پانچواں درویش

پروفیسر آزاد بن حیدر سے نیازمندی کا سلسلہ برسوں سے ہے۔ کھلتی رنگت، مناسب قد، کشادہ پیشانی پہ جناح کیپ خوب سجتی ہے۔ زندگی کی 87 بہاریں گزارنے کے بعد بھی لہجے میں وہی گھن گرج ہے جو جوانی میں رہی تھی۔ قلم اور قرطاس سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ آپ کے بستر پر ایک جانب کتابوں کی قطار ہوتی ہے، دوسری جانب کاغذ اور قلم۔ روزانہ چالیس پچاس صفحات لکھنا، پھر اس کی برقی کتابت کراکر ان کا پروف پڑھنا معمول ہے۔ اسلامی اقدار اور نظریۂ پاکستان کی ترویج و اشاعت میں مصروفِ عمل آزاد صاحب ان دنوں صاحبِ فراش ہیں (قارئین صحت یابی کی دعا فرمائیں)۔
آزاد بن حیدر تحریکِ پاکستان کے اُن چند گنے چنے افراد میں شامل ہیں جو ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ، علامہ اقبال یہودیت و جمہوریت، تذکرہ مولانا حامد بدایونیؒ، قائداعظم چیلنج سیکولرازم، و دیگر کتب کے علاوہ متعدد کتابچے اکابرینِ تحریکِ پاکستان کی خدمات کے حوالے سے پاکستان کا تاریخی سرمایہ ہیں۔ ’’بقلم خود‘‘ آپ کی سوانح حیات ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کا ایک باب بھی ہے۔ معروف محقق ڈاکٹر صفدر محمود نے فلیپ پر لکھا: ’’میں اپنے بزرگ اور مہربان دوست محترم پروفیسر آزاد بن حیدر کی ضخیم کتابیں دیکھ کر اکثر سوچا کرتا تھا کہ وہ اس عمر میں اتنا بڑا کام کیسے کررہے ہیں؟ کتاب کا پہلا صفحہ پڑھا تو یہ راز سمجھ میں آگیا۔ جس شخص نے بچپن ہی سے بامقصد زندگی کو اپنے ایمان کا حصہ بنایا ہو اور وقت کے زیاں سے اجتناب کیا ہو، صرف وہ شخص ہی اتنے اہم اور بڑے کام کرسکتا ہے‘‘۔ ’’بقلم خود‘‘ اتنی دلچسپ اور سحر انگیز ہے کہ جب آپ پڑھنا شروع کریں گے تو خواجہ رضی حیدر کی طرح پڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ بقول تابش الوری ’’بقلم خود‘‘ صرف ایک شخص کی کہانی نہیں بلکہ اس خطے کی تاریخ، تہذیب، سیاست، مذہب، حالات، مشاہدات اور تجربات کی کہانی بھی ہے۔ جو سنتا ہے اُس کی داستاں معلوم ہوتی ہے‘‘۔
’’بقلم خود‘‘ ایک روزنامچہ ہے جس میں ہم اپنے عہد کے تلخ و شیریں حالات بخوبی پڑھ سکتے ہیں۔ بڑے سائز پر 672 صفحات پر محیط یہ حکایتِ دل کراچی سے اقرا ٹیچرز سینٹر ناظم آباد سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب میں راقم الحروف عبدالصمد تاجی سمیت درجنوں افراد کا ذکر ہے۔ عمدہ کاغذ، اچھی طباعت، حاشیہ پر تحریک پاکستان کے رہنمائوں کی تصاویر سے مزین ہر ورق اہمیت کا حامل ہے۔ کتاب ہذا میں سینکڑوں واقعات کا ذکر ہے جن کی تفصیل انہیں پڑھ کر ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ پروفیسر خیال آفاقی کی نظرثانی نے اس کے ادبی حسن میں چار چاند لگادیئے ہیں۔ ایک محبی کے اصرار پر راقم نے اس کی تاثراتی تحریر ’’پانچواں درویش‘‘ کے عنوان سے رقم کی ہے۔ آزاد صاحب تلخیص پڑھ کر بہت خوش ہوئے اور کہاکہ ’’یہ میرے لیے بڑا اعزاز ہے، لیکن تاجی صاحب! اسے کتاب کی اشاعت کے بعد شائع کیجیے، کیونکہ جو آپ کی تلخیص پڑھے گا وہ کتاب کو ضرور ڈھونڈے گا، اس لیے کتاب کا پہلے موجود ہونا ضروری ہے‘‘۔
پانچواں درویش’’چاروں درویش جب اپنی بپتا سنا چکے تو پانچویں درویش نے کھنکار کے گلا صاف کیا اور یوں گویا ہوا: ’’کالی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، مینہ بدستور برس رہا ہے، بجلیاں چمک رہی ہیں، آندھیاں زوروں پہ ہیں‘‘۔ درویشوں کے دل بادلوں کی شدید کڑک سے پہلے ہی دہل رہے تھے، وہ یہ سن کر اور سہم گئے۔ پانچویں درویش نے بات جاری رکھی اور بتایا کہ ’’پانی بڑھتا جارہا ہے اور کسی بھی وقت غار میں داخل ہوسکتا ہے‘‘۔ ’’اب ہم کیا کریں؟‘‘ پہلے درویش کی سہمی ہوئی آواز ابھری۔ ’’ہم اس جگہ کو روشن کریں گے‘‘ پانچویں درویش نے اطمینان سے جواب دیا ’’اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ دوسرے درویش نے پوچھا۔ ’’ہمیں مل کر غار میں سے کچھ پتھر تلاش کرنا ہوں گے جن سے ہم آگ جلائیں گے، میرے پاس مشعل ہے‘‘ پانچویں درویش کی آواز میں اعتماد تھا۔ ’’ہمیں اپنا کام شروع کردینا چاہیے‘‘ دوسرا درویش بولا۔ ’’ہاں ہم سب تیار ہیں‘‘ چاروں نے مل کر کہا۔ ’’ہمتِ مرداں مددِ خدا‘‘ اور کچھ دیر بعد غار روشن تھی۔
مشعل کی زرد روشنی میں چاروں درویشوں نے پانچویں درویش کو دیکھا۔ اس کا چہرہ ملگجی روشنی میں بڑا پُرعزم لگ رہا تھا۔ اس نے اپنی پوٹلی میں سے کچھ چنے نکالے اور چاروں میں تقسیم کردیئے۔ ’’میں نے اپنا پیالہ غار کے دہانے پر رکھ دیا تھا، وہ اب بھر گیا ہوگا‘‘۔ وہ پیالہ اٹھا لایا اور پہلے درویش کو تھما دیا، درویش نے دو گھونٹ لے کر پیالہ آگے بڑھا دیا۔ اپنی باری پر پانچویں درویش نے پانی کے بچے ہوئے دو گھونٹ لیے اور اپنا قصہ جاری رکھا:
’’کیا تم پانی میں مخالف سمت تیر سکتے ہو؟ سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھا سکتے ہو؟ کیا تمہیں آٹا گوندھنا آتا ہے؟ تم نے اپنی کتابیں ذاتی کمائی سے خریدی ہیں؟ مدرس کو وقت پر محنتانہ ادا کیا ہے؟ اپنا سبق ایسے یاد کیا ہے جو اب بھی یاد ہو؟‘‘ چاروں درویش ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے۔ پہلے درویش نے کہا ’’یہ غیر معمولی شخص ہے‘‘۔ ’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو‘‘ دوسرے درویش نے ہاں میں ہاں ملائی۔ تیسرے درویش نے سرگوشی کے انداز میں کہا ’’یہ کسی خاص مشن پر ہے‘‘۔ چوتھا درویش بڑبڑایا ’’میں اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہوں، اس کی پوٹلی میں کچھ پُراسرار خطوط ہیں، شاہی فرمان ہیں، مقدمات کی مسلیں ہیں، مجھے یہ کوئی قابل وکیل لگتا ہے۔ اس کی نظر بھی بہت تیز ہے اور وہ اندھیرے میں بھی دیکھ لیتا ہے‘‘۔ ’’آہستہ بولو، کہیں وہ ہماری باتیں نہ سن لے‘‘ پہلے درویش نے ٹوکا۔ ’’ہاں ہمیں آہستہ بولنا چاہیے‘‘، دوسرے درویش نے تائید کی اور کہاکہ ’’ضرور اسے خزانے کا پتا معلوم ہے جو اس نے پوٹلی میں چھپا کر رکھا ہوا ہے‘‘۔ تیسرے درویش نے چوتھے درویش کے کان میں کہا ’’یہ ہر وقت پوٹلی کو اپنے ساتھ رکھتا ہے اور سوتے وقت بھی اسے سر کے نیچے دبا لیتا ہے‘‘۔ چوتھے درویش نے کہا ’’ہمیں پوٹلی کا راز جاننا ہوگا‘‘۔ چاروں درویشوں نے متفق ہوکر سر ہلایا۔ پانچویں درویش نے جو کچھ لکھنے میں مصروف تھا، اطمینان سے کاغذ سمیٹے، پوٹلی میں رکھے اور بولا ’’ہاں میں اندھیروں میں دیکھ سکتا ہوں، خاموشی کی زبان بھی سمجھتا ہوں، تم سب پوٹلی کا راز جاننا چاہتے ہو؟ میں تمہیں خزانے تک لے جائوں گا۔ کیا تم اس غار سے نکل کر کھلی فضا میں سانس لینا چاہتے ہو تو آئو! میرے ساتھ چلو، بادلوں کی کڑک، بجلی کی چمک اور موسلادھار بارش میرا راستہ نہیں روک سکتی، میں ہوا میں مخالف سمت چلنے کا ہنر جانتا ہوں‘‘۔ اس کا فولادی عزم اس کے چہرے سے عیاں تھا۔ پہلے درویش نے اس کی انگلی پکڑتے ہوئے کہا ’’مجھے اپنے ساتھ لے چلو‘‘۔
’’شاباش! شاباش تم نے ہمت کی، تم میرے ساتھ چلو‘‘۔ ’’رکو رکو میں بھی ساتھ چلوں گا‘‘ دوسرے درویش نے کہا۔ تیسرا اور پھر چوتھا درویش بھی ساتھ ہولیا۔
چاروں درویش اس کی قیادت میں آگے بڑھنے لگے۔ ’’تم نے پوٹلی کے راز کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں بتایا؟‘‘ پہلے درویش نے سوال کیا۔ ’’کیا تم سب جاننا چاہتے ہو؟‘‘ اس نے درویشوں سے پوچھا۔ ’’ہاں سب یہ جاننا چاہتے ہیں‘‘۔ ’’تو سنو! میں بھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں اور اسی مقصد کے لیے یہاں آیا ہوں‘‘ چاروں درویشوں نے اسے حیرت سے دیکھا، ان کا تجسس بڑھتا جارہا تھا۔ پانچواں درویش ایک لمحے کو رکا، چاروں پر ایک نظر ڈالی اور غار میں اس کی آواز گونجنے لگی ’’اس پوٹلی میں آگ ہے، خون ہے، بھوک ہے، افلاس ہے، آنسو ہیں، دکھ ہیں، اپنوں سے بچھڑنے کے غم ہیں، کچھ خواب ہیں جن میں عزم ہے، حوصلہ ہے، ہمت ہے، روشنی ہے، ماضی ہے، حال ہے، مستقبل ہے اور نئے طلوع ہونے والے سورج کا منظر بھی، ٹھنڈک بھی اور چودھویں کے چاند کی چاندنی بھی۔ یہ پوٹلی تمہاری امانت ہے، جو وقت نے میرے سپرد کی‘‘۔ پانچویں درویش نے پوٹلی زمین پر رکھی اور چل دیا۔ (’’بقلم خود‘‘ کہہ رہی ہے) اے کاش میں اس شعلہ ساز سے راہِ وفا سنوار سکوں۔ (شاہ لطیفؒ)۔