گنبد ِصخرہ… مدینہ ازہرہ… اور الحمرا

مائیکل ہیملٹن مورگن/ترجمہ و تلخیص:ناصر فاروق
۔’’ان کے لیے سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے۔ باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اور اُونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے۔‘‘ (سورہ کہف، آیت 30)
یروشلم، 691ء… شہر مقدس میں دینِ ابراہیمی کے تینوں مذاہب جہاں ملتے ہیں، وہاں سونے کا ایک گنبد تعمیر کیا جارہا تھا۔ نیلے اور سفید ٹائلوں سے مزین آٹھ کونوں والی یہ عمارت، اور سنہرا گنبد فنِ تعمیرکا شاہکار ہے۔ اس گنبد تلے ایک ٹیلہ ہے، جو یہودیت کی بنیاد ہے۔ اُن کا عقیدہ ہے کہ اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کوقربان کرنے والے تھے۔ مسلمانوں کے لیے یہ وہ مقام ہے جہاں سے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کی معیت میں سفرِ معراج کیا۔ نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے ساٹھ سال بعد، اموی امیر عبدالملک کے حکم پر691ء میں گنبدِ صخرہ تعمیر کیا گیا، یہ اس عہد کا پائیدار ترین تعمیری نمونہ ہے۔ آٹھ زاویوں کا یہ عمارتی ڈھانچہ دہرے ستونوں کے سلسلے پراستوار ہے۔ عمارت کے اندرونی حصے میں عمدہ گُل کاری اور سنہری استرکاری کی گئی ہے۔
جب گنبدِ صخرہ پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں، تو شہر مقدس کا حُسن نکھرجاتا ہے۔ دینِ ابراہیمی کا یہ امتیازی نشان تیرہ صدیوں سے اصل قدیم حالت میں قائم ہے۔ عبدالملک کے بعد، مسلم امراء اور حکام انیسویں صدی تک اس کی تزئین وآرائش مسلسل کرتے رہے۔ یہ مسلم فنِ تعمیر کا شاہکار ہے، اس کی تاریخ گُم گَشتہ نہیں، شاید اس کی وجہ اسلام کے علاوہ دیگر دو مذاہب کے لیے اس مقام کا یکساں مقدس ہونا ہے۔ جبکہ بغداد کے فنی شاہکار اور شان و شوکت ہلاکو خان کے ہاتھوں قصۂ پارینہ ہوئے۔
اندلس کا ایک تباہ شدہ شاندار شہر قرطبہ تھا، جو ایک ہزار سال قبل قائم کیا گیا تھا، آج وہ تاریخ میں کہیں گم ہے۔ جہاں کبھی زندگی کے رنگ اور رونقیں زندہ تھیں، آج یہاں آنے والوں کوSierra Morena کے قدیم پتھروں میں اس کے مٹے مٹے سے آثار ملتے ہیں۔ جب المرابطون کے ہاتھوں امویوں پر زوال آیا، بھولے بسرے اشبیلیہ کے محلات پہلے کھنڈر اور پھر بکھرے پتھر ہوگئے۔ یہاں نئی عمارتوں کی بنیادیں اٹھائی گئیں، مسلمانوں کے قلعہ کی جگہ عیسائی بادشاہ پیٹرکا قصر اشبیلیہ (Alcazar of Seville) تعمیر ہوا۔ سین جیرونیموکی خانقاہ اٹھائی گئی۔ سنگِ مرمر کے چُرائے گئے ستونوں پرکئی نئے محلات استوار کیے گئے۔ فوارے کئی صدیوں تک گرد وغبارسے اٹے رہے، حوض گندگی سے بھرے رہے۔ یہاں تک کہ اس جگہ کا نام بھی تاریخ میں گُم کردیا گیا۔ وہ دن بھی آیا جب مدینہ ازہرہ ’’قدیم قرطبہ‘‘ کہلایا۔ کوئی اُس نام کی وجہ تسمیہ تک نہ جانتا تھا، اسے امیر عبدالرحمان سوئم نے سب سے عزیز بیوی زہرہ کے نام سے منسوب کیا تھا۔ زہرہ انتہائی زیرک اور ذہین خاتون تھی۔ اُس کے مشوروں نے ریاست اور سیاست کے معاملات میں خاص اہمیت اختیار کرلی تھی۔
