استاد، محقق، ادیب اور شاعر ڈاکٹر عبدالخالق راز مرحوم

علم و ادب کے چراغ روشن کرنے والے بے بدل اہلِ علم حضرات بتدریج رخصت ہوتے جارہے ہیں، لیکن افسوس کہ ان کا خلا پُر ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔
شکارپور کو ماضی میں اس کی خوبصورتی، رعنائی اور تعلیمی، طبی اور تفریحی، تجارتی مراکز کی وجہ سے ’’سندھ کا پیرس‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ امتدادِ زمانہ اور منتخب عوامی نمائندوں کی نااہلی کی وجہ سے اب یہ شہر بھی اجڑ چکا ہے جسے دیکھ کر محض افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس شہر میں بہت ساری ایسی علمی اور ادبی شخصیات نے جنم لیا ہے جنہوں نے اپنے اعلیٰ اور معیاری کام کی بدولت نیک نامی، شہرت اور ناموری حاصل کی ہے۔ انہی معروف ہستیوں میں سے ایک نام ڈاکٹر عبدالخالق رازؔ سومرو مرحوم کا بھی ہے جنہوں نے علم و ادب کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دے کر بے حد داد اور شہرت حاصل کی ہے۔ مرحوم نے ذرّے سے آفتاب بننے تک کا سارا سفر صرف اور صرف اپنی محنت، لگن اور قابلیت کی بنا پر طے کیا ہے۔ میں بے حد شکر گزار ہوں رازؔ مرحوم کے بھتیجے اور شاگردِ رشید اور نامور اسکالر پروفیسر ڈاکٹر محمد شریف شادؔ سومرو کا جنہوں نے مجھے اپنے نامی گرامی عم مرحوم کے متعلق ذیل کی معلومات مہیا کی ہیں۔ واضح رہے کہ پروفیسر محمد شریف شادؔ سومرو اس وقت گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج جیکب آباد میں شعبہ زبان و ادب سندھی کے استاد اور ہیڈ آف دی سندھی ڈپارٹمنٹ ہیں، اور ان کی شخصیت اور فن و ادب سے متعلق راقم قبل ازیں ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے شمارہ 22 فروری 2019ء میں ایک تفصیلی تحریر لکھ چکا ہے۔ اب بارے کچھ بیان پروفیسر ڈاکٹر عبدالخالق رازؔ سومرو مرحوم کا، جنہوں نے علم و ادب میں ایسی لازوال خدمات سرانجام دی ہیں، جن کی وجہ سے علمی اور ادبی حلقوں میں تاحال اُن کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔ عبدالخالق متخلص ’’رازؔ‘‘ ولد محمد حسن مسکینؔ سومرو نے اپنے آبائی گوٹھ حاجی خان کلہوڑو تعلقہ خانپور ضلع کشمور میں یکم جولائی 1934ء کو جنم لیا۔ والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے ان کی پرورش بڑے لاڈ پیار کے ساتھ کی گئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں میں ہی اپنے والد سے حاصل کی۔ ورنیکیولر فائنل کا امتحان 1949ء میں پاس کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تقسیم ہندوستان کی وجہ سے بیشتر ہندو اساتذہ حالات کے پیش نظر ہندوستان نقل مکانی کرچکے تھے۔ تب محکمہ تعلیم سندھ نے اساتذہ کی سخت ضرورت اور کمی کو محسوس کرتے ہوئے لازمی تعلیم بہ الفاظِ دیگر ’’جبری تعلیم و تعلّم‘‘ کا سسٹم شروع کیا، اور اس وجہ سے رازؔ مرحوم کو بھی گھر بیٹھے ہی محکمہ تعلیم سندھ میں بطور استاد خدمات سر انجام دینے کے لیے پروانۂ تقرری مل گیا۔ وہ 18 اگست 1949ء کو گورنمنٹ پرائمری اسکول خانپور شہر میں نائب ماسٹر مقرر ہوئے۔ اپریل 1953ء میں انہیں ٹیچرز ٹریننگ کالج سکھر، لاڑکانہ میں ایس وی (S.V)ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ ایک سال سکھر اور دوسرے برس لاڑکانہ میں پڑھے۔ 1955ء میں مذکورہ امتحان پاس کیا۔ 1958ء میں میٹرک کرنے کے بعد 1960ء میں انٹر آرٹس، 1962ء میں ایم اے (سندھی) اور 1969ء میں بی ایڈ کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے۔ 24 اکتوبر 1969ء کو انہیں سیکنڈری کیڈر میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز کا تقرر نامہ ملا اور انہیں قنبر سائوتھ (لاڑکانہ) میں تعینات کیا گیا۔1971ء میں روہڑی تعلقہ ویسٹ کے A.D.I.S مقرر ہوئے اور اسی برس انہوں نے سندھ یونیورسٹی جام شورو میں پی ایچ ڈی کی سند کے حصول کے لیے اپنی رجسٹریشن بھی کروائی۔ ان کے گائیڈ کے طور پر نامور علمی اور ادبی شخصیت علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی کا تقرر ہوا، جب کہ پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا ’’میر علی نواز علوی شکارپوری اور ان کا کلام‘‘۔
1973ء میں انہیں گورنمنٹ ہائی اسکول خانپور میں بطور ہائی اسکول ٹیچر تعینات کیا گیا۔ 1978ء میں پی ایچ ڈی کا تفویض کردہ کام کامیابی سے سرانجام دینے کے باعث انہیں یہ ڈگری ایوارڈ کی گئی۔ یہ ڈگری (اصل سند) بعد ازاں جنوری 1998ء میں انہیں سابق گورنر سندھ معین الدین حیدر کے ہاتھوں سندھ یونیورسٹی میں منعقدہ ایک تقریب میں عطا کی گئی۔ علاوہ ازیں رازؔ مرحوم نے ادیب، عالم، فاضل سندھی کے امتحانات بھی پاس کیے۔ عربی اور فارسی کی تعلیم انہوں نے استاد العلماء حضرت مولانا الٰہی بخش اور استاد العلماء حضرت مولانا عبدالحکیم سومرو سے حاصل کی۔
1956ء تا 1976ء مقررہ درسِ نظامی کا نصاب بھی کامیابی سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ گویا موصوف دینی اور دنیاوی ہر دو لحاظ سے فارغ التحصیل تھے اور علم و ادب میں بلاشبہ اس وجہ سے اپنی مثال آپ تھے۔ 31 جولائی 1992ء تک خانپور ہائی اسکول کے انچارج ہیڈ ماسٹر رہے۔ بعد ازاں یکم اگست 1992ء سے ہائی اسکول رستم تعلقہ لکھی شکارپور کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے، جہاں لگ بھگ ڈیڑھ سال خدمات سرانجام دینے کے بعد ہائی اسکول پیر بخش شجراہ تعلقہ خانپور کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے، اور اسی برس ان کا 18 ویں گریڈ میں پروموشن بھی ہوا۔ آپ مذکورہ اسکول سے ہی 30 جون 1994ء کو ساٹھ برس پورے ہونے پر ریٹائر ہوگئے۔ اس طرح سے انہوں نے تقریباً 45 برس تک محکمہ تعلیم میں ملازمت کی۔ 1995ء میں پنشن منظور ہوئی۔ 1996ء میں اپنی دونوں بیگمات کے ساتھ فریضۂ حج کی سعادت حاصل کی۔
انہوں نے ساری حیاتِ مستعار بڑی نیک نیتی اور قومی و ملکی خدمت کے جذبے کے تحت اپنی خدمات سرانجام دیں۔ ان کے بے شمار شاگرد ملک اور بیرونِ ملک مختلف شعبہ ہائے حیات میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں جن میں بہت سارے اپنے اپنے فن اور پیشے میں ناموری کے حامل ہیں۔ ان کے معتدبہ شاگرد اور ان کے بھی شاگرد آج تعلیمی اداروں میں بھی پڑھا رہے ہیں، لہٰذا انہیں بجا طور پر ’’استاذ الاستاذہ‘‘ کے لقب سے بھی معنون کیا جا سکتا ہے۔ ان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اور ان کی زندگی ہی میں ان کی دونوں بیگمات انتقال کرگئی تھیں، جس کے بعد انہوں نے اپنا آبائی گائوں چھوڑ کر شکارپور میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
