طالبان امریکہ امن معاہدہ، منڈلاتے خطرات؟۔

معاہدے کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کو بھی بیدار رہنا ہو گا

افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے طالبان امریکہ معاہدے کے تحت 10مارچ تک طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا نہ کرنے کے ناقابلِ فہم اعلان کے بعد جواباً طالبان نے بھی امن معاہدے کے مطابق بین الافغان مذاکرات میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے، جس سے 29 فروری 2020ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ڈیڑھ سال کے طویل مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والا امن معاہدہ غیر یقینی کا شکار ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ اس امن معاہدے میں (جس کے نفاذ پر ان ہی سطور میں خدشات کا اظہار کیاگیا تھا) ایک شرط یہ رکھی گئی تھی کہ 10 مارچ 2020ء تک افغان حکومت کے زیر حراست طالبان کے 5 ہزار قیدیوں اور طالبان کے قبضے میں موجود افغان سیکورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا، اور اس کے فوراً بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان ملک کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے مذاکرات شروع ہوں گے۔ لیکن اس معاہدے کے چند گھنٹوں بعد ہی افغان صدر کی جانب سے طالبان کے قیدی رہا نہ کرنے اور ان قیدیوں کی رہائی کو انٹرا افغان ڈائیلاگ کے ساتھ منسلک کرنے کے اعلان کے ردعمل میں اب طالبان نے بھی بین الافغان مذاکرات سے انکار کردیا ہے، جس نے اس تاریخی امن معاہدے کے مستقبل پر کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک غیر ملکی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی تک انٹرا افغان مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے پانچ ہزار قیدی جن میں سے 100 یا 200 کم یا زیادہ معنی نہیں رکھتے، کو طے شدہ تاریخ تک رہا نہ کیا گیا تو طالبان مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان نے اعلان کیا کہ طالبان امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کے باوجود افغان فورسز کے خلاف اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کریں گے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ امریکہ سے ہونے والے معاہدے سے قبل جو7 روزہ عارضی جنگ بندی کی گئی تھی اس کا دورانیہ اب ختم ہوچکا ہے، لہٰذا طالبان افغان فورسز کے خلاف اپنی معمول کی کارروائیاں دوبارہ شروع کررہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ اور افغان طالبان کے مابین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے میں گو طالبان نے افغان سرزمین دہشت گردوں کو استعمال نہ کرنے دینے کی ضمانت دی ہے، باقی شرائط کے مطابق امریکہ اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے گا، فریقین ایک دوسرے کے قیدی رہا کردیں گے۔ تاہم بعض باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن پر فریقین نے اتفاق تو کیا ہے لیکن انھیں معاہدے کا حصہ نہیں بنایا گیا، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ طالبان نے انٹرا افغان مذاکرات کے دوران تمام گروپوں پر مشتمل مخلوط حکومت میں شمولیت پر رضامندی ظاہرکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان تقریباً ڈیڑھ سال جاری رہنے والے مذاکرات کے دوران مخلوط حکومت میں شمولیت پر آمادہ نہیں ہورہے تھے لیکن امریکہ کے علاوہ پاکستان اور امن عمل میں شامل دیگر ممالک نے انہیں اس بات پر قائل کیاکہ وہ افغانستان میں بننے والی مخلوط حکومت کا حصہ بنیں، تاہم طالبان کا کہنا تھا کہ وہ اس شرط پر مخلوط حکومت میں شامل ہوں گے کہ صدر اشرف غنی متنازع الیکشن کے ذریعے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے پر اصرار نہیں کریں گے۔ طالبان کی اس شرط کے بعد افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد کو امن معاہدے پر دستخط سے محض روز قبل دوحہ سے کابل جانا پڑا اور انھوں نے صدر اشرف غنی پر دبائو ڈالا کہ وہ نئے انتخابات میں اپنی کامیابی کے بعد حلف برداری کی تقریب ملتوی کردیں، جس پر انہوں نے حلف برداری کی تقریب 10مارچ تک ملتوی کرنے کی ہامی بھری۔ دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے طالبان امریکہ معاہدے کی ایک اہم شق یعنی پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کے متعلق مؤقف اپنایا ہے کہ قیدیوں کی رہائی انٹرا افغان مذاکرات کا حصہ تو ہوسکتی ہے لیکن اسے طالبان کی شرط کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اشرف غنی نے کابل میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ انہوں نے امریکی نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا تھا۔ افغان صدر کا مزید کہنا تھا کہ افغان عوام کو اس بات کی یقین دہانی کرائی جانی چاہیے کہ رہا ہونے والے افراد دوبارہ کبھی افغان عوام کے سامنے اٹھ کھڑے نہیں ہوں گے۔
اسی اثناء امن معاہدے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ وقت اپنے لوگوں کو واپس گھر لانے کا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل قریب میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ ملاقات کہاں ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ رواں برس مئی تک افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں پانچ ہزار تک کمی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر افغان طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی تو امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے افغانستان سے اپنی تمام افواج اگلے 14 ماہ میں واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ طالبان بہت لمبے عرصے سے امریکہ کے ساتھ یہ معاہدہ کرنا چاہتے تھے، اور یہ کہ ان کو یقین تھا کہ یہ ڈیل ہوجائے گی کیونکہ ہر کوئی اس جنگ سے تھک چکا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی افواج افغانستان میں ہزاروںکی تعداد میں دہشت گردوں کو ہلاک کررہی تھیں اور اب وقت آگیا ہے کہ کوئی اور اس کام کو سرانجام دے، یہ کام اب طالبان کریں گے یا اردگرد واقع ممالک… جس سے اُن کا واضح اشارہ غالباً پاکستان کی جانب تھا جس نے طالبان امریکہ معاہدے میں پسِ پشت رہتے ہوئے کلیدی کردار ادا کیا ہے، جس کا اعتراف امریکی وزیر خارجہ کے علاوہ امریکی صدر بھی کرچکے ہیں، اور شاید پاکستان کے اس تعمیری اور تاریخی کردار نے جہاں اشرف غنی جیسے کٹھ پتلیوں کی نیندیں حرام کررکھی ہیں وہیں ان کے سرپرست بھارت کو بھی افغان سرزمین پر اپنے مفادات کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ2001ء سے جاری افغان جنگ میں پچھلے 19 سال کے دوران امریکہ اور اُس کی اتحادی افواج کی ڈیڑھ لاکھ افواج کی تعیناتی کے دوران جہاں ڈیڑھ لاکھ افغان اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، وہیں تین ہزار سے زیادہ امریکی اور اتحادی فوجی بھی اس لڑائی میں ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ اس جنگ کے نتیجے میں امریکی معیشت کو تقریباً تین ٹریلین ڈالر کا جھٹکا لگ چکا ہے، اور موجودہ امریکی صدر زیر بحث معاہدے کے ذریعے اگر ایک طرف امریکہ کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا چاہتے ہیں تو دوسری جانب وہ امریکی افواج کے انخلا کے ذریعے آئندہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھی کامیابی کے متمنی ہیں، کیونکہ صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ وہ اس جنگ کو ختم کردیں گے۔ اس لیے اگر وہ اپنے اس وعدے پر عمل پیرا نہ ہوتے تو انہیں صدارتی انتخابات میں یقیناً مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔
امن معاہدے کی تقریب میں شرکت کرنے والے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے وعدوں سے منحرف نہ ہوں اور القاعدہ سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں۔ انھوں نے ساتھ ساتھ امید ظاہر کی کہ افغانستان اس معاہدے کے بعد گزشتہ 40 برسوں سے جاری جنگ سے چھٹکارا پا لے گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان اور اس کے شہری اب ایک نئی اور پُرامن زندگی کی جانب گامزن ہوں گے۔ دوسری جانب امریکی سیکرٹری دفاع مارک ایسپر جو امن معاہدے پر دستخطوں کے وقت کابل میں افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ موجود تھے، کا معاہدے کی تکمیل پر کہنا تھا کہ یہ ایک پُرامید موقع ہے، لیکن یہ صرف شروعات ہیں، اور آگے کا راستہ آسان نہیں ہوگا۔ افغانستان میں مستقل امن کے حصول کے لیے صبر کا دامن تھامنا ہوگا اور تمام فریقین کو قربانیاں دینی ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کی حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔
