سید عرفان علی شاہ/ترجمہ: اسامہ تنولی
معروف تجزیہ نگار سید عرفان علی شاہ نے اپنے زیر نظر کالم میں جو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر بروز بدھ 4 مارچ 2020ء کو چھپا ہے، ہمارے معاشرے کے موجودہ حالات اور نفسیات پر عمدگی کے ساتھ اظہارِ خیال کیا ہے، جسے قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔
’’نپولین کا یہ قول بہت زیادہ مشہور ہے کہ ’’دنیا میں ظلم، ظالموں کی وجہ سے نہیں، بلکہ شرفا کی خاموشی کے سبب ہے‘‘۔ اسی طرح سے میرے خیال میں سیاست میں خرابیاں اَن پڑھ، کم عقل اور غیر ذمہ دار افراد کی وجہ سے نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور ذمہ دار افراد کی وجہ سے ہیں۔ کہتے ہیں کہ فیصلہ کرنے میں جتنی زیادہ دیر لگے گی فیصلہ اتنا ہی کمزور ہوگا۔ قدرت نے ہمیں زبردست صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، لیکن جو افراد اِس دنیا میں پہلے سے ہیں، وہ اپنی عقل اور تجربے کی بنیاد پر نئے پیدا ہونے والوں کو اپنے جیسا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچہ اپنی صلاحیت کا اظہار اپنے بچپن ہی سے سوال پوچھنے سے کردیتا ہے، اور ہم بڑا ہتھوڑا اٹھاکر اُس کے ہر تخلیقی سوال کو جواب کی صورت میں زندہ رکھنے کے بجائے ’’ابھی تم چھوٹے ہو‘‘ اور ’’چپ کرو‘‘ کہہ کر اسے مارکر دفن کردیتے ہیں۔ اس کی ہر بات پر ناسمجھ بچے کی مہر ثبت کردیتے ہیں۔ جب تک وہ ہماری جیسی باتیں نہیں کرتا، اُسے تجربہ کرنے کی آزادی دے کر ازخود چیزوں یا اشیاء کو سمجھنے کے لیے آزاد چھوڑنے کے بجائے ہم سارے تجربات اُس پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا آج جہاں پر پہنچی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ ہر زمانے میں کچھ افراد نے اپنی صلاحیتوں پر یقین کرتے ہوئے اپنے زمانے سے بغاوت کی، یعنی اپنی عقل و فہم کے مطابق عمل کیا۔ وگرنہ آج بھی انسان جنگلوں ہی میں بسیرا کیا کرتے۔
اسلام کہتا ہے کہ ’’مشورہ ایک امانت ہے، اگر آپ سے کوئی مانگے تو آپ اُسے ایمان داری سے دیں‘‘۔ ہمارے معاشرے میں کیا ہورہا ہے؟ جس بات کا ہمیں تجربہ ہے اور جو ہم کررہے ہیں، اُس کے بارے میں اگر کوئی ہم سے پوچھے تو ہم جواب دیتے ہیں کہ ’’بے حد مشکل کام ہے، مت کرنا، میں تو مجبوری کی وجہ سے یہ کام کررہا ہوں‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی آگے بڑھے۔ اور جس کام کے متعلق ہمیں علم نہیں ہے ہم کہتے ہیں کہ ’’بہت زبردست کام ہے، آپ کو ضرور کرنا چاہیے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ’’جائو! جاکر برباد ہوجائو، ہماری بلا سے!‘‘
تحریر بھی مشورے کی مانند ایک امانت ہے۔ آپ کو نہیں پتا کہ دنیا کے کون سے گوشے میں کون آپ کو پڑھ رہا ہے، آپ کی تحریر کسی کی زندگی سنوار بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی سکتی ہے۔ ہمارے نیم تعلیم یافتہ معاشرے میں جب ہمارے جیسے افراد دو کتابیں پڑھ لیتے ہیں تو ہر جگہ اپنے لیے منبر (اونچی جگہ) تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں تاکہ ہم سب لوگوں میں سب سے بڑھ کر اونچے، ممتاز اور نمایاں دکھائی دیں۔ اونچائی علم اور کردار دونوں سے ملتی ہے۔ علم نہ ہو تب بھی کردار زندہ رہ سکتا ہے، لیکن کردار کے بغیر علم کسی کام کا بھی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے علم خود کو افضل اور دوسروں کو کم تر بنانے (یا جتانے) کے لیے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ علم بندوق کی مانند حاصل تو ہوا، لیکن وہ حفاظت کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کو لُوٹنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ میرے مشاہدے اور تجربے میں یہ بات آئی ہے کہ علم کے نام پر معاشرے میں اگر کسی نے تھوڑا بہت نام کمایا ہے تو اُس نے عام افراد سے لاتعلقی اختیار کرلی، یا یوں کہیے کہ اُس کا لوگوں سے براہِ راست تعلق کم یا ختم ہوکر رہ گیا، یا اُس کے چار شاگرد بھی نہیں بنے جو اُس کے کہے پر عمل پیرا ہوتے۔ اہلِ علم کا دوسرا طبقہ ایسا ہے جس نے معاشرے کی خرابیوں سے مایوس ہوکر خود کو ایک طرح سے لاتعلق کرلیا۔ صرف دوستوں کے حلقے میں بے بسی کا رونا روکر پھر خود کو گھر میں مقید کرڈالا۔ یہی لوگ ہیں جو دراصل معاشرے کی تباہی و بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس وقت تین طبقات ہیں: ایک وہ جو لٹ رہے ہیں یعنی عام لوگ، دوسرا وہ طبقہ جو لوٹ رہا ہے، اور تیسرا وہ طبقہ جو سب سمجھتا اور دیکھتا ہے لیکن خاموش ہوکر بیٹھ گیا ہے۔ اس معاشرے کی تباہی کا سب سے بڑا ذمہ دار یہی تیسرا طبقہ ہے، جو نہ خود باہر نکلتا ہے اور نہ ہی مظلوموں کی رہنمائی کرتا ہے۔ میں اکثر اپنے گوٹھ سے تعلق رکھنے والوں سے یہ سوال کیا کرتا ہوں کہ کراچی میں امراضِ گردہ کا اسپتال SIUT ہے۔ اس میں کتنے فیصد مریضوں کا تعلق گوٹھوں اور دیہات سے ہے؟ اور ہمارے صاحبِ حیثیت افراد کا ایسے اداروں کے قیام یا چلانے وغیرہ میں کتنا حصہ ہے؟ اگر ہم گھر کے پانچ افراد ہیں تو کیا ہم پانچ سو روپے بطور صدقہ نکال کر نہیں دے سکتے؟ پھر اس پانچ سو روپے کے سوال کا جواب اور پیسے نہ دینے کی وجہ اتنی طولانی ہوتی ہے کہ جب تک آپ کی چائے کا بل ہزار روپے سے تجاوز نہ کرجائے اور ہوٹل والا آپ سے یہ نہ کہہ دے کہ ہوٹل کو بند کرنے کا وقت ہو چلا ہے، اُس وقت تک آپ کے دلائل بھی جاری و ساری رہیں گے۔ آخر میں ہر کوئی ہزار روپے کا بل دینے کے لیے اپنی اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہتا ہے کہ ایسے کاموں کے لیے وقت اور پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم اپنی ہی ضروریات کو پورا کرنے میں پورے ہوگئے ہیں (یعنی بمشکل اپنی ضروریات ہی کو پورا کرسکتے ہیں۔ مترجم)۔
آپ ملاحظہ کیجیے کہ ہمارا معاشرہ کس نہج پر آن کھڑا ہوا ہے۔ اپنا نام روشن کرنے کے لیے اور نمود و نمائش کی خاطر قرض لے کر بھی بڑی دعوت کرنا لازمی ہے۔ کھانے کی پلیٹ کھانے سے اتنی لبریز کرلیتے ہیں کہ چاول ہر طرف زمین پر بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جنہیں اپنے جوتوں تلے روندتے ہوئے نوشہ میاں (دولہا) کو مبارک باد دیتے ہوئے ساتھ میں یہ کہتے جاتے ہیں کہ کھانا مزے کا نہیں تھا۔ اور گاڑی کے پاس اگر کوئی فقیر صدا دے تو اُسے ڈانٹ ڈپٹ کر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے یہ تبصرہ کرنے لگتے ہیں کہ ’’یہ لوگ تو کبھی شکم سیر نہیں ہوں گے‘‘۔ دنیا میں ہم سب ایسے ہی ہیں جس طرح کا ہمارا معاشرہ ہے۔ معاشرہ ہم سب کو ملاکر بنتا ہے۔ اس کا درست، غلط، اچھا، برا وہی ہوتا ہے جسے ہم تسلیم کرکے زندگی گزارتے ہیں۔ وقت ایک ایسی چیز ہے جس کا تھمنا یا رکنا ناممکن ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھی تبدیلی آنی چاہیے، کیوں کہ ہر جامد شے بدبودار یا بے جان ہوجایا کرتی ہے۔ وقت ایک سواری ہے جس پر ہم سوار ہیں۔ اگر ہم خود کو تبدیل نہیں کریں گے تو کوئی اور ہمیں تبدیل کر ڈالے گا (یعنی دوسروںکے خیالات اور ایجادات ہمارے معاشرے پر حاوی اور اثرانداز ہوجائیں گی)۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم وقت پر سوار ہونا اور اسے چلانا سیکھیں، اور اس کے ساتھ خود بھی چلنا سیکھیں۔ معاشرے میں صحیح یا غلط وہ ہے جو ہم ایک دوسرے کے ساتھ بولتے ہیں۔ اگر اعتماد اور دلیل کے ساتھ جھوٹ بولا جائے تو وہ معاشرے کا حصہ بن جاتا ہے۔ عقائد معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں، اور بنیاد کو چلانا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا وہ جو ذمہ داران ہیں اور برے بھلے کی تمیز رکھتے ہیں انہیں اپنی خاموشی اور سکوت کو توڑ کر معاشرے کا چہرہ بننا چاہیے، اور اس میں تبدیلی لانے کی اپنی ذمہ داری کو نبھانا چاہیے۔
