محمد کلیم اکبر صدیقی
جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے سابق نائب امیر، جماعت اسلامی کراچی کے سابق امیر، الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے سابق صدر، ملک کے معروف وکیل انکم ٹیکس (ٹیکس ایڈوائزر) اور عبدالستار افغانی مرحوم کے بعد کراچی کو دوبارہ سرسبز و شاداب، صاف ستھرا اور روشنیوں کا شہر بنانے والے ضلعی سٹی ناظم جناب نعمت اللہ خان نوّے سال کی بھرپور اور قابلِ رشک زندگی گزار کر شاداں و فرحاں اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون
نعمت اللہ خان صاحب تقسیم کے بعد وسطی ہند سے ہجرت کرکے کراچی آئے۔ کراچی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بطور انکم ٹیکس وکیل معاشی زندگی کا آغاز کیا اور 1974ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ بہت جلد آپ کا شمار جماعت کے معروف قائدین میں ہونے لگا۔
پروفیسر عبدالغفور احمد قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی جماعت کے امیر بھی تھے۔ پروفیسر صاحب نے اپنے نظم میں نعمت اللہ خان صاحب کو نائب امیر بنایا، جنہوں نے پروفیسر صاحب کی پارلیمانی مصروفیات کے پیش نظر کراچی جماعت کی سرگرمیوں کا معیار نہ صرف قائم رکھا بلکہ ہر شعبے میں پہلے سے زیادہ فعالیت اور رسوخ کا اضافہ کیا۔ بعدازاں آپ کراچی جماعت کے امیر منتخب ہوئے اور کئی میقات کراچی جماعت کی قیادت کی۔ آپ بہت عرصہ مولانا جان محمد عباسی کے ہمراہ سندھ جماعت کے نائب امیر رہے۔ خان صاحب کی اقامتِ دین کے لیے طویل اور مثالی خدمات کے ساتھ سماجی اور فلاحی و بہبود کی خدمات کا بھی سلسلہ بھرپور رہا۔ کراچی اور سندھ کے صحت، تعلیم اور فراہمی آب کے متعدد منصوبے آپ کی سرپرستی میں رہے۔ اورنگی کے الخدمت اسپتال کے لیے عطیات کی اپیل تو تھوڑا عرصہ پہلے تک رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہی ہے۔
جنرل پرویزمشرف کی حکومت کے بلدیاتی نظام کے تحت انتخابات میں کراچی جماعت نے بھرپور حصہ لیا اور برتری حاصل کی، جس کی بنا پر سٹی ناظم کا عہدہ حاصل کرنا ممکن ہوا۔ جماعت اسلامی نے اس منصب کے لیے نعمت اللہ خان کو نامزد کیا، حالانکہ عمر کے لحاظ سے وہ سینئر سٹیزن تھے لیکن عزم و حوصلے کے لحاظ سے جوان تھے۔ منصب سنبھالنے کے بعد خان صاحب نے کراچی کی قسمت بدل دی۔ شہری سہولیات اور خوبصورتی کا ریکارڈ قائم کردیا۔ اپنے تو اپنے، مخالفین بھی خدمات کو سراہنے پر مجبور ہوئے۔ اپنے دور میں نعمت اللہ خان صاحب نے بلدیاتی وسائل کی خوردبرد اور لوٹ مار کے سارے دروازے بند کردیے۔ کراچی کے عوام آج بھی خان صاحب کی خدمات کو یاد کرتے ہیں اور اُن جیسا بلدیاتی سربراہ نصیب ہونے کی دعا کرتے ہیں۔
2001ء میں میرے برادرِ نسبتی کا ولیمہ تھا جو کہ مزارِ قائد کے قریب واقع ایک معروف کلب میں تھا۔ میں نے اپنے جماعتی حوالے سے خان صاحب کو دعوت نامہ بھیجا۔ توقع تھی کہ مبارکباد کا پیغام آجائے گا، لیکن حیرت ہوئی کہ رات گئے تک کی مصروفیات کے باوجود خان صاحب تشریف لائے، اس انداز میں کہ سادہ سی کار جس پر نیلی لائٹ لگی ہوئی تھی۔ استحقاق کے مطابق پولیس اسکارٹ نہ تھی، صرف ایک گن مین ساتھ تھا۔ وہ پندرہ بیس منٹ رکے، مبارکباد دی اور یہ کہہ کر واپسی کی اجازت لی کہ کئی اور تقریبات میں اسی طرح مختصر حاضری دینی ہے۔ عمر اور منصب کی مصروفیات کے لحاظ سے یہ انداز صرف عظیم شخصیت ہی اپنا سکتی ہے۔
2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد چند ماہ تک تو قوم میں عطیات دینے کا جذبہ رہا، جو بعدازاں ٹھنڈا پڑ گیا، جبکہ ضروریات بے پناہ تھیں۔ خان صاحب سٹی ناظم کے عہدے کی مدت پوری کرچکے تھے، اس لیے طے ہوا کہ خان صاحب ہر بڑے شہر کا دورہ کریں اور جماعت کی مقامی قیادت کے ساتھ بازاروں میں جھولی فنڈ اکٹھا کریں۔
اس مہم کے تحت خان صاحب ایک دن کے دورے پر ملتان تشریف لائے۔ اُس وقت عمر پچھتر سال کے قریب تھی، لیکن پیرانہ سالی کے باوجود گیارہ بجے دن سے لے کر رات دس بجے تک درمیان میں صرف نمازوں اور ظہرانہ کا وقفہ کرکے شہر کے تین معروف بازاروں میں کارکنان کے ساتھ جھولی پکڑ کر چلے۔ پانچ لاکھ سے زائد نقد اور لاکھوں روپے کی ادویہ اور سامان جمع ہوا۔ کم عمر کارکن تھک گئے لیکن بوڑھا مجاہد مصروفِ عمل رہا۔ جسے اللہ تعالیٰ اپنا پسندیدہ بندہ بنانا چاہے اُس کو ایسے ہی عزم و حوصلے اور جذبۂ جہاد سے نوازتا ہے۔
خان صاحب ہمارے لیے مشعل راہ روشن کرگئے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ہمیں اُن کا سا جذبۂ عمل دے۔ آمین