کراچی کا فخر نعمت اللہ خان

کوئیبھی سلیم الفطرت انسان… خواہ اللہ نے اُسے کتنی ہی شخصی خوبیوں اور اوصافِ حسنہ سے نوازا ہو… بشری کمزوریوں، لغزشوں اور خطا و نسیان سے مبرا نہیں ہوتا۔ یہی معاملہ اللہ کے اس نیک بندے جناب نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کا بھی ہوگا، جس کے انتقال کی خبر نے ملک بھر میں ہر اُس شخص کو دکھ اور صدمے سے دوچار کردیا، جو اُن کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ اور اُن کی دکھی انسانیت کے لیے بے لوث، گراں قدر خدمات سے واقف تھا، اور شہر کراچی کے منتخب سربراہ کے طور پر اُن کے دور میں تعمیر و ترقی کے شاندار منصوبوں کی تکمیل کا شاہد ہے۔ ان کی نمازِ جنازہ میں شہری جس طرح امڈ آئے وہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ یہ شہر آج بھی اپنے محسنوں کو فراموش نہ کرنے کی روایت پر قائم ہے۔ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی رحلت سے پاکستان اور پاکستانی سماج ایسی دینی، سیاسی اور سماجی شخصیت سے محروم ہوگیا جس کی ذات کو اللہ نے ’’خیرِ کثیر‘‘ سے نوازا تھا، اور جس نے اپنے رب کی اس نعمت پر شکر گزاری کے لیے اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کی، اور شارع دینِ مبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق بننے کے لیے بلا امتیازِ زبان و نسل، مذہب و مسلک بے لوث خدمت کو اپنا شعار بنایا۔
نعمت اللہ خان یوپی کے تاریخی شہر شاہجہان پور میں یکم اکتوبر 1930ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ نعمت اللہ خان کی عمر ابھی دس سال تھی اور ساتویں جماعت کے طالب علم تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والدہ اپنے پانچ بچوں جن میں تین بیٹے اور دو بیٹیاںتھیں، لے کر اپنے والد کے پاس اجمیر شریف چلی گئیں جہاں وہ سرکاری ملازم تھے۔ نعمت اللہ خان پانچ سال اپنے نانا کے پاس اجمیر شریف میں رہے۔ نانا نے انہیں اسکول کی تعلیم کے دوران ہی اسٹینو گرافری سکھا دی، جو عملی زندگی میں ان کے بہت کام آئی۔ 1946ء میں واپس اپنے آبائی وطن شاہجہان پور آگئے اور سولہ سال کی عمر میں اسلامیہ ہائی اسکول شاہجہان پور سے امتیازی نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اسکول کے زمانے میں ہی قائداعظم کی قیادت میں چلنے والی حصولِ پاکستان کی تاریخ ساز جدوجہد میں بچہ مسلم لیگ میں سرگرم ہوکر گلی کوچوں میں مسلم لیگ کی کامیابی کے فلک شگاف نعرے لگاتے رہے۔ 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو میٹرک کے نتیجے کا انتظار بھی نہ کیا۔ والدہ اور بھائی بہنوں کے بغیر ہی تن تنہا کراچی آگئے اور پہلی رات فٹ پاتھ پر گزاری۔ بعد میں مولوی مسافر خانہ میں کرائے پر چارپائی لے کر رہنے لگے۔ پیٹ پالنے کے لیے صبح سویرے ہاکر کے طور پر گھروں میں اخبار ڈالنے کی مزدوری کی۔ دن میں کئی کئی جگہ سرکاری اور نجی دفتروں میں پارٹ ٹائم نوکری کرتے تھے۔ کچھ پیسے جمع ہوگئے تو (آج جہاں مزارِ قائد کے احاطے میں باغ ہے، وہاں ایک اونچی پہاڑی تھی) جہاں ہجرت کرکے آنے والوں کی جھگی بستی بنی تھی، وہاں ایک چھوٹی سی جھگی لے لی اور اپنے بھائی کو بھارت سے بلوا لیا جس نے پاکستان آکر ماں کو خط میں لکھا کہ بھائی جان نے رہنے کے لیے مکان کا انتظام کرلیا ہے، آپ اب پاکستان آجائیں۔ والدہ بچوں کے ساتھ پاکستان آئیں تو پہلے اس مختصر سی جھگی میں رہیں، بعد میں اسی جگہ ٹینٹ (خیمہ گھر) میں منتقل ہوگئیں۔
