مقبوضہ جموں وکشمیر کے لیے 37 قوانین کی منظوری
بھارت نے پانچ اگست کے فیصلے کے اصل اور طویل المیعاد مقاصد کی طرف عملی پیش رفت کا آغاز کردیا ہے۔ بھارتی کابینہ کے ایک اجلاس میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے لیے 37 قوانین کی منظوری دی گئی۔ ان قوانین کے تحت بھارت کے تمام قوانین ازخود جموں وکشمیر پر لاگو ہوں گے۔ دفعہ 370اور 35-A کے خاتمے سے پہلے بھارتی پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کا اطلاق جموں وکشمیر پر نہیں ہوتا تھا، بلکہ اس کے لیے کشمیر اسمبلی کی منظوری لازمی ہوتی تھی۔ پانچ اگست کو یہ رکاوٹ دور کرنے کے بعد اب بھارت نے 72 سال تک خصوصی قوانین اور الگ شناخت کی حامل ریاست کو مرکزی قوانین کے دائرۂ اختیار میں لانے کا عمل تیز کردیا ہے۔
37 قوانین میں سے ایک یعنی بحالی اور آبادکاری ایکٹ کے تحت بھارتی شہری مقبوضہ جموں وکشمیر میں زمین اور جائداد خریدنے کے اہل ہوں گے۔ دفعہ 35-Aکی یہی وہ شق تھی جس نے کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بھارتی خواہشات کے آگے کسی حد تک بند باندھ رکھا تھا۔ اس شق کے خاتمے کے بعد اب بھارت پوری قوت کے ساتھ کشمیر پر فلسطین ماڈل کا اطلاق کرنے جارہا ہے۔ اس منصوبے کی ایک ہلکی سی جھلک بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے اس بیان میں بھی نظر آرہی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وادیٔ کشمیر میں پنڈتوں کی آبادکاری کے لیے تین مخصوص علاقے مختص کیے جارہے ہیں۔ حکومت غیر کشمیری سرمایہ کاروں کے لیے ساٹھ ہزار کنال اراضی فراہم کرچکی ہے۔ ہندو مندر کے لیے بھی سو کنال اراضی فراہم کی گئی ہے۔
امیت شاہ کا یہ بیان واضح کررہا تھا کہ بھارت نے اپنے اصل اور پوشیدہ مقاصد اور عزائم کی تکمیل کے لیے قدم بڑھانا شروع کردیے ہیں۔ جموں میں مسلمانوں کی چار ہزار کنال اراضی مختلف مقاصد کے لیے ہتھیائی جا چکی ہے۔ بھارتی حکومت دو سے تین لاکھ پنڈتوں کو واپس وادی میں بسانے اور سرمایہ کاری کے نام پر بھارتی ہندوئوں کا ایک ریلا وادی میں داخل کرنا چاہتی ہے۔ بھارتی سرمایہ کار خود یا اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے کشمیریوں کی زمینیں منہ مانگے داموں خرید کر آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کردیں گے۔ یہ کام صرف فلسطین میں ہی نہیں ہوا بلکہ دنیا میں کئی اور مقامات پر بھی آبادکاری کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرکے زمینی صورتِ حال کو تبدیل کیا گیا ہے۔
بھارت کشمیر تنازعے کی نوعیت تبدیل کرنے کے لیے فلسطین ماڈل اپنا رہا ہے۔ ’نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری‘ کے مصداق جب آبادی کا وجود ہی بے معنی ہوجائے گا تو پھر اس کے نعروںکی شدت اور بغاوت کی طاقت بھی کم اور بے وقعت ہوکر رہ جائے گی۔ مسلمان اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کے لیے بھارت کا یہی منصوبہ تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کیس میں کشمیریوں کا حامی پاکستان مصر اور اردن کی طرح کشمیریوں کو تنہا چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوا۔ پانچ اگست کو مودی حکومت نے ایک جست میں یہ سارا سفر طے کرلیا، اور اب بہت عجلت میں بھارتی حکومت وہ تمام اقدامات اُٹھا رہی ہے جن سے اصل منزل کی جانب تیزی سے پیش رفت ہو۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ بھارت نے جموں وکشمیر کی شناخت کو پامال کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اس پر نظرثانی کرنے پر تیار نہیں، بلکہ اس راہ پر اتنا دور نکل جانا چاہتا ہے کہ واپسی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ یہ ساری صورتِ حال پاکستان کے منصوبہ سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آخر ان کے پاس بھارت کے اس قدم کا جواب کیا ہے؟ بظاہر تو پاکستان اس ساری صورتِ حال کا مقابلہ سیاسی، سفارتی اور پُرامن انداز میں کرنا چاہتا ہے، مگر یہ حکمتِ عملی زمینی حقائق کو تبدیل ہونے سے نہیں روک سکتی۔ بھارت کے یک طرفہ اقدامات کے نتیجے میں لامحالہ پاکستان میں بھارتی اقدامات کی عملی مزاحمت اور مقابلے کی سوچ پروان چڑھنا شروع ہوگی۔ یہ سوچ پہلے ہی خاصی مقبول اور توانا ہے۔ سوچ کے ان شعلوں کو معمولی سی ہوا کی ضرورت ہے، اور نریندر مودی یہ ہوا دیے جارہے ہیں۔ بھارت کے یک طرفہ اقدامات کے بعد جنوبی ایشیا کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا، مگر جلد یا بدیر حالات پاکستان کو بھی اُس مقام پر پہنچا کر چھوڑیں گے جہاں ٹویٹ اور تقریریں بے معنی لگنے لگیں گی۔
اس دوران اسلامی ملکوں کی تنظیم اوآئی سی کو سات ماہ بعد ہی سہی، آخرکار کشمیر کے حالات معلوم کرنے کا خیال آہی گیا۔ گوکہ اس احوال پُرسی کے لیے او آئی سی کو آزادانہ طریقے سے اصل مقام سری نگرجانے کی اجازت نہیں ملی، یا او آئی سی نے ایسا کرنے میں دلچسپی ہی نہیں دکھائی، مگر یہ بھی غنیمت ہے کہ اس ادارے کو ایک وفد آزاد کشمیر بھیج کر بالواسطہ طور پر کشمیر کے حالات جاننے کا خیال آگیا، جس کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کے نمائندے مسٹر یوسف الدوبے کی قیادت میں ایک وفد نے اسلام آباد اور مظفرآباد کا دورہ کیا۔ مظفرآباد میں وفد نے کئی ذمہ داران سے ملاقاتوں کے علاوہ چکوٹھی میں کنٹرول لائن کا دورہ بھی کیا۔ اس دوران وفد کو مقبوضہ کشمیر کے حالات کے بارے میں بریفنگ بھی دی جاتی رہی۔ او آئی سی کے نمائندے کی طرف سے ان خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا کہ تنظیم کشمیر کی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور مسئلے کے پُرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کررہی ہے۔
مسٹر یوسف الدوبے کو او آئی سی میں کشمیر رابطہ گروپ کے سربراہ کا نمائندۂ خصوصی کہاگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس دورے کی رپورٹ کشمیر رابطہ گروپ کو دی جائے گی، جس کے بعد رابطہ گروپ یہ رپورٹ پڑھ کر الماری میں سجا دیتا ہے یا اس پر مزید کارروائی کی جاتی ہے، اس بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں، مگر ماضی کے آئینے میں مسلمانوں کی اس تنظیم کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہ دل خراش حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ پانچ اگست کے بعد جس عالمی تنظیم نے سب سے کم سرگرمی دکھائی وہ 57 باوسیلہ ملکوں کی تنظیم او آئی سی تھی۔ ایک مدت تک تو یہ تنظیم مفقودالخبر ہوکر رہ گئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اس تنظیم کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ حد یہ کہ تنظیم کے کارپردازان اور فنانسر تو پاکستان کے پاس بھی یہ فرمائش لے کر آئے تھے کہ مسئلہ کشمیر کو امتِ مسلمہ کا مسئلہ بنا کر پیش نہ کیا جائے۔ اس فرمائش کا پس منظر کیا تھا، یہ ایک معما ہے۔ حقیقت میں اس کا مقصد ایک تو بھارت کو سُبکی اور شرمندگی سے بچانا تھا، اور دوسرا یہ کہ کشمیر کے حوالے سے مسلم دنیا کی رائے عامہ کو جذباتی ہونے سے بچانا تھا۔ یہ تو بھلا ہو ترکی کے صدر رجب طیب اردوان، ملائشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کا، جنہوں نے مصلحت کی قبا تارتار کرکے کشمیر پر کھل کر حق وانصاف کا ساتھ دے کر ملتِ مرحوم کی کچھ نہ کچھ آبرو رکھ لی۔ وگرنہ اُمت کے تصورات سے روحانی اور معاشی فوائد اور تسکین حاصل کرنے والے ملک تو کشمیر کو اعلانیہ طور پر بھیڑیوں کے آگے پھینک کر نیرو بن کر بیٹھ گئے تھے۔ طیب اردوان اور مہاتیر محمد کی طرف سے کشمیر پر زوردار مؤقف اپنانے کے بعد بھی او آئی سی کی بے حسی کا گلیشیر پگھل نہ سکا، یہاں تک کہ ’چورکی داڑھی میں تنکا‘ کے مصداق او آئی سے کے کارپردازوں نے ملائشیا کانفرنس کو او آئی سی کو بائی پاس کرنے اور ایک متوازی پلیٹ فارم تیار کرنے کی کوشش اور خواہش کا آئینہ دار سمجھ لیا، جس کی وجہ سے پاکستان اس کانفرنس میں شریک نہ ہوسکا۔ اس کے بعد ہی او آئی سی کے ایک خصوصی اجلاس کے حوالے سے باتیں سامنے آنے لگی تھیں۔ یہ اجلاس تاحال منعقد نہیں ہوسکا مگر اوآئی سی نے ایک وفد اسلام آباد اور مظفر آباد روانہ کردیا۔ یہ وفد کسی ٹھوس مؤقف کا اظہار تو نہ کرسکا، مگر عین ممکن ہے کہ اپنی رپورٹ کی صورت میں او آئی سی میں حالات کی تصویرکشی کرے۔
او آئی سی فلسطین میں اپنا کردار محدود کرتے کرتے ختم کر بیٹھی ہے۔ اب یہی رویہ کشمیر کے حوالے سے اپنایا گیا، جس کے بعد پاکستان میں بھی اس ادارے کے بے مقصد اور فضول ہونے کا تاثر بہت گہرا ہوگیا ہے۔ بالخصوص پانچ اگست کے بعد ادارے کی غیر فعالیت اور بے حسی نے پاکستان اور کشمیری عوام کا اعتماد بری طرح مجروح کیا ہے، اور اب بھارت کے اٹھارہ کروڑ مسلمان بھی اس ادارے سے مایوس ہورہے ہیں، کیونکہ یہ تنظیم بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد میں کشمیر کی ہی طرح گونگی بہری بن کر رہ گئی ہے، جس سے او آئی سی سے مایوس ہوجانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ او آئی سی کو اپنی اہمیت، افادیت اور ساکھ کو بحال کرنے کے لیے زمین پر نظر آنے والی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اب مسلمانوں کو درپیش مسائل پر صرف اجلاس منعقد کرنے اور تشویش، مذمت اور افسوس کا اظہار کرنے کے روایتی گھسے پٹے انداز اس ادارے کی بازیافت کاکام نہیں کرسکتے۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد اور وجود کا جواز بھلے سے تشویش اور مذمت ہی رہا ہو، مگر آنے والے دنوں میں جس طرح مسلمان معاشروں کو چیلنج درپیش ہوں گے، اُس ماحول میں او آئی سی نے اس کاغذی اور نمائشی کردار سے بڑھ کر کوئی نیا لائحہ عمل اختیار نہ کیا تو یہ تنظیم عرب کے صحرائوں میں ریت کے ذروں کی مانند بکھر جائے گی، مگر مسلمان دنیا کی قیادت کا یہ خلا تادیر قائم نہیں رہے گا۔ اور عین ممکن ہے کہ عالمِ عجم سے کوئی منہ پھٹ، گستاخ اور جرأتِ رندانہ کی صفت رکھنے والا قائد مسلمانوں کی اجتماعی آواز بن کر کسی نئے پلیٹ فارم کی بنیاد رکھ دے، اور پھر مسلمان دنیا اس آواز کے گرد جمع ہوتی چلی جائے، اس سے پہلے او آئی سی کی قیادت کو اپنا طرزعمل تبدیل کرنا ہوگا۔