ٹرمپ نے دورۂ بھارت میں عمران خان کو دوست کیوں کہا؟
طالبان امریکہ معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ اب اس معاہدے کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔ اس معاہدے میں پاکستان کی بھرپور کوشش کے بدلے حکومت امریکہ سے ایف اے ٹی ایف سے نکالے جانے کے لیے مدد اور تعاون بھی نہیں لے سکی۔ امریکہ طالبان امن معاہدہ شکوک و شبہات سے بھرپور ہے۔ معاہدے کی شقوں کو ستمبر تک نشر نہ کرنے سے بھی شکوک وشبہات پیدا ہوئے ہیں۔
جب کہ اس معاہدے کے بعد پاکستان کے لیے ’’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘ کے مصداق ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلنے کے لیے رات ڈھلنے اور سحر طلوع ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔ پاکستان کے لیے یہ صورتِ حال امریکہ اور بھارت نے مل کر بنائی ہے، بلکہ اسے ایک گہری منصوبہ بندی بھی کہہ سکتے ہیں۔ بھارت اور امریکہ چاہتے ہیں کہ اس خطے میں چین پر دبائو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو کسی نہ کسی امتحان میں ڈالے رکھیں۔ ایف اے ٹی ایف ایک ایسا پھندا ہے جس کے باعث پاکستان کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست کے اقدام کے خلاف کھل کر مزاحمت نہیں کرسکی۔ پاکستان کے خلاف امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ اور منصوبہ بندی ان کے اپنے لحاظ سے بظاہر تو کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن افغانستان کا صحرا اس قدر گرم ہے کہ کابل میں قدم جماتے جماتے بھارت اور امریکہ دونوں کے پائوں جل چکے ہیں۔ اس معاملے کے حل کے لیے ریاستی مفادات کے تحفظ کا احساس دل میں لیے پاکستان تحمل کی پالیسی اختیار کرکے ایک خاص حکمت عملی کے ساتھ چل رہا ہے۔ ملک کی چھوٹے حجم کی معیشت ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی دبائو میں ہیں کہ دوست ممالک کی جانب سے ملنے والی رقم خرچ کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کی مدد سے ہم اپنے زرمبادلہ کے ذخائر خرچ کرنے کے بجائے ان کا حجم برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے فیصلے کو پاکستانی بینکوں کے لیے منفی پیش رفت قرار دیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کے فیصلے کے بعد عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی جانب سے پاکستان کے لیے خصوصی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔
یہ بات کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ پلواما سے ابھی نندن تک پاکستان نے بھارتی بیانیے کو شکست دی ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے سرجیکل اسٹرائیک اور بالاکوٹ میں دہشت گرد کیمپ تباہ کرنے اور 300 دہشت گرد مارنے کا بھی دعویٰ کیا، مگر بھارت کے دعوے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے جسے عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان نے بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈے کا جواب حقائق کی کھوج سے دیا۔ اس کے باوجود کچھ چیلنج درپیش ہیں۔ موڈیز رپورٹ کے مطابق پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں برقرار رہنا پاکستانی بینکوں کے لیے ایک منفی خبر ہے۔ موڈیز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کارکردگی میں گزشتہ برسوں کی نسبت قدرے بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کے دئیے گئے 27 ٹاسکس میں سے 14 پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف حکام نے کہا ہے کہ پاکستان مزید پیش رفت دکھائے۔