یاد رہے کہ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ دستخط کرنے کے 135 دنوں میں امریکہ اپنی فوج کی تعداد 8600 تک لے آئے گا، جبکہ دیگر اتحادی ممالک بھی اپنی افواج کی تعداد میں کمی لائیں گے۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ طالبان کے خلاف لگائی جانے والی پابندیاں اٹھا لے گا اور اقوام متحدہ سے بھی سفارش کرے گا کہ وہ بھی لگائی گئی پابندیوں کو ختم کردے۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور اتحادی معاہدے کے بعد پہلے 135دنوں میں پانچ فوجی اڈے خالی کریں گے۔ امریکہ افغانستان کے داخلی امور میں مداخلت، طاقت کے استعمال اور طاقت کے استعمال کی دھمکی دینے سے گریز کرے گا۔ معاہدے کے اعلان کے مطابق طالبان القاعدہ سمیت کسی گروپ کو امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کا موقع نہیں دیں گے۔ نیز طالبان کسی بھی گروپ یا فرد کو امریکہ کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسی طرح طالبان افغانستان میں پناہ کے خواہش مندوں کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق معاملہ کریں گے، تاکہ کوئی ایسا فرد افغانستان میں رہائش اختیار نہ کرسکے، جو امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بن سکتاہو۔ طالبان کسی بھی ایسے شخص کو ویزہ، پاسپورٹ، دیگر سفری سہولیات فراہم نہیں کریں گے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہو۔
اس معاہدے کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اقوامِ متحدہ سے گزارش کرے گا کہ اس معاہدے کو تسلیم کیا جائے۔ اس معاہدے میں ایک دوسرے کے ساتھ مثبت تعلقات کی توقع ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ امید ظاہر کی گئی ہے کہ امریکہ اور بین الافغان مذاکرات کے نتیجے میں بننے والی اسلامی حکومت کے مابین بھی تعلقات مثبت ہوں گے، جب کہ بین الافغان مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان کی تعمیرنو کے لیے اخراجات کا جو تخمینہ سامنے آئے گا، امریکہ اس کے لیے مالی تعاون کا راستہ بھی تلاش کرے گا۔
اس معاہدے کے مندرجات اور اس کی تکمیل کے طویل اور صبر آزما دورانیے کو دیکھتے ہوئے، نیز اس معاہدے میں طالبان سے زیادہ امریکہ کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اس حقیقت کو سمجھنے میں یقیناً کسی کو بھی مشکل نہیں ہوگی کہ ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے طالبان قیدیوں کو رہا نہ کرنے کے اعلان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوسکتا ہے، اور اپنی اس بات کی لاج رکھنے میں وہ کس حد تک خودمختار ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی صدارت کس کی مرہونِ منت ہے، اور یہ بیساکھیاں ہٹتے ہی ان کی کیا حیثیت ہوگی۔ اس لیے انہیں محض اپنا قد کاٹھ بڑھانے اور طالبان سے ہونے والے مذاکرات میں اپنی حیثیت منوانے کی خاطر یہ اتنا بڑا بول بولنا پڑا ہے، ورنہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ امریکہ کی سپورٹ کے بغیر ایک ہفتے بھی افغانستان کی صدارتی کرسی پر براجمان نہیں رہ سکتے۔ البتہ یہاں اس زمینی حقیقت کی نشاندہی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں چونکہ طالبان فاتح اور پاکستان اُن کے پشتی بان کے طور پر نہ صرف سامنے آیا ہے بلکہ پاکستان کی اس حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا اعتراف بھی کیا گیا ہے، اس لیے اس معاہدے پر بھارت اور ایران کی خفگی اور اعتراض نہ تو ناقابلِ فہم ہے اور نہ ہی اسے نظرانداز کرنے کی گنجائش ہے۔ اس لیے امریکہ اور طالبان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی اس تاریخی امن معاہدے کو ہر حال میں کامیاب بنانے کے لیے نہ صرف چوکنا رہنا ہوگا، بلکہ اس معاہدے کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے بھی اسے ہر سطح پر بیدار اور ہوشیار رہنا ہوگا۔