ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

۔’’وار آن ٹیرر‘‘ امریکی تاریخ کی طویل ترین اور مہنگی ترین جنگ کیا ختم ہوگئی؟
اس جنگ کو بعض یورپی ماہرینِ بین الاقوامی امور ’’چوتھی عالمی جنگ‘‘ بھی قرار دے چکے ہیں، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کن عالمی قوتوں کے درمیان یہ معرکہ برپا تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں تو ایشیائی اور افریقی مقبوضہ نوآبادیات پر یورپی سامراجی قوتوں کے کنٹرول کی باہمی جنگیں تھیں، جبکہ تیسری عالمی جنگ جسے ’’سرد جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، صنعتی انقلاب اور یورپی نشاۃ ثانیہ کے نتیجے میں قائم ہونے والے الحادی نظام کے دو بچوں یعنی ’’سرمایہ داریت‘‘ اور ’’کمیونزم‘‘ کے درمیان تھی۔ خدا اور انسانیت دشمن تہذیبِ مغرب کے دو بازوئوں نے دنیا کو آپس میں تقسیم کردیا تھا۔ اس جنگ کا خاتمہ سوویت یونین کے انہدام سے ہوا۔ سرد جنگ کے خاتمے نے عالمی صف بندی میں غیر یقینی کی کیفیت پیدا کردی تھی۔ اسی غیر یقینی کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے مسلم ملک عراق کو کویت پر چڑھائی کے لیے اکسایا اور اس بہانے جدید ترین فضائی قوت کے ساتھ حملہ آور ہوگیا۔ عراق پر امریکی جزوی قبضے کے بعد ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا اعلان کیا گیا۔ ’’وار آن ٹیرر‘‘ یا دہشت گردی کے خاتمے کی عالمی جنگ ’’امریکی نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا تسلسل ہے۔ ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا اعلان اس تصور کی بنیاد تھا کہ ٹیکنالوجی نے دنیا کو ’’عالمی گائوں‘‘ میں بدل دیا ہے، اس لیے ایک عالمی حکومت قائم ہونی چاہیے۔ لیکن سامراجی استحصالی نظام دنیا بھر کے انسانوں کو بھائی بھائی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انسانی مساوات کا کتنا بھی دعویٰ کیا جائے، نیو ورلڈ آرڈر یا تہذیبِ مغرب، یا عالمی سرمایہ دارانہ نظام ایک مختصر طبقے کی جانب سے انسانوں کو غلام بنانے کا عمل ہے۔ اس ظلم کے خلاف بغاوت اور ردعمل کو روکنے کے لیے جتنا جھوٹ بولا گیا ہے، اس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
یہ جنگ اس تکبر کی بنیاد پر چھیڑی گئی ہے کہ روئے زمین پر اب سامراجی طاقتوں کو چیلنج کرنے والی کوئی طاقت موجود نہیں ہے۔ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے اس جنگ کے دو مرحلے تھے، پہلا مرحلہ افغانستان پر، اور دوسرا عراق پر قبضے کا تھا۔ عراق پر حملے کا جواز تو جھوٹا ثابت ہوگیا، کہا یہ گیا کہ دنیا کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے خطرہ ہے اور عراق کے ڈکٹیٹر صدام حسین نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار جمع کرلیے ہیں۔ یہ دعویٰ آج جھوٹ ثابت ہوچکا ہے۔ صرف اس بنیاد پر امریکی صدر، اُن کے جرنیل، اُن کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے عہدیداران، امریکی تھنک ٹینک کے نام نہاد دانشور اُن کے اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق جنگی جرائم کے مجرم ہیں۔ لیکن ایسی کوئی عدالت موجود نہیں ہے جو جنگی جرائم کے حقیقی مجرموں پر مقدمہ چلائے اور ان کو سزا دے۔ یہی بنیاد افغانستان پر حملے کی ہے۔ 11ستمبر 2001ء کو ایک حادثہ پیش آیا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے دو ہوائی جہازوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی علامت نیویارک ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت سے ٹکرا دیا گیا اور اعلان کردیا گیا کہ امریکہ پر حملہ ہوگیا۔ تمام شواہد اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ صدر بش، پینٹاگون، سی آئی اے اور امریکی ذرائع ابلاغ کو اس کا علم تھا کہ ایک واقعہ ہوگا جس کے بعد افغانستان پر حملہ کیا جائے گا اور پوری دنیا کو غلام بنانے کے لیے ایک نئی غیر روایتی عالمی جنگ چھیڑ دی جائے گی۔ اس جنگ کا نام ’’وار آن ٹیرر‘‘ رکھ دیا گیا اور دنیا کو خوف زدہ کردیا گیا کہ ’’عالمی اسلامی دہشت گرد‘‘ انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ امریکی حکومت کی جانب سے بغیر کسی تحقیق اور شواہد کے اعلان کیا گیا کہ افغانستان میں پناہ گزین سعودی شہری اسامہ بن لادن نے منصوبہ بندی کی ہے اور افغانستان کے مجاہدین کی حکومت ’’اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ یعنی طالبان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی ہوئی ہے اور یہ لوگ عالمی دہشت گردی کے ذمے دار ہیں۔ ہم نے اوّل دن سے یہ کہا تھا کہ یہ امریکی جنگ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ نہیں ہے بلکہ دنیا کو امریکی طاقت سے دہشت زدہ کرکے اپنا غلام بنانے کی جنگ ہے۔ یہ فروغِ دہشت گردی کی جنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسامہ بن لادن کی موت کے اعلان کے باوجود ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ لاکھوں نہتے افغان مسلمان قتل ہوئے، ٹریلین ڈالر اس جنگ کی آگ میں بھسم ہوگئے، لیکن جنگ کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ اس جنگ کے حقیقی مقاصد کو چھپایا گیا، اس کے لیے بے تحاشا جھوٹ بولا گیا۔ اب اس جنگ کو 19 برس ہونے والے ہیں، امریکہ نے جن کو دہشت گرد قرار دیا تھا اب اُن کے ساتھ میز پر بیٹھا ہے، لیکن اس بات کا اعتراف نہیں کیا گیا کہ یہ جنگ جھوٹ کی بنیاد پر تھی۔ اس عرصے میں بنیادی انسانی حقوق کو جس طرح پامال کیا گیا، ناقابلِ بیان جسمانی، ذہنی، نفسیاتی تشدد کیا گیا اس کا حساب کون دے گا؟ امن کی تقدیس کے علَم بردار کہاں ہیں؟
(یحییٰ بن زکریا صدیقی)