نعمت اللہ خان تین بھائی اور دو بہنوں سمیت پانچ بھائی بہن تھے۔ ایک بہن کا انتقال تو پاکستان آتے ہی ہوگیا تھا، دوسری بہن کی شادی اسی خیمہ گھر میں ہوئی تھی جن کی بیٹی ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی مرحوم کی بہو ہے۔
نعمت اللہ خان نے محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا۔ بھائی اپنے ساتھ اُن کا میٹرک کا رزلٹ اور سرٹیفکیٹ لے آئے تھے جس کی وجہ سے تعلیم جاری رکھنے میں آسانی ہوگئی تھی۔ نعمت اللہ خان نے 1949ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا ۔ 1951ء میں بی اے کرلیا، جس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کرنے کے بعد مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کرلیا۔ فارسی میں ایم اے کرنے کے بعد مولوی فاضل کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کو بیک وقت اردو، انگریزی، فارسی اور عربی سمیت چار زبانوں پر دسترس ہوگئی۔ انگریزی میں مہارت انہیں ان کے نانا نے اجمیر میں اسٹینو گرافی سکھاتے وقت ہی کرا دی تھی۔ نعمت اللہ خان نے وزارتِ دفاع میں بھی نوکری کی جہاں انہیں صاحب زادہ یعقوب علی خان (جنرل یعقوب علی خان) کے دفتر میں اُن کے اسٹینو گرافر کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے آخری مستقل سرکاری ملازمت محکمہ انکم ٹیکس میں کلکٹر کسٹم کے اسٹینو گرافر کے طور پر کی تھی۔ ایم اے کرنے کے بعد بھی ملازمتوں کے ساتھ مزید تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جامعہ کراچی میں پروفیسر شریف المجاہد کی چیئرمین شپ میں صحافت میں ڈپلومہ کورس شروع ہوا تو اپنے میٹرک کے کلاس فیلو فضل قریشی (معروف صحافی اور پی پی آئی کے سابق چیف ایڈیٹر) کے ساتھ جرنلزم میں امتیازی نمبروںکی ساتھ ڈپلومہ کورس میں کامیابی حاصل کی۔ 1957-58ء میں ایس ایم لا کالج کراچی سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان بھی دیا جس میں تحریری امتحان تو پاس کرلیا تھا، زبانی امتحان میں ایک سوال کا درست جواب نہ دینے کی وجہ سے ایک نمبر سے رہ گئے تھے۔ 1958ء میں مارشل لا لگا تو سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر وکالت کو بطور پروفیشن اختیار کرلیا۔
شب و روز کی محنت اور لگن سے جلد ہی چند برسوں میں وکالت میں اپنی شناخت اور مقام بنالیا۔ محکمہ انکم ٹیکس میں کلکٹر کسٹم کے ساتھ اسٹینوگرافر کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے انکم ٹیکس کے معاملات کو سمجھنے کی کافی استعداد حاصل ہوگئی تھی، اس لیے انکم ٹیکس کی وکالت کو ہی مستقل روزگار کا ذریعہ بنایا۔ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کا نام اس شعبے کے نہایت قابل، نیک نام اور کامیاب وکلا میں ہوتا ہے۔ اب اُن کا لا چیمبر اُن کے بیٹے ندیم اقبال ایڈووکیٹ اور پوتے وقاص جو برطانیہ سے قانون کی تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں، نے سنبھالا ہوا ہے۔ نعمت اللہ خان مرحوم نے اپنے پسماندگان میں ایک بھائی(جو امریکہ میں ٹیکسٹائل کا بزنس کرتے ہیں)، سات بیٹے، دو بیٹیاں اور 20 پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور ہزاروں مداح سوگوار چھوڑے ہیں۔ نعمت اللہ خان نے اپنا نارتھ ناظم آباد کا مکان فروخت کردیا تھا، ان کی رہائش اب سب سے بڑے بیٹے وسیم کے ساتھ تھی۔ اہلیہ کا انتقال 1994ء میں ہوگیا تھا۔
