اسد احمد
ایم کیو ایم کے سیاسی مرکز کراچی میں متبادل قیادت کا تصور پہلی بار کب اُبھرا؟ مہاجروں نے کب یہ سوچنا شروع کیا کہ ان کی نمائندگی متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ کوئی دوسری جماعت بھی کرسکتی ہے؟ اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ جو مقبولیت کراچی و حیدرآباد میں ایم کیو ایم کو حاصل ہوئی وہ نہ پیپلزپارٹی کو اندرونِ سندھ مل سکی اور نہ مسلم لیگ (ن) کو لاہور میں ملی۔ ایم کیو ایم کے امیدوار ایک الیکشن میں ووٹ لینے کا ریکارڈ بناتے اور اگلے الیکشن میں اپنا ہی ریکارڈ توڑ ڈالتے۔ مخالف امیدوار بیس یا تیس ہزار کے فرق سے نہیں بلکہ بعض سیٹوں پر ایک ایک لاکھ ووٹوں سے ہارتے۔ بانیِ متحدہ الطاف حسین بجا طور پر یہ سمجھتے، اور متحدہ کے کارکن یہ دعویٰ بڑے اعتماد اور فخر سے کرتے تھے کہ اگر بھائی کھمبا بھی کھڑا کردیں تو وہ جیت جائے گا اور مخالف کی ضمانت ضبط ہوجائے گی۔ اگر الطاف حسین کبھی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے تو ٹرن آئوٹ اتنا کم ہوتا کہ فاتح امیدوار صرف دس گیارہ ہزار ووٹ لے کر ہی رکن اسمبلی بن جاتے۔ جنرل اللہ بابر کا آپریشن کلین اَپ اور جعلی پولیس مقابلے بھی پارٹی کی مقبولیت کم نہ کرسکے۔
مگر اکتوبر 2002ء کے انتخابی نتائج الطاف حسین کے لیے بہت بڑا دھچکہ ثابت ہوئے۔ ایم کیو ایم کراچی کی 20 میں سے قومی اسمبلی کی 8 سیٹیں ہار گئی۔ گلشن اقبال، پی ای سی ایچ ایس، ڈیفنس،کورنگی اور لانڈھی جیسے علاقے ایم کیوایم کے ہاتھ سے نکل گئے۔ فیڈرل بی ایریا جہاں ایم کیو ایم کا ہیڈکوارٹر تھا، وہاں کی صوبائی اسمبلی کی نشست بمشکل تمام ہاتھ آئی۔ نارتھ ناظم آباد کی قومی اسمبلی کی نشست ایم کیوایم کو مل تو گئی مگر خود الطاف حسین بھی یہ جانتے تھے کہ یہ نشست اُن کی جماعت کو کس طرح جتوائی گئی تھی؟ انتخابی نتائج دیکھ کر بانیِ متحدہ پارٹی رہنمائوں پر برس پڑے اور کئی رہنمائوں کو عہدوں سے محروم ہونا پڑاتھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ جماعت جو ہر سیٹ پچاس ہزار تا ایک لاکھ ووٹوں کے فرق سے باآسانی جیت لیا کرتی تھی، آخر2002ء میں قومی اسمبلی کی 20میں سے 8سیٹیں کیسے ہار گئی؟
اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کی صرف دو ہی وجوہات سامنے آتی ہیں۔
پہلی وجہ یہ کہ مرکز میں جنرل پرویزمشرف کی صورت میں ایک ایسا طاقتور حکمران بیٹھا تھا جو نہ صرف مہاجر تھا بلکہ اپنی شناخت پر فخر کرتا تھا، یوں شہری سندھ میں آباد اردو اسپیکنگ کمیونٹی میں جو عدم تحفظ پایا جاتا تھا وہ نسبتاً خاصا کم ہوگیا۔ مگر صرف پرویزمشرف کا مہاجر ہونا ایم کیوایم یا الطاف حسین کی حمایت سے پیچھے ہٹنے کے لیے کافی نہیں تھا۔
آئیے اب دوسری وجہ پر غور کرتے ہیں۔ دراصل کراچی کے لوگ یہ بات بہت زور شور سے کہہ رہے تھے(اور آج پھر کہہ رہے ہیں) کہ کراچی پورے پاکستان کو پالتا ہے مگر کراچی پر کوئی خرچ نہیں کرتا۔ سڑکیں، ٹرانسپورٹ کا نظام، شہر کا انفرااسٹرکچر، پارکس سب کچھ تباہ حال ہے۔ گلیوں میں اسٹریٹ لائٹس نہیں اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ آخر کوئی شہر کا والی وارث بھی ہے؟ اسی دوران جب 2001ء میں جنرل پرویزمشرف نے شہری حکومتوں کا نہایت بااختیار نظام متعارف کراتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کیا تو الطاف حسین غلطی کربیٹھے، انہوں نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ایم کیو ایم کے بائیکاٹ نے کراچی میں جماعت اسلامی کو ایک بار پھر ابھرنے کا موقع فراہم کردیا۔ جماعت اسلامی کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب بہت کم تھا، اس لیے کہ ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کی وجہ سے ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا تھا۔ شہر میں چونکہ کوئی دوسری منظم سیاسی قوت باقی نہیں بچی تھی، اس لیے جماعت اسلامی ہی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔
