دہشت گرد، سپر پاور امریکہ کی تاریخی شکست کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان “نیم تاریخی معاہدہ”۔

امریکہ کی شکست 21 ویں صدی کا ایک کھلا معجزہ ہے

افغانستان میں ’’جہادکی برکت‘‘ اور مجاہدین کے ’’شوقِ شہادت‘‘ نے دہشت گرد سپر پاور امریکہ کو ’’تاریخی شکست‘‘ سے دوچار کرکے اُسے طالبان کے ساتھ ایک ’’نیم تاریخی‘‘ معاہدہ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ’’جہادکی برکت‘‘ اور مجاہدین کے ’’شوقِ شہادت‘‘ نے یہ کارنامہ پہلی بار انجام نہیں دیا ہے۔ ’’جہاد کی برکت‘‘ اور مجاہدین کے ’’شوقِ شہادت‘‘ سے 19 ویں صدی میں وقت کی واحد سپرپاور برطانیہ کو شکست ہوئی۔ 20 ویں صدی میں ’’جہاد کی برکت‘‘ اور مجاہدین کے ’’شوقِ شہادت‘‘ نے افغانستان میں سوویت یونین کو بدترین ہزیمت سے دوچار کیا۔ اور اب ’’جہاد کی برکت‘‘ اور مجاہدین کے ’’شوقِ شہادت‘‘ نے 21 ویں صدی میں دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کو بدترین ہار کا مزا چکھایا ہے۔ بعض لوگ پوچھتے ہیں ’’نصرتِ الٰہی‘‘ کیا ہوتی ہے؟ جسے یہ جاننا ہو وہ افغانستان میں امریکہ کی بدترین شکست کو دیکھے اور جان لے ’’نصرت ِالٰہی‘‘ اسے کہتے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں 50 ممالک کے نمائندوں کی موجودگی میں ’’نیم تاریخی‘‘ معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ 135 دن میں افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی کا پہلا مرحلہ مکمل کرے گا، اور اس مرحلے کی تکمیل پر افغانستان میں امریکہ کے صرف 8ہزار فوجی باقی رہ جائیں گے۔ البتہ اس مرحلے کے نو ماہ بعد امریکہ افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کو واپس بلالے گا۔ تاہم امریکہ نے اپنے فوجیوں کے انخلا کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ طالبان معاہدے کی مکمل پاسداری کریں گے۔ معاہدے کے تحت امریکہ اور کابل میں موجود اُس کی پٹھو حکومت طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کردے گی۔ طالبان بھی حریفوں کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کردیں گے۔ بعدازاں اوسلو میں بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار کی جائے گی۔ معاہدے کے تحت امریکہ نے طالبان کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ یا اُس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور طالبان القاعدہ سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھیں گے۔
20 ویں صدی کے افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اسلام، جہاد اور مسلمانوں کے شوقِ شہادت کی ایک بہت ہی بڑی فتح تھی، مگر مسلم دنیا بالخصوص پاکستان کے سیکولر، لبرل اور کمیونسٹ عناصر نے اس فتح کے بعد یہ کہاکہ افغانستان میں مجاہدین کی کامیابی ان کی کامیابی تھوڑی ہے، یہ امریکہ اور یورپ کی کامیابی ہے، اس لیے کہ افغانستان میں امریکہ اور یورپ کا اسلحہ اور ان کا سرمایہ جنگ لڑ رہا تھا۔ یہ ایک ’’سفید جھوٹ‘‘ تھا، اس لیے کہ جنگ اسلحہ اور سرمائے سے نہیں، ’’جذبے‘‘ اور ’’ہمت‘‘ سے لڑی جاتی ہے۔ جان کی بازی اسلحہ اور سرمایہ نہیں، انسان لگاتا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد میں 15 لاکھ مجاہدین اور عام لوگ شہید ہوئے تھے، اور مزید 15لاکھ لوگ بری طرح زخمی ہوئے تھے۔ چنانچہ سوویت یونین کی شکست ’’جہاد کی برکت‘‘ اور مجاہدین کے ’’شوقِ شہادت‘‘ ہی کا حاصل تھی۔ مگر بہرحال افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ اور یورپ نے اپنے مفاد کے لیے مجاہدین کی مدد کی تھی۔ اس تناظر میں جب نائن الیون کے بعد امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو بعض سیکولر اور لبرل لوگوں نے ہی نہیں، کچھ ’’مذہبی افراد‘‘ نے بھی ہم سے کہاکہ اب افغانستان میں وہی ہوگا جو امریکہ چاہے گا، اس لیے کہ اب افغانستان میں مجاہدین اور طالبان کا کوئی والی وارث نہیں، نہ روس اُن کے ساتھ ہے، نہ چین اُن کی حمایت کررہا ہے، نہ مسلم دنیا اُن کی مدد کو آرہی ہے، نہ یورپ کے کسی کونے سے اُن کے لیے آواز بلند ہورہی ہے، یہاں تک کہ پاکستان نے بھی انہیں ’’ترک‘‘ کردیا ہے۔ اس فضا میں ہم نے ایسے لوگوں سے عرض کیا تھا کہ اگر افغانستان کے صرف 5 فیصد لوگ بھی مزاحمت پر آمادہ ہوگئے تو افغانستان امریکہ کا دوسرا ویت نام بن کر ابھرے گا۔ اس موقع پر ہم نے ’’کھیل‘‘ کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی تھی جو آپ انہی کالموں میں کچھ عرصہ قبل ملاحظہ کرچکے ہیں۔ کیونکہ افغانستان میں دہشت گرد اور بدمعاش امریکہ کی شکست اب ایک ’’بین الاقوامی اشتہار‘‘ بن گئی ہے، اس لیے یہ نظم ایک بار پھر پیش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں:۔
جنگ کو کھیل سمجھتا ہے عدو!
خندقیں کھودکے بیٹھا ہوں
میں اپنے دل میں
سر کا کیا تھا؟
اسے سجدے میں چھپا آیا ہوں
میری قسمت
کہ میں ہاتھوں کو دعا کہتا ہوں
اور آنکھیں تو کسی خواب کی تحویل میں ہیں برسوں سے
حافظہ
میں ابھی تاریخ کو سونپ آیا ہوں
پائوں
صدیوں کا سفر لے گیا مدت گزری
کون کہتا ہے کہ میں صاحبِ اسباب نہیں
یہ زمیں میرا بچھونا ہے
فلک چادر ہے
اور ستارے مری امیدیں ہیں
جنگ کو کھیل سمجھتا ہے عدو!
دیکھیے کھیل بگڑنے کی خبر کب آئے
وہ جو موجود ہے
دنیا کو نظر کب آئے
جیسا کہ اب دنیا کے سامنے ہے، افغانستان میں امریکہ کا کھیل بگڑنے ہی کی نہیں، طالبان کے سامنے امریکہ کے ناک رگڑنے کی اطلاع بھی آگئی ہے۔ کیا آپ کو یاد نہیں افغانستان پر حملے کے وقت امریکہ طالبان اور افغانستان کے تمام مجاہدین کو ’’وحشی‘‘ کہہ رہا تھا، ’’درندے‘‘ باور کرا رہا تھا، ’’تہذیب سے عاری‘‘ قوتیں ثابت کررہا تھا! مگر امریکہ نے بالآخر انہی قوتوں کو اپنا ’’مساوی‘‘ تسلیم کیا، ان سے مذاکرات کے لیے ’’گڑگڑایا‘‘، اس نے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے پاکستان کے حکمرانوں کا ہاتھ مروڑا، اور بالآخر ساری دنیا نے دیکھا کہ امریکہ طالبان کے نمائندے ملّا برادر کے ساتھ ایک میز پر بیٹھا ہوا ’’وحشیوں‘‘ اور ’’درندوں‘‘ کے ساتھ ’’امن معاہدے‘‘ پر دستخط کررہا ہے۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر… بے شک اللہ بڑا ہے… اور جو صرف اللہ پر انحصار کرتے ہیں اللہ انہیں بھی ’’بڑا‘‘ بنا دیتا ہے۔