یہ خوبصورت شہر ایک میل طویل اور نصف میل سے زائد چوڑا تھا۔ تین نشیبی رستے وادی الکبیرکی جانب نکلتے تھے۔ ایک چڑیا گھر اور مچھلیوں سے بھرے چار تالاب بنائے گئے تھے، تین سو حمام خانے تھے، محل سے ملحق چار سو عمدہ رہائش گاہیں تھیں، ایک اسلحہ خانہ تھا۔ شاہی محل فنِ تعمیرکا حیرت کدہ تھا۔ جلسہ مشاورت کا ایک بڑا کمرہ تھا جوتراشیدہ شیشوں اور بلور سے آراستہ تھا، جب سورج کی کرنیں ان پر پڑتی تھیں تو قوسِ قزح کے رنگ کمرے میں بکھرجاتے تھے۔ ایک اور کمرے کے وسط میں پارہ سیاب کا بہت بڑا کاسہ رکھا گیا تھا، جوسورج کی کرنیں پڑنے پر درودیوار روشن کردیتا تھا۔ اس عظیم طرزِ تعمیر میں یہودی سرمایہ کار حصدائی بن شاپرت کا اہم کردار تھا۔ وہ ریاست کا وزیراعظم تھا، اور اس شہرکی تعمیر و ترقی میں پیش پیش رہا تھا۔
مصرکے قبطی عیسائی مؤرخ المکین نے خلیفہ کے درباری ابن حیان کے حوالے سے اُس دور کے فنِ تعمیر پر تفصیل سے لکھا ہے:
’’یہ تیرہویں صدی کا زمانہ تھا۔ عبدالرحمان سوئم کے عہد میں چھے ہزار پتھروں کے چھوٹے بڑے ٹکڑے مختلف شکلوں میں تراشے گئے، اور پھر انھیں چمکایا گیا، ہموار بنایا گیا، اور تعمیرات میں استعمال کیا گیا۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار بار بردار جانور تعمیری منصوبوں پر یومیہ مصروف رہے۔ ہزاروں اونٹ اور خچر منوں چونا اور سنگِ رخائم لاد کر قافلوں کی صورت یہاں سے وہاں آتے جاتے نظر آئے۔ یہ باربردار جانور ہزاروں مثقال ماہانہ کرائے پر حاصل کیے گئے۔ شاہی محل کے لیے چھوٹے بڑے ستون لائے گئے، یا بنائے گئے۔ ان میں سے کچھ روم سے منگوائے گئے، 19 ستون فرانس سے لائے گئے، اور 140 قسطنطنیہ کے بادشاہ نے تحفہ کیے۔ سبز اور دیگر رنگوں کے 1013 بڑے سنگِ مرمر قرطاجنہ تیونس سے لائے گئے۔ دیگراندلس ہی سے حاصل کیے گئے۔‘‘
ابن حیان مدینہ ازہرہ کی نیرنگیوں پرمزید لکھتا ہے: ۔
’’دو فوارے اور حوض فنِ تعمیر کا منفرد شاہکار تھے، خاص طور پر چھوٹا فوارہ اعلیٰ فنی نمونہ تھا۔ خلیفہ نے اسے مشرقی دیوان خانہ ال مونس میں نصب کروایا، اور اسے سونے جواہرات سے جڑے مجسموں سے آراستہ کروایا۔ یہ شیر، مگرمچھ، چیل، اور دیگر جانوروں کے مجسمے تھے۔ فوارے کا پانی ان جانوروں کے منہ سے پھوٹتا تھا۔‘‘
مدینہ ازہرہ کی شان و شوکت سے گمان گزرتا تھا کہ ہمیشہ یونہی قائم رہے گا، سنگِ مرمر سی عمر پائے گا، یہاں کے فنی شاہکار بربادی سے کوسوں دور رہیں گے۔ مگر یہ صرف پینسٹھ برس ہی مزید جی سکا، یہ عمر تاریخ میں پلک جھپکنے جیسی لگتی ہے۔ مدینہ ازہرہ پر پہلا حملہ شمالی افریقا کے المرابطون نے کیا، یہ بنی امیہ کے طویل اقتدارکا خاتمہ کررہے تھے۔ شہر پر بڑی قیامت گزری، ہرشے برباد ہوئی۔ اس کے بعد جس کے ہاتھ جو لگا وہ تاریخ میں گُم ہوا۔
مدینہ ازہرہ کا شاہی محل نو صدیوں تک بھولی بسری بات بنا رہا، پھر ماہرین اور آثارِ قدیمہ والوں نے بربادیوں پر پڑے دبیز پردے ہٹائے، اور وہ آثار پائے جن میں قوسِ قزح کے رنگ اور سنگِ مرمر کی چمک منعکس ہورہی تھی۔ تاہم دیواروں میں جڑے ہیرے موتی کہیں نظر نہ آئے، کہیں کوئی حوض اور مجسمے دکھائی نہ پڑے، کھجور کا کوئی درخت اب یہاں باقی نہ رہا تھا، کوئی بہشتی باغ اور پھول اب یہاں نہ مہکتے تھے۔ محقق اب سوال یہ اٹھا رہے تھے کہ کیا واقعی شہزادی زہرہ بھی کوئی ہستی تھی؟ یا اس شہر کے نام کی وجہ تسمیہ کچھ اور ہی ہے، جوتاریخ میں گُم ہوچکی؟
غرناطہ، ہسپانیہ، 1492ء… یہ جنوری کا مہینہ تھا، اُس دن مطلع صاف تھا۔ سرد اور خشک ہوا چل رہی تھی۔ سورج کی کرنیں سرخ اینٹوں سے بنی چھتوں پر ماند پڑ رہی تھیں، پہاڑوں پر زندگی کے رنگ پھیکے پڑ رہے تھے، دُور سمندر میں کہیں سائے دھندلا رہے تھے۔ نئے عیسوی سال کا آغاز ہوچکا تھا، ایک نئی دنیا پیدا ہورہی تھی۔ مگر وہاں موجود کچھ لوگوں کے لیے یہ دنیا ختم ہورہی تھی۔ ایک مسلم امیر، جس کے آباء زمانوں سے سلطان اور امراء چلے آرہے تھے، نگاہ جھکائے ہوئے تھا۔ سامنے زوال کا منظر تھا۔ محل کے سامنے عظیم مجمع لگ رہا تھا۔ وہ بالاخانے سے کیتھولک بادشاہ، ملکہ اور دیگرفاتحین کی شاہانہ آمد دیکھ رہا تھا۔ قرمزی وردیوں میں دمکتے چہرے فوج در فوج قطار بنارہے تھے۔ یہ اس سرزمین کے نئے حاکم تھے۔ یہ اُسے اور اُس کے شاہی خانوادے کو شمال میں بہت دور تک رخصت کرنے آئے تھے۔ غرناطہ پر لمحۂ سقوط طاری تھا، اور مفتوحین پر موت کا سکوت چھایا تھا۔ بس اب وہ اس مقام پر آخری چند لمحوں سے گزر رہا تھا، کہ جومقام اُس کی جائے پیدائش تھا۔ وہ ہسپانیہ میں بنونصر شاہی خاندان کا آخری امیر تھا۔ بنو نصر بنوامیہ، المرابطون، اور الموحدون سلسلے کے آخری جانشین تھے۔ چشمِ تصور میں، وہ سب اُسے دیکھ رہے تھے، ہرآنکھ سے آنسو رواں تھے۔ آج اُن کی جنت کا قلع قمع ہورہا تھا۔ بس اب مسلم اندلس پر زندگی کے چند لمحے باقی رہ گئے تھے۔ کیسا بدنصیب تھا وہ شخص، جو غرناطہ کی کنجیاں دشمنوں کے حوالے کررہا تھا، وہ سب کچھ جو طارق بن زیاد اورعبدالرحمان الداخل نے فتوحات سے سمیٹا تھا۔ آخری دور میں، تاریخ کے تلخ تھپیڑوں نے بنو نصرکو جنوبی ہسپانیہ کے چھوٹے سے افتادہ خطے تک محدود کردیا تھا۔ قرطبہ پرپانچ صدیوں پہلے ہی سقوط آچکا تھا، وہ کیتھولک فاتحین کے قبضے میں جاچکا تھا۔ تاہم مسلمانوں نے غرناطہ جوآخری طائفہ تھا، پرکسی نہ کسی طور حکومت برقرار رکھی تھی۔ آخری دو سو پچاس برس، غرناطہ کے مسلم حکمران کاسٹل کے عیسائی بادشاہوں کے محکوم رہے تھے، خراج بھرتے رہے تھے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی شورشیں کچلنے میں عیسائی حکمرانوں کے بھرپور معاون ثابت ہوئے تھے۔ اور اب ناقابلِ تلافی نقصان کا وقت سر پرآپڑا تھا۔
آخری مسلم امیر، ابو عبداللہ محمد الثانی عشرہ، جسے عیسائی Boabdilکے نام سے جانتے تھے، فاتحین کے سامنے پیشی کا منتظرتھا، تاکہ غرناطہ کی کنجیاں اُن کے حوالے کرسکے۔ لمحہ بھرکے لیے اس نے پشت نشست پرٹکادی، وہ اپنے شہرکے آسمان پرآخری نظر ڈال رہا تھا، شکست خوردگی اُس پرطاری تھی۔ درودیوار پر عربی رسم الخط میں نقش مٹتے نظر آرہے تھے، یہ قرآن کی آیات اور یادگاری شاعری کے نقش تھے۔
مسلم اندلس کے در و دیوار عربی خوش نویسی کا شاہکار تھے، جن میں تہذیبی معنویت کندہ تھی، اس معنویت کے بغیر یہ درودیوار کس قدر سپاٹ اوربے جان لگتے! وہ آنے والے برسوں میں اندلس کا بدلتا تشخص تصورکررہا تھا۔ اُس کی نظر اُس عظیم طرزِتعمیر پرجارہی تھی، پانچ صدیوں تک یورپ نے جسے نقل کیا، نئے اسپین میں یہ اعلیٰ فنِ تعمیر صدیوں رائج رہا، اور بحر روم کے ساتھ ساتھ سفرکرتا یہ طرزِ تعمیر اور نقش نگاری، چھتوں سے لٹکتے مقرنص، ہر ایک منفرد فن پارہ تھا۔ وہ ستون جن پر محرابوں کے سلسلے دور تک چلے جاتے تھے، دلفریب باغات، اور روشیں اُسے سنہرے دنوں کی یاد دلارہی تھیں۔ محل کے کھلے صحن میں لگا وہ فوارہ، جس کے گرد جواہرات سے جڑے شیروں کے مجسمے دائرہ بناتے تھے، اور ساتھ ہی وہ بڑا سا تالاب، جس کے ساتھ فرصت کی ساعتیں خوب گزرتی تھیں۔
وہ کیا تصورِ جمال تھا، جس نے یہ طرزِ تعمیر تخلیق کیا تھا؟ بغداد جودنیا کا مرکز رہا تھا، مدینہ ازہرہ جوایک نئی دنیا کی نوید تھا، محبت کا استعارہ تھا، یہ جگہ جسے عربی میں الحمرا نام دیا گیا، بنونصر کا سرخ محل، جس نے حُسن شناسی میں ماضی کی ساری خوبیاں یکجا کردی تھیں، یہ محل ماضی کا وہ شاندار مزارتھا، جسے دیکھ کر اس ناقابلِ تردید حقیقت کا ادراک ہواکہ اندلس میں مسلمانوں کے خواب فانی تھے، انھیں ایک دن ختم ہوجانا تھا۔
وقتِ عبرت آچکا تھا۔ اُسے بالا خانے سے اُترنا تھا، اور تاریخ پر بدنما داغ بن جانا تھا۔ سات صدیوں کے بعد، اسلام یورپ سے رخصت ہورہا تھا۔ وہ عربی زبان جولاطینی علم وادب میں سرایت کرچکی تھی، اجنبی ہونے والی تھی۔
وہ، اُس کا خاندان، اور اُس کے لوگ اسپین سے نکالے جارہے تھے۔ اس موقع پر ایک عینی شاہد نے بشپ آف لیون کو جو خط لکھا، بھرپور منظرکشی کرتا ہے:۔
