کیا شام نیا فلسطین ہے؟۔

اسد احمد
سن 2011ء میں عالمِ عرب میں آمروں کے خلاف بیداری کی لہر اٹھی تو مصر، لیبیا اور تیونس کی طرح شام کے عوام بھی بشارالاسد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ بشار نے اپنے ظالم باپ حافظ الاسد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مظاہروں کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی تو مسلح تصادم کا آغاز ہوا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان تب بشارالاسد کے قریب تھے، انہوں نے بشار حکومت کو قائل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی کہ ملک میں اصلاحات کا آغاز کیا جائے، مظاہرین سے بات چیت کی جائے۔ مگر بشار پر اپنے باپ اور چچا رفعت الاسد کی طرح خون سوار تھا… جیسے 1982ء میں باپ اور چچا نے اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے افراد کا سفاکی اور بے دردی سے قتل عام کیا تھا ویسے ہی 2011ء میں بیٹا اپنے ہی عوام پر ٹوٹ پڑا۔
 آج شام تباہ ہوچکا ہے۔ دراصل ملک پر قاتل بشار کی حکومت اور ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی موجودگی صرف روسی طاقت کی مرہونِ منت ہے۔ جب بشار کی فوجوں، ایرانی حمایت یافتہ قاتل ملیشیاؤں اور حزب اللہ کو شام میں یقینی شکست کا سامنا تھا اور 80 فیصد شام بشار کے کنٹرول سے نکل چکا تھا تو ایران اور بشار نے روس کو مدعو کیا کہ آئو اور خون کی ایسی ہی ہولی کھیلو جو ماضی میں کابل اور گروزنی میں کھیل چکے ہو۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ روس کی شام میں مداخلت کے تناظر میں ایک تاریخی واقعہ ہوا تھا… فروری 2016ء میں کیتھولک چرچ کے سربراہ پاپائے روم اور روسی آرتھوڈوکس کلیسا کے سربراہ اسقف اعظم کے درمیان ایک ہزار سال میں پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ مغربی میڈیا پر آنے والی تجزیاتی رپورٹوں کے مطابق ملاقات کا ایجنڈا شام اور مشرق وسطیٰ میں عیسائیوں کی حالتِ زار تھا۔ یاد رہے کہ روسی کلیسا کے سربراہ ولادیمیر پیوٹن کو خدا کا معجزہ قرار دے چکے ہیں اور پیوٹن کے بے حد قریب ہیں۔
آج شام اپنے اصل باشندوں سے ایسے ہی خالی کرایا جارہا ہے جیسے یہودیوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کیا تھا۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک کی 80فیصد آبادی سنی مسلمانوں کی ہے، جبکہ ان پر ناجائز حکومت اقلیتی نصیری فرقے اور لادین بعث پارٹی کی ہے جسے ایران اور روس کی اندھی حمایت حاصل ہے۔
سن 2011ء میں شام کی آبادی 2کروڑ20لاکھ تھی، مگر اس خانہ جنگی کے دوران 4 لاکھ افراد قتل ہوچکے ہیں اور لاکھوں معذور ہوئے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 15لاکھ سے زائد شامی لبنان، اردن، عرب اور یورپی ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔40 لاکھ شامی ترکی میں مقیم ہیں۔ 60 لاکھ افراد جن میں اکثریت آئی ڈی پیز کی ہے، ادلب اور اُن علاقوں میں ہیں جہاں ترکی انہیں تحفظ فراہم کررہا ہے۔ گویا ترکی اس وقت ایک کروڑ یا شام کی نصف آبادی کا نگہبان ہے۔
حلب میں خون کے دریا بہانے والے بشارالاسد، روس اور ایران نواز قاتل ملیشیاؤں کی نظریں اب ادلب پر ہیں، یہ ادلب فتح کرکے یہاں بھی خون کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں… اس کارروائی کے نتیجے میں دس لاکھ افراد علاقہ چھوڑ کر ترکی کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔
اگر روس کامیاب ہوا تو مزید لاکھوں افراد شام چھوڑ جائیں گے۔
صدام اور قذافی کو اقتدار سے دنوں اور مہینوں میں فارغ کرنے والے امریکہ اور یورپ خطے میں آگ لگانے کے بعد اب برسوں سے تماشائی بنے ہوئے ہیں، انہیں بشارالاسد کی رخصتی کی کوئی جلدی نہیں ہے، سارا بوجھ اس وقت ترکی نے تنہا اٹھایا ہوا ہے۔ گولان کی پہاڑیاں ہڑپ کرنے والا اسرائیل ساری صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور تاک میں بیٹھا ہے۔ اگر مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت قائم رہ جاتی تو ترکی اور مصر یہ مسئلہ اب تک شامی عوام کے حق میں حل کرچکے ہوتے۔ شاید اسی لیے شہید مرسی کے خلاف جنرل سیسی کی بغاوت پر جہاں بشارالاسد نے جشن منایا تھا، وہیں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ایران نے بھی سُکھ کا سانس لیا تھا۔ اب ایران تو روس کے ساتھ مل کر اپنا کھیل کھیل رہا ہے، مگر مصر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب شام کے مظلوم عوام کو فراموش کرکے اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں۔