انسان کسی مقام پر تنہا نہیں رہ سکتا۔ قبل از پیدائش اور بعد ازمرگ کے حالات تو اللہ ہی جانتا ہے، لیکن زندگی میں انسان پر کوئی دور ایسا نہیں آتا جب وہ تنہا ہو۔ نہ جنازہ تنہا، نہ شادی تنہا۔
رات کے گہرے سناٹے میں اپنی کرسی پر اکیلا بیٹھا ہوا انسان بھی اکیلا نہیں ہوتا۔ اسے ماضی کی صدائیں آتی ہیں۔ اس کے ساتھ وہ نظارے ہوتے ہیں، جو اس کے سامنے نہیں ہوتے۔ یادوں کے گلاب کھلتے ہیں۔ جلتی بجھتی آنکھوں کے طلسمات وا ہوتے ہیں۔ حسین پیکروں کے خطوط ابھرتے ہیں، ڈوبتے ہیں۔ گزرے ہوئے ایام پھر سے رخصت ہونا شروع ہوتے ہیں۔ خشک شاخیں زخموں کی طرح پھر سے ہری ہوتی ہیں اور اس سناٹے میں آوازیں ہی آوازیں آنی شروع ہوتی ہیں، اور یوں تنہائی میں تنہائی ممکن نہیں ہوتی۔
رفاقت کی افادیت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی صفات اور اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لے۔ ہماری ہر صلاحیت رفاقت کی محتاج ہے۔ ہماری گویائی سماعتِ رفیق کی محتاج ہے۔ ہماری سماعت آوازِ دوست کی منتظر رہتی ہے۔ ہماری نگاہ دوست کے چہرے سے خوراک لیتی ہے، ہمارا چہرہ مرکزِ نگاہِ یار ہوتا ہے۔ ہمارے افکار دوست کو روشنی دیتے ہیں اور ہم اُس کی فکر سے پرورش پاتے ہیں۔ دل ہمارا ہوتا ہے اور درد دوست کا۔ ہماری خوشیاں شرکت ِحبیب سے دوبالا ہوتی ہیں اور ہمارے غم غمگسار کے تقرب سے کم ہوتے ہیں۔ ہمارا سفر ہمارے ہم سفر کی معیت سے بامعنی و پُررونق ہوتا ہے۔ ہمارا قیام اسی چراغ سے منور ہوتا ہے۔ دوست کی توجہ اور اُس کا تعاون ہمیں عروج کی منازل سے آشنا کراتا ہے۔ ہمارے منصوبے ہماری زندگی میں اور ہماری زندگی کے بعد بھی ہمارے دوست کی نگرانی سے پروان چڑھتے ہیں۔
دوست سے گفتگو حکمت و دانائی کے رموز آشکار کرتی ہے۔ ہمارے ظاہر و باطن کا نکھار جمالِ ہم نشیں سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ ہماری عبادت بھی رفاقت سے سعادت حاصل کرتی ہے۔ ہماری تمام دعائیں اجتماعی ہیں، اور اجتماع کی بنیاد رفاقتوں کے فیض سے قائم ہے۔
وہ انسان جس نے رفیق سے وفا نہ کی، کسی سے وفا نہیں کرسکتا، نہ دین سے نہ خدا سے، نہ خود اپنے آپ سے۔ عظیم انسان اپنے حبیب پر غیر متزلزل اعتماد کے سہارے عظیم ہوتے ہیں۔
انتخابِ رفیق سے پہلے تحقیق کرلینا جائز ہے، لیکن کسی کو دوست کہہ لینے کے بعد اُسے کسی آزمائش سے گزارنا بددیانتی ہے۔ دوست کے ساتھ صرف ایک ہی سلوک روا ہے، اور وہ وفا ہے۔ وفا کرنے والے کسی کی بے وفائی کا گلہ نہیں کرتے۔ اپنی وفا کا تذکرہ بھی وفا کے باب میں ابتدائے جفا ہے۔
رفاقت قائم رکھنے کے لیے انسان کو نہ ختم ہونے والا حوصلہ ملا ہے۔ رفاقتیں گردشِ حالات سے متاثر نہیں ہوتیں۔ رفاقت صعوبتوں کی گھاٹیوں سے گنگناتی ہوئی گزرتی ہے۔
کائنات کی ہر شے میں ہمہ وقت تغیر ہے، لیکن رفاقت کے خمیر و ضمیر میں استقامت کا جوہر ہے۔ رفاقتوں کا مفرور زندگی سے فرار کرتا ہے۔
جس کو زندگی میں کوئی سچا اور سُچا دوست نہ ملا ہو، اس جھوٹے انسان نے اپنی بدبختی کے بارے میں اور کیا کہنا ہے؟
انسانوں کا جہان رفاقتوں کا جہان ہے۔ یہ وفائوں کی داستان ہے۔ رشتوں کی تقدیس ہے۔ سماجی اور دینی رابطوں کی تفسیر ہے۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جس کا ہم سفر اُس کا ہم خیال ہو۔
