان بچوں کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ایسی اکیلی ماؤں کو مالی امداد دیتا ہے، مگر ان میں سے بیشتر مائیں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتیں اور ان کی جوانی کا بڑا حصہ اپنے بچوں کی نگہداشت میں گزر جاتا ہے۔ گو کبھی کبھی باپ بھی شادی کے بندھن سے باہر پیدا ہونے والے بچے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، مگر ایسے بے نکاحے باپوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے‘‘۔ بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق اکیلے والدین (single parents) کی 84 فی صد تعداد عورتوں، جب کہ 16فی صد تعداد مردوں پر مشتمل ہے۔
2016ء میں جان ہاپکنز یونی ورسٹی کی تحقیق Changing Fertility Regimes and the Transition to Adulthood (تولیدی بارآوری میں تبدیلی اور بلوغت کی راہ میں عبوری مرحلہ ) کے مطابق ’’امریکہ میں 64فی صد عورتیں کم از کم ایک ایسے بچے کی ماں ضرور ہیں، جو شادی کے بندھن سے باہر (Out of Wedlock) پیدا ہوتا ہے۔ غریب یا کم آمدنی والے علاقوں میں ایسی غیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد 74 فی صد تک جاپہنچی ہے‘‘۔ 2007ءکی ایک اور تحقیق کے مطابق ’’پہلی دفعہ ماں بننے والی 66 فی صد سفید فام، 96فی صد سیاہ فام اور76فی صد میکسیکن خواتین غیر شادی شدہ ہوتی ہیں۔ مغربی قانون کے علاوہ معاشرتی طور پربھی اب اسے کوئی برائی تصور نہیں کیا جاتا۔ لیکن ایسی ماؤں کا تعلیمی مستقبل، پڑھائی پر توجہ کا سارا منصوبہ یا خواب اور کیرئیر، پہلی دفعہ حاملہ ہونے کے بعد تباہ ہو جاتا ہے‘‘۔
ییل یونی ورسٹی کی اس رپورٹ (2017ء) کے مطابق ’’شادی کے بغیر پیدائش کی کم ترین شرح اُن ملکوں میں ہے، جہاں ایسے بچوں کی پیدائش سے منسوب ماں اور باپ کو رُسوائی کا سامنا ہوتا ہے، اور خود ایسے بچے کو معاشرہ قبول نہیں کرتا اور انھیں کلنک کا ٹیکا گردانتا ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے مسلم ممالک اور بھارت میں ایسے بچوں کی تعداد کُل بچوں کے ایک فی صد سے بھی کم ہے‘‘۔
اس ضمن میں ملکی قانون بھی واضح کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ جن ممالک میں ایسے تعلقات قانوناً درست ہیں، وہاں شادی کے بغیر پیدائش کی شرح بہت زیادہ ہے۔ لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک میں ایسے بچوں کی تعداد کُل بچوں کے 60 فی صد تک پہنچ گئی ہے، مگر اس معاملے میں سب سے برا حال سویڈن، ڈنمارک، ناروے اور فن لینڈ جیسے خوش حال ممالک کا ہے، جہاں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 70 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ امریکہ میں یہ تعداد 40فی صد ہے‘‘۔
ییل رپورٹ (2017ء) کے مطابق: ’’ایک ہی ملک میں مختلف نسلی گروہوں میں اس شرح میں مجموعی طور پر بھی فرق دیکھا گیا ہے۔ امریکی سیاہ فاموں میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 71 فی صد، جب کہ امریکہ کی لاطینی آبادی میں یہ شرح 53فی صد، مگر سفید فاموں میں یہ شرح 29 فی صد ہے۔ یاد رہے کہ آج سے 50 سال پہلے امریکہ میں مجموعی طور پر یہ شرح 7فی صد تھی اور اب مجموعی طور پر تقریباً 40فی صد ہے‘‘۔
یہاں ایک فطری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغربی معاشرہ ہمیشہ سے ایسا تھا؟
بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق ’’شادی کے بغیر پیدائش کی شرح میں اضافہ پچھلے 50برسوں کے دوران دیکھنے میں آیا ہے۔ مثلاً: 1964ء میں ’آرگنائزیشن آف اکنامک اینڈ کوآپریٹیو ڈویلپمنٹ‘ (OECD: معاشی و باہمی تعاون کی ترقیاتی تنظیم) میں شامل بیشتر ممالک میں بنا شادی بچوں کی تعداد،کُل بچوں کے 10فی صد سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، جب کہ 2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق ان ممالک میں صرف یونان، ترکی، اسرائیل، جنوبی افریقہ، اور جاپان وغیرہ ایسے ملک ہیں، جہاں یہ شرح 10فی صد سے کم ہے۔ یاد رہے ’معاشی و باہمی تعاون کی ترقیاتی تنظیم‘ میں 35 ممالک شامل ہیں اور یہ بلند ترین قومی معاشی پیداوار کے حامل ممالک ہیں، جن میں شمالی امریکہ، شمالی اور مغربی یورپ اور آسٹریلیا کے علاوہ جنوبی کوریا، اسرائیل، ترکی اورجاپان بھی شامل ہیں‘‘۔
ایک اور دل چسپ بات یہ کہ وہاں کی ریاست چونکہ ان بچوں کو اپنی ذمہ داری تصور کرتی ہے اور معاشرے میں اسے بُرا نہیں سمجھا جاتا، اس لیے بھی ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اعداد و شمار سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس رجحان میں اُس وقت سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جب سے ریاست نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے۔
l بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کے مسائل: ایسے زیادہ تر بچے ’سنگل والدین‘ کے ساتھ پلتے ہیں، کچھ فوسٹر ہوم، یعنی اڈاپٹڈ [اختیار کردہ] والدین کے ساتھ اور کچھ اپنے حیاتیاتی (اصلی) ماں باپ کے ساتھ پلتے ہیں، جو بعض صورتوں میں شادی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ بعض ماں باپ بچہ ہونے کے بعد شادی بھی کر لیتے ہیں، مگر ان کا تناسب بھی کم رہ گیا ہے۔
یاد رہے کے سنگل پیرنٹ کا تصور صرف بنا شادی کی پیدائش سے وابستہ نہیں بلکہ کبھی کبھی ماں یا باپ کی موت یا طلاق اور علیحدگی کی وجہ سے بھی، بچے والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ پلتے ہیں۔ جوزف چیمی کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے 3 ارب بچوں میں سے 32 کروڑ بچے اکیلے والدین کے ساتھ پلتے ہیں۔
l شادی کے بغیر خواتین کی بچوں کے انتخاب کی وجہ:یاد رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بعض اوقات خواتین خود اکیلی ماں بننے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس معاملے میں ’مصنوعی تولیدی عمل‘ ، insemination یا ٹیسٹ ٹیوب وغیرہ سے، یعنی بغیر فطری عمل کے بھی بچہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس انتخاب کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ معاشرے میں بنا شادی، جنسی تعلق عام ہونے کے با عث مرد شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریاں اٹھانے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ جان ہاپکنز رپورٹ 2016ء کے مطابق ’’بعض عورتیں جن میں اکثریت سیاہ فام عورتوں کی ہے، خود بنا شادی بچے چاہتی ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آزادانہ اختلاط کے باعث اس معاشرے میں عورتیں مرد کے مقابلے میں اولاد کو زیادہ قابلِ بھروسا ساتھی خیال کرتی ہیں۔ کچھ خواتین اسقاطِ حمل اس لیے نہیں کرواتیں کہ کیتھولک مذہب میں اسقاط حرام ہے‘‘۔ عام تاثر یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں مذہب کا کوئی کردار نہیں، لیکن راقمہ کے مشاہدے کے مطابق اس کے برعکس ایسی عورتیں بھی موجود ہیں، جو عیسائیت کی اس پابندی کا احترام کرتی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ خود کیتھولک عیسائی مذہب بھی موجودہ ابلاغی و سماجی دبائو کے باعث ’آزادانہ جنس کاری‘ کے خلاف بات نہیں کر سکتا، کیونکہ معاشرے میں اس کے خلاف بات کرنے کو انسانی حقوق کے منافی سمجھا جاتا ہے۔