دنیا میں سب سے بڑی جنگ اعصاب کی ہوتی ہے۔ کمزور طبقہ جو اپنی فتح سمجھ کر خاموشی کے ساتھ ہار مان جاتا ہے، اور کچھ ذمہ دار افراد ہوتے ہیں جو معاشرے کی جنگ اپنے آپ سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور خود اپنے آپ سے ہار جایا کرتے ہیں، اور اس طرح سے سارا معاشرہ ہتھیار پھینک دیتا ہے بغیر کوئی لڑائی لڑے یا جنگ کیے… اور ایسا معاشرہ پھر دوسرے معاشروں کو اثرات قبول کرنے لگ جاتا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی لوگوں نے باہر نکل کر اعصاب کی جنگ لڑی ہے انہوں نے نہ صرف جنگ جیتی ہے بلکہ دیگر معاشروں کو بھی اپنے زیراثر رکھا ہے۔ مثلاً آپ اپنے معاشرے کے عام ذمہ دار افراد سے کچھ بنیادی سوالات پوچھیے، آپ حیران ہوجائیں گے کہ سارے معاشرے کے جوابات ایک ہی جیسے ہوں گے، مثلاً یہ کہ ’’بھلا مجھ اکیلے کے کرنے سے کیا ہوگا! یہ کام تو سیاست دانوں کا ہے‘‘، یا یہ کہ ’’کچھ نہیں ہوسکتا، جو نصیب میں ہے وہی ہوگا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ہمارا پورا معاشرہ اعصابی جنگ میں شکست کھا چکا ہے اور اس کو تسلیم کرچکا ہے کہ جو بھی ملے چاہے عزت ہو یا پھر ذلت، ہار ہو یا جیت، خیرات ہو یا کسی کا احسان… سب کو اپنا نصیب سمجھ کر تسلیم کرلینا چاہیے اور اپنی کمزوریوں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر مان لینا چاہیے، پھر خواہ حکمران ظالم ہو یا نالائق، پانی گندہ اور آلودہ ہو، بجلی غائب ہو، بیٹیوں کی عزت لٹتی رہے… سب کچھ کو اپنی قسمت کا لکھا جان کر قبول کرلینا چاہیے، حالانکہ رب العزت کا فرمان ہے کہ ’’میں اُن اقوام کی حالت تبدیل نہیں کیا کرتا جو اپنی حالت بدلنے کے لیے خود سعی اور کوشش نہیں کرتیں‘‘۔ ہمارے ذمہ داران پہلے تو کوشش ہی نہیں کرتے، اور بالفرض اگر کوشش کرنے کی زحمت گوارہ کرتے بھی ہیں تو کامیابی کی گارنٹی یقینی طور پر ہو، تب۔ وگرنہ دم سادھے رہتے ہیں، درآں حالیکہ گندم کا ایک دانہ بھی پیدا کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ آپ کو محض کوشش کرنی ہے اور گندم کا دانہ زمین تیار کرکے اس میں بونا ہے۔ اس کے بعد کا اختیار کسی اور کا ہے۔ اسی طرح سے معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے بھی آپ کو صرف کوشش کرنی ہے، اور کوئی بھی کوشش رائیگاں نہیں جاتی۔ نمک، مرچ یا کوئی بھی دوسرا مسالا چاہے تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ ہو، ذائقہ بدلنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔ ہزاروں برس کی کوشش کے بعد کہیں جاکر ہم نے یہ سیکھا ہے کہ اچھے ذائقے کے لیے مسالے کی مقدار کتنی ہونی چاہیے۔ معاشرے میں تبدیلی کے لیے کتنی اور کس انداز میں کوشش ہونی چاہیے، یہ تجربہ بتائے گا۔
سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ سے اعصابی جنگ لڑنی ہوگی اور منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کرنا پڑے گا، تاکہ ہماری تھوڑی سی کوشش بھی کچھ نہ کچھ بہتری لاسکے۔ معاشرے میں اسی وقت تبدیلی برپا ہوگی جب آپ میں اور آپ کے آس پاس تبدیلی آئے گی۔ دنیا کے فاتحین کو یہ خبر نہیں تھی کہ وہ کتنی دنیا فتح کریں گے، لیکن انہیں بہرحال اپنے آپ پر یہ یقین ضرور تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ تبدیل کرسکتے ہیں۔ خون کی ایک بوتل، لائبریری کے لیے ایک کتاب، ایک شجرِسایہ دار لگانا، کسی کا غم بانٹنے کے لیے ایک ہمدردی بھرا بول کہنا، ایک درست مشورہ، طنز کے بجائے تعریف اور ستائش کے حرفے چند اور میٹھے بول، ہاتھ ملانے کے بجائے آگے بڑھ کر گلے لگا کر ملنا، (مصافحہ کے بجائے معانقہ کرنا)، بیمار کی تیمارداری کرنا، یتیم کا خیال رکھنا، صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا، دو چار دوستوں کے ساتھ مل کر عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنا… یہ اتنے بڑے امور (کام) نہیں ہیں جو کہ ناممکن ہوں۔