امیر جماعت اسلامی کراچی نعمت اللہ خان سٹی ناظم بنے، جو یہ بات جانتے تھے کہ احساسِ محرومی کا جواب آپریشن نہیں بلکہ کارکردگی ہے، شہریوں کو یہ دکھانا ہوگا کہ کوئی دوسرا بھی ہے جو اُن کا درد رکھتا ہے، صرف مسائل کے لیے آواز نہیں اٹھاتا بلکہ انہیں حل کرنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔ پہلے ایک سال میں کوئی میگا پراجیکٹ تو مکمل نہ ہوا مگر شہر اور یونین کونسلوں کی سطح پر صفائی ستھرائی، اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب، سڑکوں کی استرکاری، چورنگیوں کی سگنلائزیشن اور پارکس کی بحالی کا کام تیزی سے ہوا۔ یوں کراچی کے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ایم کیوایم کے علاوہ کوئی دوسری جماعت بھی ہے جو ان کے مسائل حل کرسکتی ہے، جو دیانت داری کے ساتھ ڈیلیور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شہریوں کو اپنے مسائل حل ہوتے ہوئے نظر آرہے تھے، یوسی ناظمین اور کونسلروں تک ان کی رسائی بہت آسان تھی۔ اسی تناظر میں جب دینی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل بنا تو 2002ء کے عام انتخابات ایم کیوایم کے لیے انتہائی حوصلہ شکن ثابت ہوئے۔ وہی کراچی جہاں گلی گلی ’’جماعتی ٹھا‘‘ اور’’نورانی ٹھا‘‘ کے نعرے گونجتے تھے، دینی جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گئیں۔ ووٹرز متحدہ ورکرز کی گاڑیوں میں بیٹھ کر پولنگ اسٹیشنوں تک آئے، پرچیاں بھی ایم کیوایم کے کیمپ سے بنوائیں اور ووٹ ایم ایم اے کے امیدوار کو ڈال آئے۔ رات گئے نتائج کا اعلان ہوا تو لندن سیکرٹریٹ میں صفِ ماتم بچھ چکی تھی۔
ہمارے نزدیک نعمت اللہ خان کا سب سے بڑا کارنامہ یہی تھا کہ انہوں نے کراچی کے لوگوں کو ایم کیوایم کا متبادل بن کر دکھایا۔ لوگوں کی اکثریت نہ سہی تو بہت بڑی تعداد اس تاثر سے باہر آگئی کہ ایم کیوایم کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔ آنے والے وقت میں نعمت اللہ خان نے اپنے کام، کارناموں اور میگا پراجیکٹس سے کراچی کے لوگوں کے دل جیت لیے۔ انہوں نے انتہائی کشیدگی کے ماحول میں بجائے مایوس ہونے اور شکوے شکایت کے حکمت، تدبر اور ہمت سے کام لیتے ہوئے کراچی کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔ 2005ء کے بلدیاتی انتخابات کس ماحول میں ہوئے یہ کوئی راز نہیں ہے۔ 12مئی 2004ء کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں ایک ہی دن 12 افراد شہید کیے گئے تھے۔ بلدیاتی انتخابات سے ذرا پہلے جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر اسلم مجاہد کو دن دہاڑے اغوا کرکے شہید کیا گیا۔ مگر خوف کی اس فضا میں بھی ووٹرز کی بڑی تعداد گھروں سے نکلی۔ شہر کی 178یونین کونسلوں میں سے کم از کم 70 یونین کونسلوں پر ایم کیوایم مخالف امیدوار جیت گئے۔ اگر ضلع وسطی، لانڈھی اورکورنگی سمیت کچھ اور علاقوں میں ایم کیو ایم کو فری ہینڈ نہ دیا جاتا تو وہ یقینی طور پر کم از کم 25 یونین کونسلیں مزید ہار جاتی۔ یوں نعمت اللہ خان کے دوبارہ سٹی ناظم بننے کا راستہ باآسانی ہموار ہوجاتا۔ مگر صدر جنرل پرویزمشر ف کچھ اور ہی سوچ رہے تھے۔ سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ جب 2005ء کے بلدیاتی انتخابات قریب آئے تو جنرل پرویزمشرف کراچی تشریف لائے،گاڑی میں بیٹھ کر نعمت اللہ خان سے ملاقات کی اور کہا: ہم نے تمام ایجنسیوں سے آپ کی انکوائری مکمل کرلی ہے، سب نے ایک ہی رپورٹ دی ہے کہ آپ ایمان دار شخص ہیں اور کراچی میں ڈیلیور کرکے دکھایا ہے، مگر آپ کی ایک کمزوری ہے کہ آپ کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، اگر آپ اس کا کچھ کرلیں تو پھر بلدیاتی انتخابات میں کوئی بندوبست ہوسکتا ہے۔ مسجد الحرام میں جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف اٹھانے والے نعمت اللہ خان نے وفاداری تبدیل کرنے سے انکار کردیا۔
انتخابی دھاندلی سے نعمت اللہ خان بلدیاتی الیکشن ہار گئے مگر کراچی کی سیاست کا رخ بدل گئے۔ شہریوں کی اکثریت نے عصبیت کے بجائے کارکردگی کو ووٹ دینے کا پیمانہ بنالیا،کراچی میں مہاجرکارڈ کا سحر ٹوٹ گیا، اسٹیبلشمٹ کو اندازہ ہوگیا کہ کراچی کا بڑا حصہ ایم کیو ایم کی گرفت سے نکل چکا ہے، یہ جماعت اقتدار میں ہونے کے باوجود اپنی مقبولیت کھو رہی ہے اور شہر پر کنٹرول کے لیے ہماری بیساکھیوں کی محتاج ہے۔ ایم کیوایم کی قیادت کو بھی یہ احساس ہوگیا کہ شہر میں اب صرف مہاجر کارڈ نہیں چلے گا بلکہ سیاست بچانے کے لیے کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔
2005ء کے بعد ملک میں 2008ء کے عام انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ یوں کراچی میں ایم کیوایم کو خالی میدان ملا۔ ایم کیوایم مخالف ووٹرز کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ متحدہ قومی موومنٹ نے بغیر کسی مقابلے کے وہ علاقے دوبارہ جیت لیے جو 2002ء اور 2005ء میں اس کی گرفت سے آزاد ہوگئے تھے۔کراچی کی سیاست میں خلا صاف نظر آرہا تھا۔ عمران خان تبدیلی کے نعرے کے ساتھ میدان میں اترے تو نوجوانوں نے اُن سے امیدیں باندھ لیں۔ 2013ء کے عام انتخابات ایم کیوایم کے لیے ایک بار پھر زوردار دھچکا ثابت ہوئے۔ ڈیفنس،کلفٹن،گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، پی ای سی ایچ ایس اور صدر سمیت وہ سارے علاقے جہاں سے ایم کیوایم 2002ء اور 2005ء میں ہاری یا بمشکل جیتی تھی، ایک بار پھر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے پاس تنظیم موجود تھی اور نہ پولنگ ایجنٹ تھے، جب کہ جماعت اسلامی نے دھاندلی کے خلاف احتجاجاً بائیکاٹ کردیا۔ یوں یہ معرکہ سر تو ہوگیا مگر ایم کیوایم کی انتہائی کم ہوتی مقبولیت سارے ملک نے دیکھ لی، اور الطاف حسین کو سیاست سے مائنس کرنا اسٹیبلشمنٹ کے لیے بہت آسان ہوگیا۔ 2018ء کے انتخابات میں ایم کیوایم کراچی کی 21 میں سے صرف 4سیٹیں ہی جیت سکی۔
اب کراچی کے لوگ پی ٹی آئی کی کارکردگی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی دباؤ کا شکار ہیں، لوگ کارکردگی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ادھر میئر کراچی وسیم اختر نے ناقص کارکردگی سے ایم کیوایم پاکستان کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ اپنے بھی وسیم اختر پر چراغ پا ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ4 سال میں ملنے والے ترقیاتی فنڈ کہاں خرچ ہوئے؟ ایسے میں جماعت اسلامی کراچی کے کارکن اور قیادت شہریوں کو یہ یاد دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ نعمت اللہ خان کا دور کراچی کے لیے یادگار تھا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اہلِ کراچی ایک بار پھر جماعت اسلامی کی طرف متوجہ ہوں گے؟