خدا سے لو لگانے والے مخلوقِ خدا سے الگ بیٹھ کر عبادات کے درجات حاصل کرنے کے بعد مخلوقِ خدا کے پاس واپس لوٹا دیے جاتے ہیں تاکہ مخلوق کی رہنمائی کریں۔ تنہائیوں سے واپسی ہی رفاقت کی اہمیت کا ثبوت ہے۔ پیغمبروں نے پسندیدہ رفاقتوں کی دعائیں فرمائیں۔ کوئی عابد عبادت کی غرض سے جنگل میں تنہا بیٹھ جائے تو بھی تنہا نہ رہ سکے گا۔ کچھ ہی عرصے بعد اُس کے گرد انسانوں کا ہجوم اکٹھا ہوجائے گا۔ آستانہ بنے گا، عبادت گاہ بنے گی، لنگر خانے کھل جائیں گے اور طالبانِ حق و صداقت اس ویرانے میں بستی آباد کریں گے۔
پیدا ہونے والا بچہ جب آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے اُسے جو شے نظر آتی ہے، وہ انسانی چہرہ ہے۔ شفیق چہرہ، نورانی چہرہ، محبت و مسرت سے سرشار مامتا کا مقدس چہرہ۔ اس کے بعد ساری زندگی چہروں کی رفاقت کا سفر ہے۔ ایک انسان کا تقرب ہی انسانیت کا تقرب ہے۔
نیکی، بدی، گناہ، ثواب سب انسانوں سے وابستہ ہے۔ انسان سے آشنائی خدا شناسی کی کنہ ہے۔ رفاقت کا سرمایہ ہر سرمائے سے افضل ہے۔
انسان، انسان کی خاطر جان پر کھیل جاتا ہے۔ بادشاہ تخت چھوڑ دیتے ہیں، دوست کو نہیں چھوڑتے۔ رفاقتوں کے فیض اعتماد کے دم سے ہیں۔ بداعتماد انسان نہ کسی کا رفیق ہوتا ہے، نہ اُس کا کوئی حبیب ہوتا ہے۔ بداعتمادی کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ انسان کو ایسا کوئی انسان نظر نہیں آتا جس کے تقرب کی وہ خواہش کرے، اور نہ وہ خود کو کسی کے تقرب کا اہل سمجھتا ہے۔ تنہائی کی مسافر بیمار روحیں اذیت کی منزلیں طے کرتی ہیں۔
رفاقت زندگی ہے، فرقت موت۔
آج کے مشینی دور نے انسان کو انسان سے دور کردیا ہے۔ رفاقتِ بشری سے محروم انسان مال اور اشیا کی محبت میں گرفتار ہے۔ وہ نظریات کا قائل ہے، انسان کا قائل نہیں۔ آج کا انسان انسانوں سے بیزار ہے۔ وہ خود سے بیزار ہے۔ وہ غیر فطری زندگی بسر کررہا ہے۔ اس پر کربناک تنہائی کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ کوئی کسی سے ہمدردی نہیں رکھتا۔ کوئی کسی کو نہیں پہچانتا۔ کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔
آج انسانوں کی بھیڑ میں ہر انسان اکیلا ہے، ایسے ہی جیسے ایک وسیع سمندر میں بے شمار جزیرے ایک دوسرے کے آس پاس، لیکن ایک دوسرے سے ناشناس۔
(”دل دریا سمندر“…واصف علی واصفؔ)
بیادِ مجلس اقبال
اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تُو
ترے لیے ہے میرا شعلہ نوا قندیل
علامہ اقبال امت ِ واحدہ یا ملّتِ اسلامیہ کی متحدہ قوت سے کٹے ہوئے مسلمانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ میرے کلام سے رہنمائی حاصل کرو، اس لیے کہ غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اپنے ملّی قافلے سے کٹ کر تم قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہے ہو۔ ایسے میں میرے کلام کی روشنیاں چراغِ راہ بن کر تمہاری رہنمائی کرتی اور تمہارے دلوں کو ایمانی جذبوں اور آزادی کے لطف سے روشناس کراتی ہیں۔ یوں وہ اپنے اشعار کو اندھیری راہ میں جذبے اور روشنیاں بخشنے والے چراغ قرار دیتے ہیں۔