افغانستان میں امریکہ کی مکمل شکست ’’معمولی بات‘‘ نہیں۔ افغانستان میں مجاہدین اور امریکہ کی طاقت کے درمیان کوئی مطابقت ہی نہ تھی۔ طاقت کے عدم توازن کا یہ عالم تھا کہ مجاہدین اور امریکہ کی سیاسی طاقت میں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت تھی، ان کی معاشی طاقت میں ایک اور ایک کروڑ کی نسبت تھی، مگر اس کے باوجود مجاہدین نے امریکہ کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں امریکہ کے کروز میزائل اور ایف۔16 کام نہیں کرتے، وہاں اُس کا ’’ڈالر‘‘ کام آتا ہے۔ امریکہ کے کروز میزائل اور ایف۔16 جسمانی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں، اور امریکہ کا ڈالر روحانی اور اخلاقی ہلاکت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہاں امریکہ کا اسلحہ ہی نہیں، ڈالر بھی ناکام ہوا۔ امریکہ طالبان کو ختم کرنے آیا تھا مگر طالبان آج 70 فیصد افغانستان پر غالب ہیں۔ امریکہ نے افغانستان کو ’’جمہوریت‘‘ مہیا کی، مگر افغانستان میں امریکہ کی جمہوریت بھی جعلی اور بے اعتبار ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں جو فوج اور جو پولیس کھڑی کی اُس کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ امریکہ کے بغیر وہ تین دن بھی طالبان کے سامنے نہیں ٹک سکتی۔ یہ افغانستان میں امریکہ کی مکمل ناکامی کا منظر ہے۔
امریکہ کو بدترین شکست نہ ہوتی تو وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور امن معاہدے پر آمادہ تھوڑی ہوتا۔ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو افغانستان میں مٹھی بھر مجاہدین کے ہاتھوں امریکہ کی شکست 21 ویں صدی کا ایک کھلا معجزہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں ابابیلوں نے کس طرح ابرہہ کے لشکر کا ’’بھس‘‘ بنایا ہوگا؟ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے مٹھی بھر مجاہدین کے ذریعے وقت کی واحد سپر پاور کی ناک رگڑی، اسی طرح اس نے پرندوں کی کنکریوں سے ابرہہ کے لشکر کا ’’بھس‘‘ بنایا ہوگا۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ امریکہ افغانستان میں تنہا بھی نہیں تھا۔ 50 ممالک افغانستان میں امریکہ کی مدد کے لیے موجود تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان میں امریکہ کی شکست صرف امریکہ کی شکست نہیں ہے، یہ پورے مغرب اور اُس کے اتحادیوں کی شکست ہے۔ طالبان نے ایک بار امریکیوں سے کہا تھا کہ تم ہمارا کیا مقابلہ کروگے، ہمارے پاس ’’وقت‘‘ ہے، تمہارے پاس صرف ’’گھڑی‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امریکہ کی شکست کی طرح طالبان کے اس تجزیے کو بھی ’’تاریخی‘‘ بنادیا، اور بالآخر ثابت ہوا کہ افغانستان میں امریکہ کے پاس صرف گھڑی تھی۔ ’’وقت‘‘ طالبان کے پاس تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وقت ہمیشہ ’’حق‘‘ کے پاس ہوتا ہے، باطل کے پاس ہمیشہ گھڑی ہوتی ہے۔ وقت ہمیشہ ’’مظلوم‘‘ کے پاس ہوتا ہے، ’’ظالم‘‘ کے پاس ہمیشہ گھڑی ہوتی ہے۔ لیکن انسان ’’صاحبِ وقت‘‘ کیسے بنتا ہے، اس کی طرف اقبال نے اپنے ایک شعر میں واضح اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے:۔

اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی

اقبال کے اس شعر کے پہلے مصرعے کے کئی ’’ورژن‘‘ ممکن ہیں۔ مثلاً اس کا ایک ورژن یہ ہے: اگر ’’مال‘‘ ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے۔ اس کا دوسرا ورژن یہ ہے: اگر جان ہاتھوں سے جاتی ہے، جائے۔ نائن الیون کے بعد ملّا عمر کو ملک ہاتھوں سے جانے کا اندیشہ تھا۔ جنرل پرویزمشرف ہی نہیں پاکستان کے بڑے بڑے علما کا وفد بھی انہیں یہی بتا رہا تھا کہ ریاست اور ملک اور امارتِ اسلامیہ بڑی چیز ہے، اسے ایک بن لادن کے لیے دائو پر نہیں لگایا جاسکتا۔ اس کے جواب میں ملّا عمر نے ایک اصولی بات کہی، انہوں نے کہا کہ اسامہ کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت ہے تو سامنے لائی جائے، ورنہ اپنے مہمان کو دشمنوں کے حوالے کرنا مسلمانوں کا دستور نہیں۔ اس طرح انہوں نے شعوری طور پر ’’احکام حق‘‘ سے ’’وفا‘‘ کی اور ملک کو ہاتھوں سے جانے دیا۔ نظری طور پر ہی سہی آج 19سال بعد افغانستان ایک بار پھر طالبان کے ہاتھوں میں جاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اقبال مصورِ پاکستان ہیں، اس لیے اصولی طور پر اُن کے فلسفے کا عاشق پاکستان سے نمودار ہونا چاہیے تھا۔ مگر جنرل پرویز مشرف اور اُن کے فوجی رفقاء نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی آڑ میں پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کرکے احکامِ حق سے بغاوت کی۔ البتہ ایک مدرسے کا فارغ التحصیل اقبال کے فلسفے کا ترجمان بن کر ابھرا اور تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندۂ جاوید بن گیا۔ کسی شاعر نے بارگاہِ الٰہی کا ایک اصول بیان کیا ہے:۔

یہاں ’’ہونا‘‘ نہ ہونا ہے
’’نہ ہونا‘‘ عین ’’ہونا‘‘ ہے
جسے ہونا ہو کچھ
خاکِ درِ جاناناں ہو جائے

ملاّعمر نے خاکِ درِ جاناں ہونا پسند کیا اور ’’امر‘‘ ہوگئے۔ ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ جنرل پرویز اور اُن کے رفقا کے ’’کارنامے‘‘ تاریخ کے صفحات پر پھیلی ہوئی ’’سیاہی‘‘ اور تاریخ کے گلے میں پھنسا ہوا ایک ’’کانٹا‘‘ ہوں گے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کو ہر کوئی ’’تاریخی‘‘ قرار دے رہا ہے، حالانکہ یہ معاہدہ ’’غیر تاریخی‘‘ یا زیادہ سے زیادہ ’’نیم تاریخی‘‘ ہے، اور وہ بھی اس لیے کہ یہ معاہدہ طالبان کی کامل فتح اور امریکہ کی کامل شکست کا مظہر ہے۔ معاہدے کو غیر تاریخی یا نیم تاریخی قرار دینے کے دلائل یہ ہیں:
امریکہ کبھی بھی کسی بھی معاہدے کا قابلِ بھروسا فریق نہیں رہا۔ امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا مشہورِ زمانہ فقرہ ہے کہ ’’امریکہ کی دشمنی خطرناک اور دوستی جان لیوا ہے‘‘۔ امریکہ کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی امریکہ کو ’’بدمعاش ریاست‘‘ قرار دیتے ہیں۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ ایف۔16 طیاروں کی خریداری کا ’’دوطرفہ معاہدہ‘‘ کیا اور امریکہ کو ایک ارب ڈالر کی خطیر رقم ادا کی، مگر امریکہ معاہدے سے مکر گیا۔ اُس نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک نہ پاکستان کو ایف 16 طیارے دیے، نہ پاکستان کی رقم واپس لوٹائی۔ امریکہ کے بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کا یہ عالم ہے کہ امریکہ نے ایران کے ساتھ اُس کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی نوعیت کا معاہدہ کیا۔ روس، چین، جرمنی، فرانس اور برطانیہ بھی اس معاہدے کے فریق تھے، مگر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک لمحے میں اس معاہدے کو اٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ چنانچہ اس بات کی کوئی ضمانت ہی نہیں کہ امریکہ طالبان سے کیے گئے معاہدے پر عمل کرے گا۔ امریکہ کے ’’وزیر جنگ‘‘ مارک ایسپر نے معاہدے سے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ اگر طالبان نے اپنے وعدے پورے نہ کیے تو امریکہ معاہدے سے نکل جائے گا۔ مسلمانوں کے لیے معاہدے کی پاسداری ایک مذہبی اور اخلاقی ذمے داری ہوتی ہے، چنانچہ طالبان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ معاہدے کی خلاف ورزی کریں گے، مگر امریکہ کا کوئی مذہب اور کوئی اخلاقیات ہی نہیں ہے۔ نوم چومسکی کے الفاظ میں وہ ایک ’’بدمعاش ریاست‘‘ ہے، چنانچہ وہ کسی بھی وقت معاہدے سے مکر سکتا ہے۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’سیاسی ضرورت‘‘ ہے۔ انہیں آئندہ صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ’’ٹرافیوں‘‘ کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ایک ٹرافی طالبان کے ساتھ معاہدہ بھی ہے۔ لیکن جب ڈونلڈ ٹرمپ کی ضرورت پوری ہوجائے گی تو پھر وہ معاہدے کے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ امریکہ وہ ملک ہے جس نے امریکہ پر قبضے کے لیے 8 سے 10کروڑ ریڈ انڈینز کو مار ڈالا، کوریا کی جنگ میں 20 لاکھ لوگوں کو تہِ تیغ کردیا، ویت نام میں 10 سے 15 لاکھ لوگ مار ڈالے، دوسری عالمی جنگ میں جاپان امریکہ کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی والا تھا، اس سلسلے میں امریکہ نے جاپانی فوج کے فوجی پیغامات تک رسائی حاصل کرلی تھی، مگر جاپان اور دنیا کو خوف زدہ کرنے کے لیے امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما کو ایٹم بموں سے تباہ کردیا۔ امریکہ کی ایک یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق امریکہ نے گزشتہ 19 سال میں افغانستان اور عراق سمیت مختلف مسلم ملکوں میں 16 لاکھ مسلمانوں کو قتل کرڈالا ہے۔ ایسے ملک کے لیے ایک معاہدے کو روند ڈالنا کیا مشکل ہے!
استعمار کی تاریخ ہے کہ وہ چلا بھی جاتا ہے تو اپنے پیچھے ’’کالے انگریز‘‘ اور ’’کالے فرانسیسی‘‘ چھوڑ جاتا ہے۔ امریکہ بظاہر افغانستان سے جارہا ہے مگر وہ اپنے پیچھے ’’کالے امریکی‘‘ چھوڑ کر جارہا ہے۔ ’’کالے امریکیوں‘‘ کا مستقبل امن معاہدے کا بنیادی پہلو ہے۔ امریکی کہہ رہے ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امریکہ کے آلہ کاروں یعنی اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور رشید دوستم کو بندوبست میں “Adjust” کیا جانا چاہیے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’غیر تاریخی‘‘ یا ’’نیم تاریخی‘‘ معاہدہ افغانستان میں امریکی استعمار کی علامتوں کی دائمی موجودگی کو یقینی بنارہا ہے، اور یہ بات افغانستان میں برپا ہونے والی مزاحمت کی روح سے مناسبت نہیں رکھتی۔ امریکیوں نے طالبان سے اقتدار چھینا تھا اور طالبان ہی سے شکست کھائی ہے، اس لیے افغانستان کے مستقبل کا تعین بھی صرف طالبان کا حق اور اختیار ہونا چاہیے۔ گزرے ہوئے 19 برسوں کا افغانستان ’’امریکیوں کا افغانستان‘‘ تھا، اس لیے افغانستان میں امریکیوں ہی کا حکم چلتا تھا۔ مستقبل کا افغانستان اصولی اعتبار سے صرف طالبان کا افغانستان ہے، اس لیے کہ صرف انہوں نے ہی افغانستان کی آزادی کی جنگ کے تقاضے پورے کیے ہیں، چنانچہ مستقبل کے افغانستان میں صرف طالبان کا حکم چلنا چاہیے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ افغانستان میں امریکی ایجنٹوں کی موت کا پروانہ ہے۔ اشرف غنی اینڈ کمپنی کو یہ بات معلوم ہے، چنانچہ اشرف غنی نے معاہدے کو ناکام بنانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ اشرف غنی نے معاہدے کے اگلے ہی روز کہہ دیا ہے کہ طالبان کے قیدیوں کی رہائی افغان حکومت کا معاملہ ہے، امریکہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اشرف غنی امریکی آشیرباد کے بغیر یہ بات کہہ سکتے ہیں؟ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے بقول اشرف غنی امریکی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس فضا میں طالبان نے افغان فورسسز پر دوبارہ حملے شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ افغانستان کی جیلوں میں قید پانچ ہزار طالبان کی رہائی کے بغیر بین الافغان مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں ایران بھی یہ مؤقف لے کر کھڑا ہوگیا ہے کہ امریکہ امن معاہدے پر دستخط کا حق نہیں رکھتا اور افغان مسئلے کا حل بین الافغان مذاکرات کے ذریعے نکالا جانا چاہیے۔ ایران کا یہ مؤقف شرمناک اور اس کی فسادی ذہنیت کا عکاس ہے۔ کیا عراق پر امریکہ کے قبضے کے بعد وہاں کے مسئلے کا حل عراق کی شیعہ قیادت اور امریکہ نے مل جل کر نہیں نکالا اور ایران نے اسے قبول نہیں کیا؟ اسی طرح افغانستان کے مسئلے کا حل فی الحال طالبان اور امریکہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس مسئلے کا اور کوئی فریق نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ دھمکی بھی سامنے آگئی ہے کہ اگر امن معاہدے کو کچھ ہوا تو امریکہ اتنی بڑی فوج لے کر افغانستان میں آئے گا کہ دنیا نے اتنی بڑی فوج کبھی دیکھی نہیں ہوگی۔ 19 سال تک افغانستان میں طالبان سے مسلسل پٹنے والے امریکہ کے صدر کو یہ بیان دیتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ امریکہ طاقت کے ذریعے افغانستان کو فتح کرسکتا تو 19 سال میں کرچکا ہوتا۔ امریکہ سے جو کام گزشتہ 19 سال میں نہیں ہوا وہ آئندہ کیا ہوگا! یہ حقیقت راز نہیں کہ بھارت بھی افغانستان میں امن نہیں دیکھنا چاہتا۔ انہی سب باتوں کے پیش نظر ہم نے عرض کیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو ’’تاریخی‘‘ قرار دینا ٹھیک نہیں۔ اسے زیادہ سے زیادہ ’’نیم تاریخی‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ نہیں کہا جاسکتا کہ معاہدہ ’’نیم تاریخی‘‘ ہونے کا بوجھ بھی اٹھاسکے گا یا نہیں۔
امریکہ نے گزشتہ 19 سال کے دوران ڈیڑھ سے دو لاکھ افغان مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ اس نے افغانستان کے چپے چپے پر بمباری کرکے پورے افغانستان کو کھنڈر بنادیا ہے۔ ایک تازہ ترین تخمینے کے مطابق امریکہ نے افغانستان کے خلاف جارحیت اور دہشت گردی پر ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر صرف کیے ہیں۔ چنانچہ امن معاہدے میں امریکہ سے کم از کم ایک ہزار ارب ڈالر کے ہرجانے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے تھا۔ مگر بدقسمتی سے ایسا کوئی مطالبہ معاہدے کا حصہ نہیں۔ صرف امریکہ نے ’’یقین دہانی‘‘ کرائی ہے کہ تمام معاملات معاہدے کے مطابق ہوگئے تو وہ افغانستان کی تعمیرنو میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ مگر امریکہ جیسی دہشت گرد اور بدمعاش ریاست کا کیا بھروسا؟ پاکستان کے حکمرانوں نے امریکہ کی جنگ کو گود لے کر اپنے 75 ہزار شہری مروا دیے، 120 ارب ڈالر کا نقصان کرلیا، مگر امریکہ نے طویل عرصے تک پاکستان کی اقتصادی کیا عسکری امداد بھی معطل رکھی۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ امریکہ کے وزیر جنگ مارک ایسپر نے معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں معاہدے کو ترک کرنے کی دھمکی دی ہے تو طالبان کے قائد ہبت اللہ صاحب نے بھی صاف کہا ہے کہ اگر امریکہ معاہدے کی پاسداری نہیں کرے گا تو طالبان معاہدے پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہوں گے۔ امتِ مسلمہ میں افغانوں سے زیادہ امن کا مستحق کوئی نہیں، اس لیے کہ افغانستان کے لوگ گزشتہ چالیس سال سے حالتِ جنگ میں ہیں۔ مگر امن کے نام پر چالیس سال کی قربانیوں اور کامرانیوں کو بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ بلاشبہ افغانوں نے سوویت یونین اور امریکہ کو شکست دے کر پوری امت کا فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔ تاریخ ان کے اس غیر معمولی کردار کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
باطل کی مزاحمت انبیا علیہم السلام کا ورثہ ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، مجددین کا راستہ ہے۔ مسلمانوں نے جب بھی اللہ کی کبریائی کے اعلان اور دین کی سربلندی کے لیے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا انہوں نے ہمیشہ تاریخ رقم کی۔ مزاحمت مسلمانوں کے کردار کا جوہر ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مزاحمت کو ’’وسائل‘‘ کی موجودگی کے ساتھ مشروط کرتے ہیں۔ افغانستان کے مجاہدین کی مزاحمت اس تصور کی نفی کرتی ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی مزاحمت کرنے والوں کے پاس نہ حکومت تھی، نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ مضبوط معیشت تھی۔ ساری دنیا انہیں دہشت گرد کہہ رہی تھی، پوری مسلم دنیا نے انہیں تقریباً ترک کردیا تھا۔ مگر انہوں نے کسی حکومت، کسی ریاست، کسی فوج، کسی مضبوط معیشت اور ذرائع ابلاغ کی طاقت کے بغیر وقت کی واحد سپرپاور کو منہ کے بل گرادیا۔ اقبال نے کہا تھا:۔

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

افغانستان میں امریکہ کو شکست دینے والوں نے اقبال کے اس شعر کو حقیقت بناکر دکھا دیا۔ یہ تجربہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک مثال ہے۔ یہ تجربہ امت سے کہہ رہا ہے کہ مزاحمت کو اسلوبِ حیات بنائو، جہاں باطل کی فکری و علمی مزاحمت کی ضرورت ہے وہاں فکری و علمی مزاحمت کرو۔ جہاں سیاسی مزاحمت درکار ہے وہاں سیاسی مزاحمت پیش کرو۔ جہاں جہاد اور شوقِ شہادت کے ذریعے مزاحمت ہوسکتی ہے وہاں جہاد اور شوقِ شہادت کی برکت کو بروئے کار لائو۔ اگر مزاحمت سے سوویت یونین اور امریکہ کو شکست دی جاسکتی ہے تو پھر کسی اور کی اوقات ہی کیا ہے؟ ایک وقت تھاکہ مسلمانوں نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں جہاد اور شوقِ شہادت کی برکت سے وقت کی دو سپر پاور کو شکست دی تھی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب مسلمان اپنے عہدِ زوال میں ایک بار پھر مزاحمت کی برکت سے وقت کی دو سپر پاورز کو یکے بعد دیگرے شکست سے دوچار کریں گے۔ اقبال نے کہا تھا:۔

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں