بوسٹن کی سمنز یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک تحقیقی مقالے میں انکشاف کیا ہے کہ اگر ہاتھوں کو صابن سے درست انداز سے اور بار بار دھویا جائے تو کورونا وائرس سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ اس طریقے سے انفلوئنزا سمیت دیگر بیکٹریا اور وائرس سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ایلزبتھ کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص اپنے چہرے کو بار بار ہاتھ نہ لگائے، اور نہ ہی کسی اور کو آپ کو چھونے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے، اس لیے صرف ایک چیز باقی رہ جاتی ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں اور وہ بھی صابن سے۔ ڈاکٹر ایلزبتھ کا اپنی ریسرچ میں اس بات پر بھی اصرار تھا کہ پانی اور صابن طاقت ور جراثیم کُش اشیاء ہیں جن کی مدد سے خطرناک وائرس کے نقصان سے بچا سکتا ہے، لیکن عام آدمی ان باتوں سے آشنا نہیں، اس لیے اس بات کو ہر ایک شخص تک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ پروفیسر ایلزبتھ نے اپنی تحقیق میں یہ بھی باور کرایا کہ جہاں آپ صابن سے ہاتھ دھوتے ہوئے جسمانی طور پر صفائی حاصل کررہے ہوتے ہیں، وہیں چند نہ نظر آنے والے جراثیم کو صابن میں موجود کیمیکل توڑ دیتے ہیں، اور یوں ہم جراثیم سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ایک لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں، جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 4 ہزار تک جا پہنچی ہے، ایران میں دو اراکینِ پارلیمنٹ سمیت 5 اعلیٰ سرکاری حکام بھی اس مہلک وائرس کے باعث ہلاک ہوگئے، اسی طرح اٹلی کے آرمی چیف بھی کورونا وائرس کے مریض بن گئے ہیں، اور یہ سلسلہ تھمتا نظر نہیں آرہا ہے۔
دوپہر میں تھوڑی دیر سونا صحت کے لیے اچھا ہے یا برا؟
بھارت کے ایشین انسٹی ٹیوٹ آف گیسٹرو انٹیرولوجی کی ماہرِ غذا ڈاکٹر دیویکر روجوتا کا کہنا ہے کہ دن میں تھوڑی دیر سونے کے بے شمار فوائد ہیں۔ ان کے مطابق دوپہر کی نیند کے حوالے سے لوگوں کو بہت سی غلط فہمیاں ہیں جیسے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دن میں سونے سے سستی آجاتی ہے اور ان کی رات کی نیند بھی اسی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔ مگر حقیقت میں ان تمام باتوں میں کوئی صداقت نہیں۔
دوپہر میں تھوڑی دیر سونے سے دل کی صحت بہترین ہوتی ہے، ایسے مریض جو کہ بلد فشارِ خون یعنی ہائی بلڈ پریشر کی بیماری میں مبتلا ہیں اُن کے لیے دن میں تھوڑی دیر سونا بہترین ثابت ہوتا ہے۔ ماہرینِ صحت کے مطابق دن میں تھوڑی دیر سونا ہارمونز سے متعلق مسائل کے لیے اچھا ثابت ہوتا ہے، بالخصوص ایسے لوگوں کے لیے جو کہ ذیابیطس، پی سی او ڈی اور تھائرائیڈ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ دوپہر کا سونا انسان کی رات کی نیند کے لیے بے حد معاون ثابت ہوتا ہے۔ دوپہر میں تھوڑی دیر سونا ہاضمے کے مسائل کے لیے بھی بہترین ہے۔
پُرامید جیون ساتھی آپ کی دماغی صحت بھی اچھی رکھتا ہے، تحقیق
