اسرائیلی مولویوں اور قدامت پسند قوم پرستوں میں جھگڑے کی بنیادی وجہ لازمی فوجی بھرتی کا قانون ہے
اسرائیل نے ایک سال کے دوران تین انتخابات کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی۔ 120 رکنی اسرائیلی کنیسہ(پارلیمان) کے پہلے انتخابات گزشتہ برس 9 اپریل کو ہوئے تھے۔ انتخابات ہونے تو نومبر میں تھے لیکن وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو المعروف بی بی اور اُن کی اہلیہ پر مالی بدعنوانی و بے ایمانی کے الزامات کے علاوہ مخلوط حکومت کے مذہبی اور قوم پرست اتحادیوں کی چپقلش نے بی بی کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور کردیا۔
اسرائیلی مولویوں اور قدامت پسند قوم پرستوں میں جھگڑے کی بنیادی وجہ لازمی فوجی بھرتی کا قانون ہے، جس کے تحت ہر اسرائیلی لڑکے کو 2 سال 8 ماہ، اور لڑکی کو 2 سال فوجی خدمات سرانجام دینی ہوتی ہیں۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد بھی لام بندی قانون کے تحت ریاست جب چاہے کسی بھی شہری کو فوجی خدمت کے لیے واپس بلاسکتی ہے۔ اسرائیل کے مسلمان شہریوں پر چونکہ اسرائیلی پولیس اور فوج میں داخلہ بند ہے لہٰذا انھیں فوجی تربیت کی ضرورت نہیں۔ یہودی، دروز اور عیسائی باشندوں کے لیے فوجی تربیت لازم ہے۔ سرکیشیائی (Circassians) مسلمانوں کے لیے بھی فوجی تربیت لازمی ہے۔ سرکیشیائی نسلاً تاتار ہیں جن کے آباو اجداد کوہ قاف سے ہجرت کرکے بحر اسود کے کنارے آباد ہوگئے تھے۔ ترک عثمانیوں کے دور میں یہ لوگ فلسطین آگئے اور اسرائیل کے قیام پر انھوں نے خود کو یہودی ریاست سے وابستہ کرلیا۔
لازمی فوجی خدمت کے قانون سے حریدی (Heridi) فرقے کے یہودی یا Ultra- Orthodox Jews مستثنیٰ ہیں۔ اسرائیلی روایات کے مطابق حریدیوں کے آبا و اجداد حضرت عیسیٰؑ پر سب سے پہلے ایمان لائے تھے۔ عبرانی انجیل یا کتابِ عیسیٰ میں خوفِ آخرت سے کانپتے اور لرزتے ہوئے لوگوں کو حریدی کہا گیا ہے۔ دلچسپ بات کہ حضرت مسیح سے تعلق و وفاداری کی بنا پر بعض یہودی علما حریدیوں کو مسیحی فرقہ قرار دیتے ہیں۔ حریدی خود کو توریت اور احکاماتِ ربانی یا تلمود (Talmud)کا وارث سمجھتے ہیں اور ان کے یہاں ہر مرد کے لیے توریت و تلمود کی تعلیم فرض سمجھی جاتی ہے۔ درس و تدریس کے لیے مخصوص مدارس ہیں جہاں طلبہ ٹاٹ پر بیٹھ کر توریت حفظ کرتے ہیں۔ ان مدارس کو Yeshiva کہا جاتا ہے۔ Yeshiva کے معنی ہی ہیں زمین پر بیٹھنا۔ حریدی اسرائیلی سیاست میں بے حد سرگرم ہیں۔ دونوں حریدی جماعتیں یعنی شاس پارٹی (Shas Party) اور متحدہ توریت پارٹی (UTJ) نیتں یاہو کی پُرعزم اتحادی ہیں۔ اسرائیل میں حریدیوں کی آبادی 10 فیصد کے قریب ہے اور متناسب طرزِ انتخاب کی بنا پر انھیں اپنے حجم کی مناسبت سے کنیسہ میں نمائندگی بھی حاصل ہوجاتی ہے۔
کچھ عرصے سے حریدیوں کے لیے فوجی خدمت سے استثنیٰ کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ اس تحریک کے روحِ رواں اسرائیل مادرِ وطن پارٹی کے سربراہ لائبرمین ہیں۔ جناب لائبرمین نے فوجی خدمت سے حریدیوں کا استثنیٰ ختم کرنے کے لیے ایک قانون بھی متعارف کروایا ہے، لیکن سیاسی بحران کی بنا پر اب تک رائے شماری کی نوبت نہیں آئی۔ تاہم وہ صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ ان کی پارٹی حکومت سازی کے لیے صرف اُسی جماعت کی حمایت کرے گی جو ان کے بل کی حمایت کا پیشگی وعدہ کرے۔ دوسری طرف حریدیوں کا کہنا ہے کہ لازمی فوجی تربیت کے لیےYeshiva سے 32 مہینے کی غیر حاضری تعلیم میں حرج کا سبب بنے گی جسے حریدی اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت تصور کرتے ہیں۔
