حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا ’’آؤ ٹ آف باکس‘‘ حل پاکستان کے لیے سرخ رومال نہیں رہا
مسلم لیگ (ق) کے صدر اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک نئی تجویز پیش کی ہے۔ یہ تجویز پاکستان یا بھارت کے بجائے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ہے۔ آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ٹرمپ اقوام متحدہ کو 72 سال پرانی قراردادیں چھوڑ کر خودمختار کشمیر کا کہیں۔ یہ قراردادیں ردی کا ٹکڑا ہوکر رہ گئی ہیں۔ لیبیا کے صدر معمر قذافی بھی اس منصوبے پر کام کرتے رہے۔ انہوں نے ایک معینہ مدت کے لیے خودمختار کشمیر کے مالی اخراجات برداشت کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ چودھری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ثالثی کے بجائے مصالحتی کردار ادا کریں۔ مسئلہ کشمیر میں کامیاب کردار ادا کرنے پر ٹرمپ اگلا صدارتی الیکشن باآسانی جیت سکتے ہیں۔
چودھری شجاعت حسین ملکی اسٹیبلشمنٹ سے قربت اور ہم آہنگی رکھنے والے سیاست دانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ سیاست کے ایک کلاسیکل گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنرل پرویزمشرف دور کی کنگز پارٹی کی شہرت رکھنے والی مسلم لیگ (ق) کے صدر اور اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے کچھ عرصے کے لیے وزیراعظم رہنے والے چودھری شجاعت حسین بہت گہری اور معنی خیز بات کہنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ صلح جوئی اور متحارب فریقین کے درمیان پُل کا مصالحانہ کردار ادا کرنے کے علاوہ ان کی اصطلاح ’’مٹی پائو‘‘ بھی اس حوالے سے خاصی مشہور ہے۔ چودھری شجاعت حسین اپنا مؤقف پوری قوت سے بیان کرچکے ہیں۔ ان کے عزیر واقارب اور احباب نے اس مؤقف کی تردید کے لیے بھی زور ڈالا، مگر میری معلومات کے مطابق چودھری شجاعت حسین نے اپنے بیان کی باضابطہ تردید جاری نہیں کی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چودھری شجاعت حسین کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے اور وہ اس پر قائم ہیں۔ یوں لگتا ہے چودھری شجاعت حسین ٹرمپ کو کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کی 72 سالہ قراردادوں کو ’’مٹی پائو‘‘ کہہ کر ایک نئی سوچ اور نئے زاویے کی طرف مائل ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ امریکہ اگر کشمیر پر ’’مٹی پائو‘‘ اصول اپناکر دونوں ملکوں کو کسی آؤٹ آف باکس حل پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان اس کوشش کا ساتھ دے گا، کیونکہ پاکستان کے لیے کشمیر کی زمین سے زیادہ وہاں کے عوام اور انسانوں کی اہمیت ہے۔ اس کے برعکس بھارت کو کشمیر کے انسانوں سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ اُس کی ساری توجہ کشمیر کی زمین پر ہے۔ پاکستان نے تاریخ کے ہر دور اور ہر موڑ پر مسئلہ کشمیر پر نئی سوچ اور اپروچ اختیار کرنے کی کوشش کی، مگر بھارت کا پرنالہ اپنی جگہ سے کبھی سرکنے نہ پایا۔ بھارت کی سوئی ’’اٹوٹ انگ‘‘پر اٹک کر رہ گئی ہے، اور اس گھسی پٹی اور ازکارِ رفتہ اصطلاح کے ساتھ بھارت چمٹ کر رہ گیا ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے ہر ممکن طریقے سے بھارت کا جمود توڑنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر جو بھی تجاویز دیں اُن کی تان چودھری شجاعت حسین کی تجویز پر ہی ٹوٹتی رہی۔ جنرل پرویزمشرف کا چار نکاتی فارمولا اسی سوچ وفکر کا آئینہ دار تھا۔ ایک مرحلے پر انہوں نے دوٹوک لفظوں میں بھارت کو پیغام دیا تھا کہ اگر وہ مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ ہو تو پاکستان سری نگر پر اپنے دعوے سے دست بردار ہوسکتا ہے۔ سری نگر پر دعوے سے دست برداری کا مطلب اقوام متحدہ کی قراردادوں سے دست برداری ہی تھا۔ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے بھی کشمیر کی آزادی کا جو نقشہ ذہن میں سجایا تھا اُس کی حتمی منزل بھی ’’اسلامی جمہوریہ کشمیر‘‘ تھا۔ بھارتی اخبارات میں جو منصوبہ جنرل ضیاء الحق سے منسوب کرکے اور اُن کی تقریر کے طور پر شائع کیا گیا تھا اُس کا لبِ لباب یہی تھا۔
بھارت کشمیر پر اپنی گرفت ڈھیلی کرنے کے بجائے اسے ٹکڑوں میں ہضم کرنے کی پالیسی اپنائے رہا۔ اس کی حتمی منزل پانچ اگست تھی، جب تمام اسپیڈ بریکر اور رکاوٹیں گراکر وہ ماحول بنانا مقصود تھا جہاں کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرکے، اُس کا اسلامی اور تاریخی تشخص تبدیل کرکے اُس کی قدیم ہندو شناخت بحال کردی جائے۔
چودھری شجاعت حسین نے صدرٹرمپ کو جو تجویز پیش کی ہے، ماضی میں بل کلنٹن بھی فلسطین پر اوسلو معاہدہ کرانے کے بعد کشمیر پر اوسلو یا شمالی آئرلینڈ طرز کا حل نکالنے کی بھرپور کوشش کرچکے ہیں۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ان دیرینہ تنازعات کو اپنی سیاسی کامیابی کے لیے استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی تھی، مگر بات پھر وہی ہے کہ بھارت طاقت اور ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے، اس نے کشمیر کو اپنی قومی اَنا اور مذہبی جذبات سے جوڑ دیا ہے۔ حکومت سمیت پورا پاکستان بھی چودھری شجاعت حسین کی تجویز کا ہمنوا بن جائے مگر بھارت کی ہٹ دھرمی اور اکھڑ مزاجی کا کیا علاج ہے؟ بھارت کا یہی رویہ ہر دور میں مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹ رہا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کا توڑ تجاویز اور قراردادوں میں نہیں، ٹھوس اقدامات میں ہے۔ وہ اقدامات کرنے پر ابھی عالمی ادارہ یا کوئی طاقت تیار نہیں۔
چودھری شجاعت حسین کی بات کو یوں ہوا میں اُڑایا بھی نہیں جا سکتا۔ بظاہر پاکستان اور بھارت کے کشمیر پر معاملات رکے ہوئے ہیں مگر پردے کے پیچھے کچھ معاملات آہستہ روی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ اس حوالے سے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا یہ کئی جہتی بیان بھی اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں، رفتار وہ نہیں جو ہونی چاہیے، تمام آپشن میز پر ہیں۔ آپشن کی بات جنگ اور امن کے حوالے سے بھی ہوسکتی ہے اور مسئلے کے حل کے حوالے سے بھی۔ کشیدگی کے موجودہ ماحول میں بھارت کی معروف شخصیت شتروگھن سنہا کی ایک سماجی تقریب میں شرکت اور صدر عارف علوی سے ملاقات بھی اپنی جگہ خاص اہمیت رکھتی ہے۔ شتروگھن سنہا جنرل ضیاء الحق کے دور سے پاک بھارت معاملات میں سماجی انداز سے دخیل ہیں، اور جنرل ضیاء نے انہیں منہ بولا بیٹا بنایا تھا، اور اس ناتے جنرل ضیاء الحق کی بیٹی زین اُن کی منہ بولی بہن ہیں۔ شتروگھن سنہا دونوں ملکوں کی کشیدہ فضائوں میں اکثر شاخِ زیتون لہراتے ہوئے نمودار ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا ’’آؤ ٹ آف باکس‘‘ حل پاکستان کے لیے سرخ رومال نہیں رہا۔ اگر ماضی میں یہ تاثر تھا بھی، تو جنرل پرویزمشرف نے رنگا رنگ تجاویز پیش کرکے اسے زائل کردیا تھا۔