بروکنگز رپورٹ کے مطابق ’’دوسرے بچوں کے مقابلے میں بنا شادی پیدا ہونے والے اکیلی ماؤں کے بچے، پیدائش کے وقت کم وزن پیدا ہونے، بعد کی زندگی میں جسمانی اور نفسیاتی صحت کے مسائل کا شکار ہونے، اسکولوں میں اچھی کارکردگی نہ دکھانے، اپنے والدین کی طرف سے نظرانداز اور دوسروں کی زیادتیوں کا شکار ہونے کے نتیجے میں بڑے ہو کر خود مجرم بننے کے امکانات کا زیادہ شکارہوتے ہیں‘‘۔
l ’اکیلی ماں‘ پر منفی اثرات:بچے کے علاوہ بچے کی غیرشادی شدہ اکیلی ماں کی زندگی پر بھی اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کے اسکول سے ڈراپ آوٹ ہونے کے امکانات دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی مائیں عام طور سے اپنا کیرئیر نہیں بنا پاتیں اور اپنے آپ کو مالی طور پر خودکفیل نہیں بناسکتیں۔ پانچ میں سے صرف ایک خاتون کو بچے کے باپ سے مالی مدد ملتی ہے، مگر قانون کے باوجود ان سے پیسے نکلوانا آسان نہیں ہوتا۔ نتیجتاً ایسی عورتیں حکومت کی ’رفاہی یا خیراتی اسکیم‘ سے امداد حاصل کرتی ہیں اور طویل عرصے تک اس واجبی وظیفے پر گزارا کرتی رہتی ہیں۔
l بڑھتا ہوا معاشی بوجھ: اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے بچے ٹیکس دینے والے پر ایک بوجھ ہوتے ہیں۔ پرنسٹن یونی ورسٹی کے میتھمیٹک پالیسی ریسرچ سینٹر کی تحقیق کے مطابق کم عمر غیر شادی شدہ مائوں اور ان کے بچوں پر حکومت ہر سال امریکی ٹیکس دینے والوں کا 7؍ارب ڈالر خرچ کرتی ہے، اور اسی لیے اس رجحان کو کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
l اس مسئلے کا حل کیا ہو؟: بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کی یہ تحقیق امریکی حکومت کو متعدد تجاویز دیتی ہے۔ اس میں سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بچوں کو اسکول کی سطح پر شادی سے پہلے جنسی تعلقات کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ کم از کم شادی تک جنسی تعلقات سے پرہیز کرسکیں۔ لیکن معلوم نہیں اس حل کے عملی نفاذ کا خواب کتنا دور ہے، کیونکہ امریکی اور مغربی معاشرے میں شادی کے بغیر جنسی تعلق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عورت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ والدین تک اپنے بچوں کو اس اخلاق باختگی سے روکیں تو یہ ذاتی معاملات میں مداخلت سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ایسی کسی تجویز پر عمل درآمد کے امکانات صفر سے بھی کم ہیں۔
lنتیجہ: آبادی کا بحران اور معاشرتی انتشار: اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ عورتوں اور جوڑوں کی اکثریت اب بچے پیدا کرنے سے پرہیز کررہی ہے۔ مانع حمل ادویہ اور اسقاط کو عورت کا بنیادی حق تسلیم کرلیا گیا ہے۔ مغرب کے بیشتر ممالک آبادی کے بحران کا شکار ہیں۔ خصوصاً معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح بہت تیزی سے کم ہورہی ہے، اور اس حد تک کم ہورہی ہے کہ بہت سے ممالک اپنی صنعتی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیسری دنیا کے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہیں۔ یاد رہے ان تمام ممالک میں شرح اموات شرح پیدائش کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے اور اس سے آہستہ آہستہ یہ قومیں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔
آبادی میں کمی کے اس رجحان کو صرف مغرب میں نہیں، جاپان جیسے بلند ترین شرح آمدنی رکھنے والے صنعتی ملک میں بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ دو سال قبل جاپان کی ٹوہوکو یونی ورسٹی میں جاپانی قوم کے بتدریج ناپید ہونے کی خبر دینے والے گھڑیال کی تنصیب کی گئی، جو سیکنڈ کے حساب سے جاپانی آبادی میں کمی کی نشان دہی کرتا ہے۔