علمی اور ادبی خدمات: ڈاکٹر عبدالخالق رازؔ سومرو مرحوم نے اپنی ساری زندگی علم و ادب کے فروغ اور درس و تدریس میں بسر کردی تھی۔ وہ تادم حیات مختلف موضوعات پر تحاریر قلم بند کرتے رہے۔ رازؔ کا نام اس وجہ سے ادبی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج ہرگز نہیں ہے۔ انہوں نے نہ صرف سندھی اور اردو بلکہ عربی، فارسی، انگریزی، ہندی اور سرائیکی میں بھی نظم و نثر میں اپنی تخلیقات پیش کی ہیں۔ ادبی دنیا میں انہوں نے 1952ء میں قدم رکھا۔ اوائل میں انہوں نے اپنا تخلص عاصیؔ اور بعد میں رازؔ رکھا۔ نثر و نظم میں ان کے اوّلین استاد والدِ گرامی تھے، کیوں کہ ان کے والد بھی اپنے وقت کے ایک معروف شاعر اور نثّار تھے اور مسکینؔ تخلص کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی شہرت ایک اچھے نقاد اور دانشور و فقیہ کی بھی تھی۔ رازؔ مرحوم نے ادب، ثقافت، تاریخ اور مذہب کے موضوعات پر بے شمار تحاریر قلم بند کی ہیں۔ لیکن 1978ء کے بعد انہوں نے زیادہ تر مقالہ جات تحقیق اور تنقید کے حوالے سے لکھے۔ ان کی تحریر بے حد خوبصورت ہوا کرتی تھی اور وہ بے حد خوش خط تھے۔ ان کی زیادہ تر تحاریر سندھی زبان کے موقر ماہانہ رسائل اور جرائد اور اخبارات میں بڑے تواتر کے ساتھ شائع ہوا کرتی تھیں اور بلاشبہ وہ ایک زودنویس تھے۔ تاہم انہوں نے اپنے مقالوں اور مضامین کا علمی اور ادبی معیار ہمیشہ برقرار رکھا۔ رازؔ مرحوم صاحبِ دیوان شاعر تھے اور ان کی شاعری ’’دیوانِ راز‘‘ کے عنوان سے غیر مطبوعہ شکل میں موجود ہے۔ نیز ’’ابیاتِ راز‘‘، ’’رباعیاتِ راز‘‘، ’’ارمغانِ راز‘‘ کے دو دو حصے ہیں، ایک حصے میں انہوں نے عاصیؔ اور دوسرے حصے میں اپنا تخلص رازؔ استعمال کیا ہے۔ ’’کلیاتِ علوی‘‘ میر علی نواز علوی کا شعری مجموعہ بھی انہی کا مرتب کردہ ہے۔ سوانح حیات قاضی علی اکبر درازی کو مرتب کرکے انہوں نے اس کا طویل مقدمہ بھی قلم بند کیا۔ دیگر شائع ہونے والی کتب میں ’’شکار پور صدین کان‘‘ بھی شامل ہے۔ ’’تاریخ بکھر‘‘ بھی غیر مطبوعہ صورت میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں ان کی غیر مطبوعہ کتب میں ’’سندھ جا گورنر‘‘، ’’وحدت جاوٹجار‘‘، ’’سندھ جا دیسی ھنر‘‘، ’’تصوف جی حقیقت‘‘، ’’تصوف جی علمی تحریک‘‘، ’’تاریخ خانپور‘‘، ’’گوٹھ حاجی خان کلہوڑو جی تاریخ‘‘ اور ’’تاریخ شکاپور‘‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بہت سارے ڈرامے اور کئی ناول بھی اردو اور سندھی زبان میں لکھے ہیں جو تاحال منصۂ شہود پر آنے کے منتظر ہیں۔ بہت ساری کہانیاں اور افسانے بھی بزبانِ سندھی اور اردو تحریر کیے جو رسائل و جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ ان کا بہت سارا منتشر کلام مختلف اصنافِ سخن از قسم کافی، غزل، گیت، نظم، نثری نظم وغیرہ سندھی زبان کے رسائل و جرائد میں شائع ہوچکا ہے۔ ان کے ہونہار شاگردِ رشید پروفیسر محمد شریف سومرو نے نہ صرف ان کے مضامین کو ’’تاریخ شکار پور‘‘ کے زیرعنوان مرتب کرکے شائع کیا بلکہ ان کی طویل نظموں کو ترتیب دے کر ’’وسی شال سندھو جو کنارو‘‘ کے عنوان سے بھی چھپوایا، اور اس کا مقدمہ بھی خود ہی تحریر کیا، اور انہی کی سعی سے رازؔ مرحوم کی کتاب ’’بکھر جی تاریخی عظمت‘‘ منصۂ شہود پر آسکی، جو بلاشبہ لائقِ تعریف کام ہے۔
تعلیمی خدمات: عبدالخالق رازؔ مرحوم نے اپنی ساری زندگی لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے میں گزار دی۔ موصوف بنیادی طور پر ایک استاد تھے جنہیں پرائمری تا اعلیٰ درجے کی کلاسز کو پڑھانے کا وسیع تجربہ تھا۔ان کے بے شمار شاگرد مختلف شعبہ ہائے حیات میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ادبی حوالے سے بھی وہ اپنے شاگردوں کا ایک وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ علمی فیض دینے میں وہ دل کشادہ رکھتے تھے۔ ان کی مختلف ادبی تنظیموں کے ساتھ وابستگی رہی۔ وہ شکارپور میں سندھی لیکھکھ یادگار کمیٹی اور ڈسٹرکٹ ہسٹاریکل سوسائٹی کے بنیادی ممبر تھے۔ ان کی تین بہنوں میں سے دو حافظِ قرآن تھیں۔ رازؔ مرحوم طبعاً بے حد بااخلاق، مہمان نواز اور خوش مزاج تھے۔ مستحق اور غریب افراد کی دل کھول کر مددکیا کرتے تھے۔ انہوں نے بہت سارے نادار طلبہ وطالبات کو اپنے خرچ پر حصولِ تعلیم میں مدد دی۔ اگرچہ مرحوم بے اولاد تھے لیکن ان کے ہزار ہا شاگرد آج بھی انہیں بڑی عزت اور احترام سے یاد کرتے ہیں۔ ان کا انتقال 25 جولائی2011ء کو ہوا۔ رہے نام اللہ کا۔ بلاشبہ ایسے اہلِ علم کا متبادل ملنا ناممکن ہے۔

حج فارم میں ختم نبوت کا حلف نامہ پہلے صفحے پر لایا جائے، سراج الحق

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے حج فارم میں کوائف کے ساتھ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ختم نبوت کے کوائف کی جگہ سے خانے کو ختم کرنے کے حوالے سے خود وزیر مذہبی امور نے سینیٹ کمیٹی میں کہاہے کہ اس بارے میں مجھے بے خبر رکھا گیا ،تو کیا بے خبر وزیر اس جرم میں خود بھی شریک نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ جس نے بھی یہ شرارت کی ہے ، حکومت نے اس کے خلاف کیا ایکشن لیا ۔ پہلے بھی نادیدہ ہاتھ اس طرح کی سازش میں ملوث پائے گئے ہیں مگر حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ حج فارم سے ختم نبوت کا خانہ مقررہ جگہ سے نکالنے سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ حکومتی صفوں میں ختم نبوت کے منکر بھیڑ یے موجود ہیں اور حکومت جانتے بوجھتے ان کے خلاف کوئی ایکشن لینے کو تیار نہیں ۔ انہوںنے کہاکہ اس خبر سے پورے ملک میںغم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے کو کوائف کے ساتھ پہلے صفحے پر شامل کرنا چاہیے، سازش کے مرتکب عناصر کو بے نقاب کر کے ان کو سخت سزادی جائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسے گھناؤنے جرم کی جرات نہ ہو۔