میڈیا میچ فکسنگ کا ذمہ دار کیسے؟۔

میڈیا پر ایسا بہتان لگایا جارہا ہے جس کا کوئی ثبوت ہے اور نہ واقعاتی شہادت۔ سچ لکھنے اور بولنے والے اہلِ قلم کو زیر کرنے کے خبط میں مبتلا افراد ہوں یا حکومتیں، تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے ہیں۔
محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے بقول اگر سابق وزیراعظم میاں نوازشریف بہ غرضِ علاج لندن میچ فکسنگ کے نتیجے میں گئے ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میچ فکسنگ کا دوسرا فریق کون تھا؟ وزیراعظم پاکستان یا کوئی اور شخصیت یا ادارہ؟ اُن کا اس فکس میچ میں کیا رول تھا جنہوں نے ان کو جانے کی اجازت دی؟ پنجاب کی وزیر صحت کئی روز تک صبح شام میاں صاحب کی بگڑتی صحت سے متعلق پریس کو بریف کرتی رہیں۔ صوبائی وزیر صحت محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد اُس میڈیکل بورڈ کا حصہ تھیں جس نے ابتدائی سفارش کی۔ اس میڈیکل بورڈ نے کراچی سے عالمی شہرت کے حامل ڈاکٹر طاہر شمسی کو بھی بلایا اور راولپنڈی سی ایم ایچ سے وابستہ ماہر ڈاکٹر کو بھی۔ اور سب سے اہم شوکت خانم اسپتال کے انچارج ڈاکٹر فیصل، جن کو وزیراعظم عمران خان نے خود میاں نوازشریف کی بیماری کی حقیقت کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا تھا… ان سب نے ہی میاں نوازشریف کو لاحق شدید پیچیدہ بیماریوں کی نہ صرف تصدیق کی تھی بلکہ بیرونِ ملک علاج کی سفارش بھی کی تھی، جس کے بعد ہی وزیراعظم نے کابینہ اجلاس کے بعد باہر جانے دینے کی منظوری دی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ میاں نوازشریف کے برطانیہ جانے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے جس میڈیکل بورڈ کی رپورٹوں پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا، اُن کی پارٹی کی اہم رہنما پنجاب کی وزیر صحت آج بھی ان میڈیکل رپورٹوں کے درست ہونے کے مؤقف پر نہ صرف قائم ہیں بلکہ یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ ہمارے میڈیکل بورڈ نے میاں نوازشریف کی جن شدید بیماریوں کی نشاندہی کی تھی اُن کی تصدیق لندن میں ڈاکٹروں نے بھی کردی ہے۔ تب ہی تو اس میڈیکل بورڈ کے ارکان کے خلاف تحقیقات کرانے کا شور و غوغا اپنی موت آپ مر گیا۔ جیو نیوز کے اینکر شاہ زیب خانزادہ نے میڈیا پر میچ فکسنگ کے کھیل کا کھلاڑی ہونے کا الزام لگانے والی محترمہ فردوس عاشق اعوان کو اپنے پروگرام میں مدعو کرکے وہ سب بیانات جو میاں نوازشریف کی بیماری، اور علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دینے کے حوالے سے وزیراعظم سے لے کر وزرا اور میڈیکل بورڈ کے سربراہ تک نے بیان کیے تھے، ان کے فوٹیج چینل پر چلا کر پوچھا کہ وہ بتائیں میڈیا اس میں کہاں شامل تھا؟ تو اُن کے پاس آئیں بائیں شائیں کرنے کے سوا کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ چلیے اب تو پنجاب حکومت کی سفارش پر وفاقی حکومت نے برطانوی حکومت سے میاں نوازشریف کو لندن سے پاکستان ڈی پورٹ کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ اس پر کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے انتظار کرتے ہیں کہ برطانیہ وزیراعظم عمران خان کی خواہش کا احترام کرتا ہے یا نہیں؟ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور اُن کے قصیدہ گو مدح خواں اپنی نااہلیوں اور نالائقیوں کا خوداحتسابی کے ساتھ جائزہ لینے کے بجائے سارا ملبہ اُس آزاد میڈیا پر ڈال دیتے ہیں جو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے سوال اٹھاتا ہے۔
یوں تو پاکستان میں کبھی بھی آئین میں دی گئی ضمانت کے مطابق آزاد صحافت نہیں کرنے دی گئی جیسا کہ دنیا کے جمہوری معاشروں میں ہوتا ہے، اور اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو نکیل ڈالنے کی ذمہ داری ریاست کی قرار پاتی ہے۔ ہمارے ہاں تو ابھی تک وہ ادارے ہی نہیں بننے دیے گئے جو حقیقی معنوں میں واچ ڈاک کا کردار ادا کرسکیں ۔ آج آزاد میڈیا اور آزاد منش صحافی جس دبائو کا شکار ہیں اس طرح دبائو میں لانے کے شرم ناک ہتھکنڈے تو بدترین حکومتوں میں بھی نہیں دیکھے گئے۔