نعمت اللہ خان جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد 1969ء میں جماعت کے قریب آئے تھے۔ 1974ء میں جماعت کے رکن بنے، 1985ء میں جماعت کے ٹکٹ پر نارتھ ناظم آباد سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور سندھ اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف بنے۔ 1991ء سے 2001ء تک کے پُرآشوب دور میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر رہے، اس دوران انہوں نے اپنے سینکڑوں کارکنوں کے لاشے اپنے کندھوں پر اٹھائے۔ جس جرأت اور مردانگی کے ساتھ اسلحہ کے زور پر کراچی کی سیاست کو یرغمال بنانے والی قوتوںکا جماعت اسلامی نے نعمت اللہ خان کی قیادت میں مقابلہ کیا یہ انہی کا جگرا تھا۔
نعمت اللہ خان جس قافلے کا راہی تھا، اس کا سالار مجددِ عصر سید مودودیؒ تھا، جس نے اپنے قافلے میں شامل ہونے والوں کو ذہن نشین کرایا تھا کہ خدمتِ خلق دین کا تقاضا اور قربِ الٰہی حاصل کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
سید مودودیؒ نے 1941ء میں جماعت اسلامی قائم کی، تب سے خدمتِ خلق کا شعبہ نظمِ جماعت کا بنیادی حصہ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل 1946ء میں صوبہ بہار میں ہونے والے مسلم کُش فسادات کے متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے پورے ہندوستان سے جماعت اسلامی کے رضاکار بہار گئے تھے۔ اسی قافلے میں ڈیرہ غازی خان سے ڈاکٹر نذیر شہید سابق رکن قومی اسمبلی، اور سرہند شریف سے جانے والوں میں میاں محمد شوکت مرحوم (سابق رکن قومی اسمبلی) اور اُن کے چھوٹے بھائی میاں محمد علی مرحوم کے علاوہ درجنوں وہ افراد تھے جو بعد میں بھارت اور پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خداداد صلاحیتوں اور اعلیٰ خدمات کی وجہ سے نمایاں ہوئے۔ اس میں کیا شک ہے کہ برصغیر میں پہلی دینی سیاسی جماعت، جماعت اسلامی ہے جس نے باقاعدہ ’’خدمتِ خلق‘‘ کا شعبہ قائم کیا۔
نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ اُس وقت کے کراچی جماعت کے امیر چودھری غلام محمد مرحوم ومغفور جیسی کرشماتی شخصیت کی وجہ سے جماعت سے وابستہ ہوئے تھے۔ 1977ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے شعبۂ خدمتِ خلق کے مرکزی سربراہ حکیم محمد اقبال حسین مرحوم ومغفور نے مارشل لا لگنے کے بعد شعبۂ خدمتِ خلق کو نظمِ جماعت سے الگ کرکے ’الخدمت کراچی‘ کے نام سے رجسٹر باڈی بنائی توکراچی کے معروف سرجن فضل الٰہی مرحوم کو صدر، ڈاکٹر مجید مرحوم کو نائب صدر اور نعمت اللہ خان کو جنرل سیکرٹری بنایا۔ بعدازاں نعمت اللہ خان الخدمت کراچی کے سربراہ اور الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے صدر بنے۔
نعمت اللہ خان کو جس حیثیت میں بھی کام کرنے کا موقع ملا اُن کی دل چسپی کا محور دکھی انسانیت کی خدمت، محروم طبقات کی زندگیوں میں آسودگی فراہم کرنا اور شہر کراچی کی تعمیر و ترقی کے ذریعے اس کی ’’علم پرور‘‘ اور ’’غریب پرور‘‘ کی پرانی شناخت بحال کرانا رہا، جس کی وجہ سے ہی یہ روشنیوں کا شہر تھا اور کسی امتیاز اور تعصب کے بغیر ملک بھر سے علم کے حصول اور روزی روزگار کے متلاشیوں کے لیے پُرامن جائے پناہ تھی۔ منتخب سٹی ناظم کے طور پر اُن کی شاندار اعلیٰ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت تعمیر و ترقی کے وہ منصوبے ہیں جو انہوں نے مکمل کرائے، اور جن پر اپنے دورِ نظامت میں کام شروع کیا ان میں ضلع وسطی میں امراضِ قلب کے جدید سہولتوں سے مزین شاندار اسپتال کی تعمیر، ماس ٹرانزٹ کا منصوبہ، K-3 پانی کا منصوبہ، ایکسپریس وے، کے پی ٹی اور اسٹیل مل کے تعاون سے بننے والے انڈرپاس اور فلائی اوور، اور تعمیر و ترقی کے دیگر بڑے منصوبے جن میں بہت سے تعلیمی ادارے شامل ہیں، جو بعد میں آنے والوں