2017ء میں شائع ہونے والی یورپ کی آبادی کے بارے میں ’برلن انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی میں یورپ خصوصاً یورپی یونین (EU) کا حصہ معدوم ہوتا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی معیشت اس وقت دنیا کی کامیاب ترین معیشت ہے، لیکن اس رپورٹ اور متعدد تحقیقات کے مطابق دنیا میں سب سے کم شرح پیدائش اِس وقت یورپ میں ہے اور سب سے زیادہ اوسط عمر بھی یورپ میں ہی ہے۔ یاد رہے کہ یورپ میں لاتعداد تحقیقی ادارے اور ’مراکز دانش‘ مستقبل میں آبادی کی کمی سے پیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے مصروفِ عمل ہیں لیکن تاحال خبریں کچھ اچھی نہیں ہیں۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق جرمنی میں آئندہ نسلوں میں کام کرنے والے، پنشن لینے والے بوڑھوں کے مقابلے میں کم ہوتے جائیں گے۔ یوں مینوفیکچرنگ اور خدمات سے متعلقہ صنعتوں کو مطلوبہ افرادی قوت نہیں مل سکے گی۔
باقی یورپ کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ خوش حال یورپ اور بہت سے دوسرے مغربی ممالک کے اربابِ اختیار آبادی میں مسلسل کمی پر شدید تشویش کا شکار ہیں۔ صورتِ حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی قوم کی بقا کے لیے آبادی کی شرح پیدائش میں جس کم سے کم اضافے کی ضرورت ہوتی ہے، اکثر مغربی ممالک اس حد تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔ مغرب کی لاتعداد یونی ورسٹیوں اور ’مراکزِ دانش‘ میں اس موضوع پر تحقیق ہو رہی ہے۔ اس وقت یورپ بالخصوص جرمنی خوش حالی اور معاشی ترقی کا رول ماڈل ہے، لیکن اگر آبادی میں کمی کی شرح اسی رفتار سے جاری رہی تو چند عشروں کے بعد آبادی میں کمی کی وجہ سے معاشی بحران کا سامنا کرسکتا ہے ۔
دُور اندیش قومیں آنے والے مسائل کے حل ایک آدھ صدی پہلے تحقیق کے ذریعے ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ’برلن انسٹی ٹیوٹ‘ کے ڈائریکٹر رینہر کولینگس کا یہ کہنا ہے کہ ’’عالمی منظرنامے میں اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے یورپ کو آنے والے دور میں جن جدید اور اختراعی خیالات و افکار اور تجدیدی عمل پسندی کی ضرورت ہے، وہ نوجوانوں کے بغیر ممکن نہیں، لیکن افسوس کہ جن کی تعداد بہت تیزی کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔
ہمارے نزدیک آبادی میں کمی کی واضح وجوہ خواتین کا بڑی تعداد میں ورک فورس کا حصہ بننا، شادی کے رجحان میں کمی، طلاقوں کی زیادتی، ہم جنس جوڑوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینا ہے۔ لیکن اس میں سر فہرست آزادانہ جنسی تعلقات کی قانونی اور معاشرتی اجازت ہے، جس کی وجہ سے جوڑے شادی کی پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے، اور اسے ایک دوسرے کی قید تصور کرتے ہیں۔ مانع حمل طریقوں اور اسقاطِ حمل کے حق نے آزادانہ جنسی تعلقات کو اور بھی آسان کردیا ہے۔ یہ حق بھی ’میرا جسم، میری مرضی‘ کے تحت عورت کے حق کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔
یہ رجحانات محض سماجی تبدیلیوں کا ہی باعث نہیں بن رہے بلکہ فی الوقت مغرب کی سیاست پر بھی اثرانداز ہورہے ہیں، جو اس وقت تارکینِ وطن کے گرد گھوم رہی ہے اور گزشتہ کئی عشروں تک گلوبلائزیشن (عالم گیریت) میں کامیابی کے بعد مغربی معاشرہ دوبارہ نسل پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ایسے میں ’میرا جسم، میری مرضی‘ یعنی فری سیکس کے نعرے کو خواتین کے حق کے طور پر متعارف کروانے کی کوشش کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ آزادانہ جنسی تعلقات خواتین کے خلاف ہی نہیں ملک اور قوم کی بقا کے خلاف بھی سازش ہیں، اور اس سازش کو پروان چڑھانے والے ہی اس کا نشانہ بھی ہیں۔