امریکہ میں کیے گئے ایک 8 سالہ مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ اگر کسی فرد کا جیون ساتھی پُرامید رہنے والا ہو تو خود اس فرد کی اپنی ذہنی کیفیت بھی اچھی رہتی ہے، جبکہ سیکھنے سے متعلق اس کی صلاحیتیں (اکتسابی صلاحیتیں) بھی بخوبی کام کرتی رہتی ہیں۔آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر شوہر کی سوچ پُرامید ہو تو اس کا فائدہ بیوی کو بھی ہوتا ہے، جبکہ بیوی کی پُرامید سوچ شوہر کے ذہن اور اکتسابی صلاحیتوں کو بہتر بناتی ہے۔ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں یہ مطالعہ 4,457 امریکی جوڑوں پر کیا گیا جن کی عمریں 50 سال یا اس سے زیادہ تھیں۔ مطالعے کی ابتدا سے لے کر اختتام تک، دو سال کے وقفے سے ان جوڑوں میں شوہر اور بیوی، دونوں سے اُمید اور رجائیت پسندی جانچنے کے لیے سوال نامے پُر کروائے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھروائے گئے ایک اور سوال نامے کا مقصد ان میں ذہنی صحت، بالخصوص سیکھنے کی صلاحیت کا تجزیہ کرنا تھا۔ آٹھ سال کے دوران جمع کیے گئے اعداد و شمار اور نتائج سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک بھی پُرامید ہو تو دوسرے کی ذہنی صحت بھی اچھی دیکھی گئی، جبکہ اس نے ادھیڑ عمری کے باوجود بھی بہتر اکتسابی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ اس مطالعے کی تفصیلات ’’جرنل آف پرسنیلٹی‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ پُرامید اور رجائیت پسند جیون ساتھی کا دماغی صحت اور اکتسابی صلاحیتوں کی بحالی سے تعلق تو ہے لیکن اب بھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ آیا جیون ساتھی کا پُرامید ہونا ہی اس کی وجہ ہے یا دیگر عوامل بھی اس معاملے میں اپنا اپنا کوئی کردار ادا کرتے ہیں۔
مضبوط اعصاب‘‘ والے مردوں میں خودکشی کا زیادہ رجحان
ایک حالیہ مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ ’’مضبوط‘‘ ہونے کے دعوے کرنے والے مردوں میں خودکشی کا رجحان بھی اپنے کمزور ہونے کا اعتراف کرنے والے آدمیوں کے مقابلے میں تقریباً ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ یہ تحقیق گریجویٹ اسکول آف سوشل سروسز، فورڈہام یونیورسٹی، نیویارک سٹی میں کی گئی، جس میں بیس سال تک جاری رہنے والے ایک مطالعے میں 20,700 افراد سے حاصل شدہ معلومات سے استفادہ کیا گیا۔ 1995ء میں یہ مطالعہ ایسے امریکی لڑکوں اور لڑکیوں پر شروع کیا گیا جو اُس وقت 13 سے 17 سال تک کے، یعنی ’’نوبالغ‘‘ تھے۔
2014ء تک جاری رہنے والے اس مطالعے میں ان تمام افراد سے اُن کی عادت، مزاج، رہن سہن، خاندانی پس منظر، اردگرد کے ماحول، چلنے پھرنے اور پڑھنے لکھنے سمیت، زندگی کے تقریباً ہر پہلو سے متعلق سوالنامے بھروائے جاتے رہے، تاکہ ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت پر نظر رکھی جاسکے۔
ان تمام معلومات کا تجزیہ کرنے پر انکشاف ہوا کہ مطالعے میں حصہ لینے والے 22 لوگ اس دوران خودکشی کرچکے تھے، جن میں سے 21 مرد تھے۔ جب مزید کھنگالا گیا تو یہ بھی معلوم ہوا کہ خودکشی کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ تھے جنہوں نے مطالعے کے دوران اپنے بارے میں کہا تھا کہ وہ نہیں روتے، جذباتی نہیں ہوتے، اپنے موڈ کی غلامی نہیں کرتے، جسمانی طور پر خود کو مضبوط اور صحت مند رکھتے ہیں، اور ’’خطروں کے کھلاڑی‘‘ ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ ’’مضبوط اعصاب‘‘ والے ’’بہادر مرد‘‘ ہونے کے دعویدار تھے۔ ان کے برعکس وہ لوگ تھے جنہوں نے خود کو کمزور قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ جلد ہی جذباتی ہوجاتے ہیں، رو پڑتے ہیں اور مشکل کا احساس کرتے ہی فوراً کسی نہ کسی سے مدد مانگنے پہنچ جاتے ہیں۔