’’الحمرا کی سرخ دیواروں پرآویزاں صلیب اور پرچم بہت نمایاں تھے۔ مسلم امیر تقریباً سو سواروں کے جلو میں تھا، عمدہ پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ اُس نے آگے بڑھ کر، جھک کر فاتحین (ملکہ ازابیلا اور بادشاہ فرڈی نینڈ) کے ہاتھوں پر بوسے دیے، جنھیں شایانِ شان طرز پر قبولیت بخشی گئی۔ انھوں نے امیرکا بیٹا اُس کے حوالے کیا جو اب تک صلیبیوں کا قیدی تھا۔ مزید چار سو قیدی لائے گئے۔ اس دوران صلیبی ترانہ Te Deum Laudamus گایا جاتا رہا۔ فاتحین نے گھوڑوں سے اترکر صلیب کو بوسہ دیا، فرطِ جذبات سے اُن کی آنکھیں چھلک رہی تھیں۔ اس تاریخ ساز موقع پر سینتیاگو کے کارڈینل، کاڈیزکا ڈیوک، اور دیگرصلیبی رہنما موجود تھے۔ یہاں ایسا کوئی نہ تھا جونہ رویا ہو۔ مسلم امیر اور مفتوحین اپنا درد والم چھپا نہ پائے، اور یہ ممکن بھی کیسے ہوتا! غرناطہ دنیا کا وہ منفرد اور بے مثال مقام تھا، کہ جس کا نقصان بلاشبہ عظیم سانحہ تھا۔‘‘
اس اجتماع کا ایک اور دیکھنے والا تھا، جس کا خاندان شاید کبھی یہودی تھا، مگر اب یہودی نہ رہا تھا (جبراً عیسائی بنادیا گیا تھا۔ مترجم)۔ وہ آنے والی نئی دنیا کا انسان تھا، وہ ایک نئی دنیا دریافت کرنے والا تھا۔ اُس کا نام کرسٹوفرکولمبس تھا۔ اپنی ڈائری میں وہ لکھتا ہے:۔
’’مسلمانوں کے خلاف آپ (عزت مآب ملکہ اوربادشاہ) کی جنگ کے بعد، اور عظیم شہرغرناطہ میں جنگ کے مکمل خاتمے کے بعد، رواں برس 1492ء، بہ تاریخ 2 جنوری، مَیں نے دیکھا کہ آپ کے شاہی پرچم الحمرا کے میناروں پر لہرا رہے تھے۔ جوکبھی اس شہرکا قلعہ ہوا کرتا تھا، میں نے امیر عبداللہ کو شہرکے دروازے پر دیکھا، جہاں اُس نے ملکہ اور بادشاہ کے ہاتھوں کو بوسے دیے۔‘‘
جب یہ سب کچھ ہوگیا، اور یہ آخری مسلم امیر بھی رخصت ہوگیا، پہلے اسپین کے ساحلوں کی جانب، پھر شمالی افریقا، جہاں پہلے ہی بہت سارے شکست خوردہ یہودی اور مسلمان منتقل ہوچکے تھے۔
مگر یقیناً کسی بلند مقام سے پلٹ کر اُس (امیر عبداللہ) نے الحمرا کی جانب حسرت سے آخری بار دیکھا ہوگا، اور رو پڑا ہوگا۔ اُس کی ماں، جو ایسے لمحات میں تلخ ہوجاتی تھی، مُڑکرکہا ہوگا ’’تمھیں اُس چیز کے لیے عورتوں کی طرح رونا ہی چاہیے، تم جس کا مردوں کی طرح دفاع نہ کرسکے!‘‘ بعد کی تاریخ میں الحمرا کا محل نشانِ عبرت بن کر رہ گیا، جسے تاریخ میں کسی نے یاد رکھنا پسند نہ کیا۔ ایک ایسا نشان جو تاریخ گُم گَشتہ ہوا۔ کسی کو یاد نہ رہا، کہ اس شہرِشاہکار میں طرزتعمیر کے کیسے کیسے عجائبات ہوا کرتے تھے! آخر وہ دن آیا، کہ جب در و دیوار سے عربی خوش نویسی کے نقوش مٹتے مٹتے مٹ گئے۔
(جاری ہے)