ان انتخابات میں براہِ راست مقابلہ بی بی کے لیکڈ بلاک اور اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ جنرل بن یامین (بینی) گینٹز کے نیلے و سفید اتحاد(B&W) کے درمیان ہے۔ اسرائیلی پرچم کا رنگ نیلا اور سفید ہے جس کی مناسبت سے یہ نام تراشا گیا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے جنرل صاحب لبرل و روشن خیال ہیں لیکن مسلمانوں سے نفرت اور فلسطین کشی کے معاملے میں بی بی اور بینی دونوں کے طرزِ فکر میں ذرّہ برابر فرق نہیں۔ انتخابی مہم کے دوران وہ فخر سے کہتے پھرے کہ فوجی خدمت کے دوران انھوں نے اپنے ہاتھوں سے غزہ پرگولیاں چلائی ہیں اور کئی ’دہشت گردوں‘ کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
متناسب نمائندگی کی بنا پر قائم المشترکہ یا عرب اتحاد اسرائیل میں تیسری بڑی قوت ہے۔ عربوں کے خلاف انتہا پسندانہ رویّے کی مقبولیت سے ایک زمانے میں انتہائی مقبول بائیں بازو کی لیبر پارٹی اب ایک چھوٹی سی جماعت بن چکی ہے۔ حریدیوں کی شاس اور توریت پارٹی کی طرح دائیں بازوکی یمین پارٹی مخصوص طبقات میں مقبول ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف سرگرم عمل گرین پارٹی بھی ایک آدھ نشست لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
جناب لائبرمین کی اسرائیل مادرِ وطن پارٹی کا پارلیمانی حجم تو کوئی خاص نہیں لیکن اپنے بانی و قائد کی مول تول میں مہارت کی وجہ سے یہ جماعت بادشاہ گری کے حوالے سے بے حد مؤثر سمجھی جاتی ہے۔ لائبرمین خود کو روشن خیال سیکولر کہتے ہیں، لیکن ان کے روسی والدین نے اپنے فرزند کی تربیت ایک متعصب اشکنازی یا یورپی نژاد یہودی کی حیثیت سے کی ہے جنھیں حریدیوں سے شدید نفرت ہے۔ اسی بنا پر وہ عام عبرانی کے بجائے عدش (Yiddish) زبان بولتے ہیں جو قواعد و انشا کے اعتبار سے تو عبرانی ہی ہے لیکن محاوروں اور تلفظ کے باب میں یہ جرمن زبان کے بے حد قریب ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا حریدیوں کے لیے فوجی تربیت سے استثنیٰ کا شوشا لائبرمین نے اٹھایا ہے اور وہ اپنے مؤقف میں ذرا سی بھی لچک پیدا کرنے کو تیار نہیں۔
اپریل 2019ء کے انتخابات میں 120 رکنی پالیمان میں بی بی کا لیکڈ اتحاد 35 نشستوں پر کامیاب ہوا، اور لیکڈ کے اتحادی شاس پارٹی 8، توریت پارٹی 8، اور دائیں بازو کے متحدہ محاذURWP نے 5 نشستیں حاصل کیں، یعنی حکمراں اتحاد کا پارلیمانی حجم 56تھا، جبکہ حکومت سازی کے لیے 61 ووٹ درکار تھے۔
دوسری طرف B&W اتحاد نے 35، ان کی اتحادی لیبر پارٹی نے 6، بائیں بازو کی مارٹز (Meretz)نے 4 اور معتدل خیالات کی حامل کولانو پارٹی نے 4 نشستیں حاصل کیں۔ گویا حزبِ اختلاف کی مجموعی نشستیں 49 تھیں۔ دوسری طرف عرب اتحاد کو مجموعی طور پر 10 نشستیں حاصل ہوئیں اور لائبرمین کی اسرائیل مادر وطن پارٹی 5 نشستوں پر کامیاب ٹھیری۔
لازمی فوجی تربیت کے معاملے میں لائبرمین اور B&W میں ہم آہنگی تھی اس لیے حزبِ اختلاف کا مجموعی حجم 54 ہوگیا، لیکن انھیں حکومت سازی کے لیے اب بھی 7 نشستوں کی ضرورت تھی۔ عرب اتحاد نے اسرائیلی بستیوں کی تعمیر روکنے کی شرط پر B&Wکو اپنی حمایت پیش کی، لیکن یہ پیشکش حقارت کے ساتھ مسترد کردی گئی۔
نیتن یاہو نے لیبر، مارٹز اور کولانو کو اپنے ساتھ ملانے کی سرتوڑ کوشش کی، لیکن لیکڈ کے قدامت پسند نظریے کی بنا پر ان تینوں جماعتوں نے معذرت کرلی۔ لائبرمین بھی فوجی تربیت کے معاملے پر اپنے مؤقف میں کسی قسم کی لچک لانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ بی بی نے B&Wکو نائب وزارتِ عظمیٰ، وزارتِ دفاع، خارجہ، داخلہ اور تعلیم کے ساتھ کابینہ کی 75 فیصد نشستوں کے عوض اتحاد کی پیشکش کی، لیکن بینی وزارتِ عظمیٰ سے کم پر راضی نہ ہوئے۔ دوسری طرف بی بی کے لیے وزارتِ عظمیٰ سے دست برداری کا تصور ہی محال ہے کہ جیسے ہی ان کا استثنیٰ ختم ہوا، موصوف کو جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ چنانچہ اسرائیلی صدر نے کنیسہ تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔
17 ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے نتائج بھی غیر فیصلہ کن رہے۔ اس بار پارلیمانی صف بندی کچھ اس طرح تھی کہ کنیسہ میں لیکڈ اور اُس کے اتحادیوں کی مجموعی تعداد 55، یاحکومت سازی کے لیے مطلوبہ حجم سے 6 کم تھی۔ نومنتخب کنیسہ میں B&W اور اس کے اتحادیوں کی مجموعی تعداد 44 تھی۔ اِس بار عرب اتحاد کی نشستیں 10 سے بڑھ کر 13 ہوگئیں، لیکن یہ گروپ پارلیمان میں عضوِ معطل بنارہا کہ بی بی اور بینی کوئی بھی حکومت سازی کے لیے ان کی مدد لینے کو تیار نہ تھا۔ نیتن یاہو نے مخلوط حکومت کے لیے B&Wکو آدھی مدت کے لیے وزارتِ عظمیٰ پیش کی تو اسے قبول کرتے ہوئے B&W نے یہ شرط عائد کردی کہ پہلی مدت میں وزیراعظم بینی ہوں گے۔ بی بی کے قانونی مشیروں نے انھیں خوف دلایا کہ وزارتِ عظمیٰ کا استثنیٰ ختم ہونے پر گرفتاری کے بعد اگر ان کی فوری ضمانت نہ ہوسکی تو کنیسہ سے 90 دن کی غیر حاضری پر ان کی رکنیت کالعدم ہوجائے گی۔ مہینوں کی بات چیت اور اعصاب شکن مذاکرات کے بعد بھی کوئی تصفیہ نہ ہوسکا، چنانچہ اسرائیلی صدر نے ایک بار پھر کنیسہ کو تحلیل کردیا۔
اب 2 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں غیر سرکاری نتائج کے مطابق بی بی کا لیکڈ بلاک 36 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر ہے۔B&W کے حصے میں 33 نشستیں آئیں، اور عرب اتحاد کا پارلیمانی حجم 13 سے بڑھ کر 15 ہوگیا۔ بی بی کے اتحادیوں میں شاس نے 9، توریت پارٹی نے 8 اور دائیں بازو کی یمین نے 6 نشستیں حاصل کرلیں۔ گویا دائیں بازو کے قدامت پسند مذہبی اتحاد کو 120 رکنی پارلیمان میں 59 ارکان کی حمایت حاصل ہوگی۔ اگر حزبِ اختلاف عرب اتحاد کو اپنے ساتھ ملانے پر راضی ہوجائے تو نیتن یاہو کو وزارتِ عظمیٰ سے محروم کرکے انصاف کے کٹہرے کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے، لیکن برا ہو نسل پرستی کا کہ دائیں بازو کے تنگ نظر قدامت پسندوں اور مذہبی عناصر کے ساتھ بائیں بازو کے سیکولر اور روشن خیال بھی عرب اتحاد کو ساتھ بٹھانے پر تیار نہیں۔
پاکستان سمیت مسلم دنیا کے روشن خیال حماس کی عسکری پالیسیوں کے مخالف ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلح جدوجہد سے کوئی نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا، اور اب زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اسرائیلیوں کے ساتھ مل کر رہنے کی عادت ڈال لینی چاہیے۔ اسرائیل کو وطن قرار دینے والے عربوں نے یہ بھی کرکے دیکھ لیا، لیکن ان کے منتخب نمائندوں کو شریکِ اقتدار کرنا تو دور کی بات، ان کے حلف کے دوران کنیسہ خالی رہتا ہے۔ پارلیمنٹ میں قومی سلامتی سے متعلق حساس معاملات پر بحث کے دوران انھیں بائیکاٹ کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کہتے ہیں کہ دورِ حاضر میں Apartheid کا جو عملی مظاہرہ اسرائیل میں ہورہا ہے وہ جنوبی افریقہ میں بھی نہیں دیکھا گیا۔
اس نفرت انگیز سوچ سے فلسطینیوں کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ اپنی جگہ، لیکن معلق پارلیمان اور فریقین کے غیر لچک دار رویوں کی بنا پر ایک سال سے جاری سیاسی بحران تحلیل ہوتا نظر نہیں آتا، اور سیانے ستمبر میں چوتھے عام انتخابات کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔
………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