فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس انڈسٹریز کے کوآرڈی نیٹر اور اٹک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بانی صدر مرزا عبدالرحمن سے فرائیڈے اسپیشل کے لئے انٹرویو
مرزا عبد الرحمن ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں، سیاست میں بھی حصہ لیتے رہے، پیپلزپارٹی کے ساتھ ان کا بہت تعلق رہا، پارٹی ٹکٹ پر اٹک سے انتخابات میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی میں غیر فعال ہوگئے اور اپنے کاروبار کی جانب توجہ دینا شروع کی۔ پاکستان فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے انتخابات میں بھر پور حصہ لیتے ہیں، فیڈریشن کے نائب صدر رہے ہیں۔ ان دنوں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے کو آرڈی نیٹر ہیں۔ ان کے ساتھ فرائیڈے اسپیشل کے لیے جو گفتگو ہوئی اسے من و عن قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ ایک کاروباری شخصیت ہیں، ملک میں ان دنوں مہنگائی کی شدید لہر ہے کہ عام صارف پریشان ہے، کہا جاتا ہے کہ مہنگائی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے
مرزا عبدالرحمٰن: حکومت نے بھی یہ بات محسوس کی کہ مہنگائی کی لہر سے عوام میں تشویش پائی جاتی ہے، انہیں اس کا احساس ہے لہٰذا مہنگائی کم کریں وزیر اعظم نے کہا ہے ان کا اگلا ہدف مہنگائی پر قابو پانا ہے۔یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ پاکستان میں طلب کے مقابلے میں رسد کی بھی کمی ہے، حکومت اس میں توازن قائم کرنے کے لیے آئندہ منی بجٹ میں چند اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور اضافی کسٹمز ڈیوٹی کم کرنے اور درآمدات کھولنے پر غور کر رہی ہے اسٹیٹ بینک نے اپنی مانیٹری پالیسی میں سود کی شرح 13.25فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، مہنگائی میں کمی کی امید میں اسٹیٹ بینک ایک عرصے سے شرح سود اس بلند سطح پر قائم رکھے ہوئے ہے لیکن امید بر نہیں آ رہی۔ معاشی ترقی کی رفتار بھی5.8فیصد سے کم ہوگئی ہے ایف بی آر رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں مقررہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
فرائیڈے اسپیشل: کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت خسارہ کم کرنے کے لیے بجلی، پانی، گیس سمیت تمام یوٹیلیٹی کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں؟
مرزا عبدالرحمٰن: اس کا جواب تو مشیر خزانہ سے لینا چاہیے بہر حال میرا خیال ہے کہ ملک میںنئے کاروباری مواقع میسر نہیں ہیں بلکہ جو پرانے کاروبار چل رہے تھے، وہ بھی بند ہونے کے درپے ہیں، جس کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور عام آدمی کی قوتِ خرید متاثر ہو رہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: سینیٹ ممبران، سرکاری ملازمین کی خواہش ہے کہ ان کی تنخواہ اور مراعات میں سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ کیا جائے کیونکہ مہنگائی ان پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے؟
مرزا عبدالرحمٰن: وزیراعظم کو عوام کی مشکل کا اندازہ ہے اسی لیے یہ تجوزی رد ہوئی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف باتوں سے مسائل حل نہیں ہوتے دلاسوں اور تسلی کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا ہونا چاہیے کہ ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھ جائیں؟
مرزا عبدالرحمٰن:نئے کاروبار شروع کرنے کے لیے آسان شرائط پر سرمایہ فراہم کیا جائے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں بہت سے معاملات میں صرف احساس ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس کا مداوا بھی مقصود ہوتا ہے، ناسور بننے سے پہلے ہی زخم کا علاج کر لینا بہتر ہوتا ہے دنیا بھر میں کہیں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی ملک نے اپنی معیشت کو مقامی بنیادیں فراہم کیے بغیر آسودگی و خوشحالی کا منہ دیکھا ہو۔ ہم نے یہی نکتہ فراموش کیے رکھا اور اس کے بجائے قرضوں اور امدادوں پر زیادہ انحصار نے نہ صرف ہمیں مقروض کیا بلکہ ہماری معیشت کو بھی مستحکم نہ ہونے دیا وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ خواتین کو ایک گائے، ایک بھینس اور تین بکریاں دے رہے ہیں تاکہ وہ اپنا گھر چلا سکیں۔ تعلیم، صحت، انصاف اور تھانوں کے نظام کی بہتری کی یقین دہانی بھی بلاشبہ جس معاشرے میں ان امور کو یقینی بنا لیا جائے اسے ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ صحت، تعلیم اور انصاف انسان کے بنیادی حقوق ہیں، جن کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ کس طرح وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے حالیہ بیانات پر یقین کریں، حقیقت یہ ہے کہ ان کے اور ان کی کابینہ کے اراکین کے تمام بیانات جن میں عوام کو ریلیف دینے کے وعدے کیے گئے تھے، ان تمام دعوئوں اور بیانات کی ضد ہیں صورت حال یہ ہے کہ حکومتی سطح پر آج ملک کے ہر شعبے کا سفر پستی کی جانب ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اگر عوام جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں، پریشان ہی ہوتے رہے تو کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں؟
مرزا عبدالرحمٰن:اگر یہی صورت برقرار رہی تو اس کے نتائج وہ نکلیں گے جو پاکستان کی تاریخ میں اب تک کسی عوامی احتجاج کے نہیں نکلے ہیں ۔ عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے، صرف چھلکنے کی دیر ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت کیوںتوجہ نہیں دے پارہی مسائل ہیں کیا؟ شناختی کی شرط کیا ہے؟
مرزا عبدالرحمٰن: گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کی وجہ سے ملک میں انڈسٹری کا پہیہ چلنا بند ہو رہا ہے، مسائل کے حل کے لیے مصمم ارداہ اور عزم چاہیے فاٹا میں گھی اور اسٹیل کی انڈسٹری بری طرح متاثر ہوئی ہے شناختی کارڈ کی شرط کی پابندی کے لیے ایف بی آر خود آگے بڑھے ہم چاہتے ہیں کہ صنعت کاروں سے یہ کام نہ لیا جائے معیشت کو دستاویزی بنانے کے ہامی ہیں، شرح سود اور جی ایس ٹی کم ہونا چاہیے حکومت کو اس بار بہت ہی مفید بجٹ تجاویز دیں گے اس پر فیڈریشن میں تیزی سے کام ہو رہا ہے دو کمیٹیاں بن چکی ہیں وزیر اعظم عمارن خان کو مسائل سے آگاہ کیا ہے فاٹا اور پاٹا میں روزگار کے موقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار دے کر معاشرے کے لیے مفید بنایا جائے یہاں کان کنی اور معدینات کی صنعت کے فروغ کے لیے حکومت منصوبہ بنائے تو بہت فائدہ ہوسکتا ہے پاکستان میں امن کی ضمانت افغانستان کے امن سے منسلک ہے امن قائم ہونا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے دونوں ملکوں کا مفاد امن سے جڑا ہوا ہے ۔