آزاد صحافت کا ریاستی جبر کے ذریعے گلا دبانے کی ریت 1958ء کے پہلے مارشل لا میں پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس اور پریس ٹرسٹ کو وجود میں لاکر ڈالی گئی تھی۔ مگر اُس دور میں بھی وہ کچھ نہیں ہوا تھا جو آج دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اُس دور میں جنرل ایوب خان مرحوم جیسے طاقت ور حکمران کے منہ پر سچ بات کہنے والوں پر بھی اس طرح کے الزامات لگانے کی جرأت و ہمت ایوب خان کی کابینہ کے کسی وزیر کو نہیں تھی جیسے جھوٹے، لغو اور بے بنیاد الزامات وزیراعظم عمران خان خود اور ان کے وزیر، مشیر لگانے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔
ماضی کی حکومتوں نے آزاد میڈیا کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اپنی جگہ بالکل درست، مگر وہ قصۂ ماضی اور تاریخ کا حصہ ہے۔ لمحۂ موجود میں جو کچھ ہورہا ہے اُس کا جواب جناب عمران خان کی حکومت کو دینا ہے۔ چرب زبان میڈیا منیجرز اس کا تدارک ماضی کے حکمرانوں پر تبرا کرکے نہیں کرسکتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عامل صحافیوں کی تمام پیشہ ورانہ تنظیموں (خواہ ان کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکٹرانک میڈیا سے) اور میڈیا ہائوسز کے مالکان و ایڈیٹرز کو تمام وقتی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر مکمل یکسوئی کے ساتھ آزاد صحافت کو لاحق ان خطرات کی روک تھام کے لیے قدم سے قدم ملا کر چلنا پڑے گا۔ اس وقت آزاد میڈیا کا وجود مٹانے کے لیے نت نئے حربے اختیار کیے جارہے ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے جتنے عامل صحافی اِس دور میں بے روزگار ہوئے اس کی ماضی کی کسی حکومت کے دور میں مثال نہیں ملتی۔ اور اِس وقت جتنا جھوٹ بولا جارہا ہے اور جتنی جعلی خبریں نامعلوم ذرائع سے ’’باوثوق ذرائع‘‘ کا سہارا لے کر چلوائی جارہی ہیں اور سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے، یہ بھی انہی کا طرۂ امتیاز ہے۔
اب آخر میں ایک واقعے کا ذکر، جو معروف بیوروکریٹ، مصنف اور کالم نگار الطاف گوہر مرحوم (جو جنرل ایوب خان کے دور میں اطلاعات و نشریات کے وفاقی سیکرٹری تھے) نے ایک محفل میں بیان کیا تھا اور بعد میں اپنی کتاب میں تحریر بھی کردیا۔ وہ کہتے ہیںکہ میں نے صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کی خواہش پر مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی قیصر اللہ شاہد کو جو اُس وقت فیڈرل یونین آف جرنلسٹ پاکستان کے صدر تھے، اور جنہوں نے اپنے تند و تیز اور کاٹ دار کالموں سے صدر صاحب کی ناک میں دَم کر رکھا تھا، اپنے ذاتی تعلقات کو کام میں لا کر صدر صاحب سے ملاقات پر راضی کرلیا۔ صدر ایوب خان نے قیصر اللہ شاہد کو خوش آمدید کہنے کے بعد سوال کیا ’’آپ میری حکومت کے خلاف اتنا تند و تیز لہجہ کیوں اختیار کیے رکھتے ہیں؟‘‘ قیصر اللہ شاہد نے ترنت جواب دیا ’’میں تو اُن امور کی نشاندہی کرتا اور عوام کے سامنے لاتا ہوں جو عوام اور ملک کے مفاد کے خلاف آپ کی حکومت کرتی ہے، اور ایسا کرنا میری پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے‘‘۔ صدر صاحب نے دوسرا سوال کیا ’’کیا میری حکومت نے کوئی ایک بھی اچھا کام نہیں کیا؟‘‘ قیصر اللہ شاہد نے کہا ’’کیا ہوگا‘‘۔ صدر صاحب بولے ’’پھر آپ نے اس کی تعریف کیوں نہیں کی؟‘‘ قیصر اللہ شاہد کا جواب تھا ’’کون ساکام ہے جس کی بھرپور کوریج میڈیا نے نہیں کی؟ ایونٹ کو کور کرنا میری پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے جو میں مکمل غیر جانب داری اور دیانت داری کے ساتھ ادا کرتا ہوں۔ البتہ اگر آپ کی مراد اس سے آپ کی مدح سرائی یا آپ کی حکومت کی قصیدہ گوئی ہے تو مجھے معاف فرمایئے، یہ میرے فرائض میں شامل نہیں ہے اور نہ میں ایسا کرنا پسند کرتا ہوں‘‘۔ انہوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ کام اس الطاف گوہر اور آپ کے وزیر اطلاعات کا ہے جو اس کام کا معاوضہ سرکار سے لیتے ہیں، اس کا مطالبہ ان سے کریں۔‘‘
قیصر اللہ شاہد رخصت ہوگئے تو ایوب خان کے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’ آدمی توجی دار ہے۔‘‘