اب رئیل اسٹیٹ اور سونے کا کاروبار بھی باقاعدہ دستاویزی معیشت میں لایا جارہا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ جون 2020ء تک پاکستان گرے لسٹ سے نکل آئے گا۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے کے لیے جون 2020ء تک کا وقت دیا گیا ہے اور ہدایت کی گئی ہے کہ مزید اقدامات کرکے ایف اے ٹی ایف کے اعتماد میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے چین، ترکی، ملائشیا اور دیگر کئی ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ایران بھی ہمارا حامی تھا، لیکن اب وہ خود بلیک لسٹ میں آگیا ہے، ملائشیا میں سیاسی بحران کھڑا ہوگیا ہے، چین اور ترکی دو ایسے ملک رہ گئے ہیں جہاں سیاسی استحکام ہے۔
امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ چال چل دی ہے، وزیراعظم عمران خان کو امریکی صدر نے دو طرفہ تجارت بڑھانے کی امید دلائی تھی، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا۔ پاکستان نے تین مطالبات رکھے تھے، پہلا یہ کہ فری ٹریڈ کی جائے، دوسرا مطالبہ کیا گیا کہ جی ایس پی پلس سے پاکستانی مصنوعات کو آسانی سے رسائی دی جائے، اور تیسرا یہ کہ ٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ معاہدے پر بات چیت کی جائے۔ ان میں سے کوئی مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ امریکہ نے صرف اپنے حق میں فیصلہ کیا اور کہا کہ امریکی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گی۔ یہ سودا صرف امریکیوں کو فائدہ پہنچائے گا کہ امریکی کمپنیاں یہاں سے منافع اپنے ملک لے کر جائیں گی جس سے امریکہ کو فائدہ ہوگا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کے دورے کو متوازی کرنے کے لیے اسلام آباد میں امریکی وزیر تجارت کو بھیجا۔ یہ دورہ محض ایک چال تھا۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ کسی قسم کی تجارت نہیں بڑھائی۔
صدر ٹرمپ دورہ بھارت مکمل کرکے واپس جاچکے ہیں۔ مودی کے سامنے صدر ٹرمپ نے عمران خان کو دوست قرار دے کر ایک بہت بڑا کارڈ کھیلا ہے۔ ٹرمپ کے اس جملے کا سفارتی تجزیہ بہت ضروری ہے کہ صدرٹرمپ نے کن معنوں میں وزیراعظم عمران خان کو دوست قرار دیا۔ پسِِ پردہ کچھ اور ضرور چل رہا ہے۔ امریکہ نے 5 اگست کے کشمیر کے بارے میں بھارتی فیصلے کی خاموشی سے تائید جاری رکھی ہوئی ہے اور اس نے آزاد کشمیر سے متعلق بھارتی پالیسی پر بھی کبھی اعتراض نہیں کیا۔ امریکہ کی یہ پالیسی اس خطے میں کہیں ان کہی کہانی کا عنوان تو نہیں بن رہی؟ صدر ٹرمپ کی بھارت میں کی جانے والی گفتگو پر ہماری پارلیمنٹ میں مکمل بحث ہونی چاہیے۔ ٹرمپ کی دہلی میں پریس کانفرنس سے کوئی مسئلہ کشمیر کے حل کی امید رکھتا تھا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی پریس کانفرنس کا مقصد محض یہ پیغام دینا تھا کہ مودی مذہبی شخص ہے اور مذہبی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ کیا ٹرمپ کا یہ بیان افغان طالبان کے لیے تھا؟ اس پریس کانفرنس کے فوری بعد بھارتی سیکرٹری خارجہ کا کابل جانا بھی ایک سوال ہے۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ ہونے جارہا تھا، اس وقت بھارتی سیکرٹری خارجہ کا وہاں کیا کام؟ اہم بات یہ ہے کہ وہ جب کابل پہنچے تو امریکی سیکرٹری دفاع اور نیٹو سکرٹری جنرل بھی اُس وقت افغانستان میں موجود تھے۔ نیٹو سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے افغان صدر سے بھی ملاقات کی تھی۔ دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کی تقریب میں بھی بھارت کی موجودگی سوالیہ نشان ہے۔ بھارت افغان حکومت کا حامی ہے۔ اب وہ کابل میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے، اس کی کوشش ہے کہ افغانستان میں وہ اپنے اثاثے کسی طرح محفوظ رکھ سکے۔ اس نے وہاں بہت سرمایہ کاری کررکھی ہے۔