کے دور میں مکمل ہوئے، جن پر وہ کام شروع کرا چکے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سرکاری زمینوں پر قائم ہونے والی ناجائز تعمیرات گرانے کا جو حکم دیا ہے، دس سال قبل ان تجاوزات کو ختم کرانے کی درخواست سپریم کورٹ میں نعمت اللہ خان مرحوم ہی لے کر گئے تھے، جس پر سپریم کورٹ کے بڑے بینچ نے یہ تاریخی فیصلہ دیا تھا کہ کوئی سرکاری زمین، کوئی پارک، کھیل کا میدان کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ نعمت اللہ خان نے اپنے دورِ نظامت میں 300 سے زائد پارکوں پر تجاوزات ختم کراکے نئے سرے سے پارک بحال کیے تھے۔ اس کے علاوہ کراچی کے اٹھارہ ٹائونز میں اٹھارہ ماڈل پارک بنائے تھے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں (سوائے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی صاحب کے رفاہی ادارے SIUT کے) کوئی سرکاری پلاٹ کسی کو الاٹ نہیں کیا، نہ کسی کو کرنے کی اجازت دی۔ان کی شہر کے لیے بے مثال خدمات، امانت، دیانت، راست بازی اور رواداری کا اعتراف اور گواہی دنیا دے رہی ہے، اور اس منصب پر فائز رہنے والے اُن کے سیاسی حریف اور اُن کی جماعت کے شدید مخالف انہیں شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کررہے ہیں۔ وہ آج بھی لوگوںکے دلوں میں زندہ ہیںجس کا مظہر اُن کی نمازِ جنازہ میں عام شہریوں کے علاوہ ہر سیاسی جماعت کے اکابرین اور دینی و سماجی رہنمائوں کی بہت بڑی تعداد میں شرکت تھی۔ ان میں وزیر اعلیٰ سندھ، گورنر سندھ اور ان کی جماعت کے منتخب ارکان، میئر کراچی وسیم اختر (جو اُن کی تدفین کے آخری مرحلے قبر کو مٹی دینے تک کے عمل میں شریک رہے)، میاں نواز شریف کی کابینہ میں سابق وزیر کیپٹن (ر)حلیم اے صدیقی، سابق میئر ڈاکٹر فاروق ستار، سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال، نعمت اللہ خان کے مقابلے میں الیکشن ہارنے والے پیپلزپارٹی کے دانشور رہنما تاج حیدر، ان کے دور میں قائدِ حزبِ اختلاف سعید غنی سمیت کون تھا جو نہیں آیا تھا! اللہ کرے جس طرح ہر سیاسی و دینی جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں نے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر رواداری کا عملی مظاہرہ کیا ہے یہی سیاسی کلچر ہماری روز مرہ کی زندگی میں بھی فروغ پا جائے جو ماضی میں اس شہر کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔
جناب نعمت اللہ خان کراچی سٹی کی نظامت سے فارغ ہوتے ہی ایک دن ضائع کیے بغیر زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے آزاد کشمیر اور بالا کوٹ روانہ ہوگئے،جہاں اپنی ٹیم کے ہمراہ متاثرین کی بحالی کے کام میں جت گئے۔ زلزلہ متاثرین کی خدمت میں دن رات جس طرح انہوں نے پیرانہ سالی کے باوجود ایک کیے رکھے اس کی تفصیل کالم کا نہیں پی ایچ ڈی کے مقالہ کا موضوع ہے۔ انہوں نے صرف الخدمت کراچی میں پانچ ہزار رضا کاروں کی ٹیم تیار کی جو کسی بھی ہنگامی صورت میں جائے حادثہ پر پہنچ کر ریلیف کا کام شروع کردیتی ہے۔رب کریم اپنے اس عاجز بندے کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے، اور اپنی کریمی سے روزِ حشر شافعِ محشر صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک سے حوضِ کوثر سے سیرابی ان کا مقدر کر دے (آمین)، اور شہر کراچی کو اُن جیسی خوبیوں والی قیادت عطا کردے، اور موجودہ قیادت کو بھی اُن کی طرح کام کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ وہ کراچی کا فخر تھا جو ہمیشہ اپنے کردار کی بلندی کی وجہ سے یاد رہے گا۔