تذکرہ علمائے ہندوستان

ڈاکٹرحافظ محمد سہیل شفیق
مولانا سید محمد حسین (1862ء۔1918ء) اپنے عہد کے باصلاحیت عالم ِصدین، علمِ نجوم و فلکیات کے ماہر، تاریخ گو اور اردو و فارسی زبانوں میں درجنوں کتابوں کے مصنف تھے۔ ’’نغمۂ روح‘‘ کے عنوان سے آپ کے شعری دیوان کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مولانا نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ مولانا کی ایک نادر و نایاب تصنیف ’’مظہر العلماء فی تراجم العلماء والکملاء‘‘ ہے۔ مظہرالعلماء میں متحدہ ہندوستان کی 1040شخصیات کا ذکر اور ان کے اجمالی یا تفصیلی احوال شامل ہیں، جن کے ذریعے اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں صدی کا سماجی، علمی اور ادبی منظرنامہ ہمارے سامنے آتا ہے۔
’’تذکرہ مظہرالعلماء‘‘ بعنوان: ’’تذکرہ علمائے ہندوستان‘‘ ہمارے پیش نظر ہے۔ اس کی تحقیق، تدوین اور تحشیہ کا فریضہ ڈاکٹر خوشتر نورانی نے سرانجام دیا ہے، جس پر شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی نے انھیں پی ایچ ڈی کی سند عطا کی ہے۔
’’تذکرۃ مظہر العلماء‘‘ عرصہ دراز سے مخطوطات ہی کی صورت میں تھا، اس لیے اہلِ علم کی دسترس سے باہر رہا۔ ڈاکٹر خوشتر نورانی نے اس کے معلومہ قلمی نسخے جمع کرکے جدید اصولِ تحقیق کے مطابق اور تمام دستیاب وسائل کی روشنی میں ہر روایت کا ناقدانہ جائزہ لے کر اسے مرتب کیا ہے جس کے باعث مخطوطے کی ضخامت کے برابر تعلیقات کا اضافہ بھی ہوگیا ہے۔ یہ تعلیقات بجائے خود بہت قیمتی اور فاضل محقق کی دو سال کی محنت ِشاقہ و عرق ریزی کا ثمرہ ہیں۔
ڈاکٹر خوشتر نورانی کا یہ تحقیقی مقالہ چھے ابواب پر محیط ہے: پہلے باب میں صاحبِ تذکرہ مولانا سید محمد حسین بدایونی کا پہلی بار کسی کتاب میں تفصیلی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں تذکرہ کے قلمی مخطوطے کا تفصیلی تعارف قلمبند کیا گیا ہے۔ یہ مفصل تعارف، متن مخطوطہ کا پس منظر، تعارف، ترتیب و مشمولات، مخطوطے کے مختلف قلمی نسخے، خصوصیات اور استنادی حیثیت جیسے عناوین پر مشتمل ہے۔ ان عناوین کے تحت اس 125 برس قدیم تذکرے کی مختلف جہتوں کو اہلِ علم کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تیسرا باب ’’متن مخطوطہ‘‘ ہے جس میں 677 شخصیات کے تذکروں پر مشتمل مصنف کے متن کو دیا گیا ہے۔ یہ باب اس تحقیقی کارنامے کا بنیادی حصہ ہے۔ اس باب کی تدوین و تصحیح کے جاں گسل مراحل کو فاضل محقق نے بڑی کامیابی سے طے کیا ہے۔ چوتھے باب میں ’’تکملہ‘‘ کے عنوان سے 363 علما وادبا کے نام اور ان کی جائے سکونت کا اندراج ہے۔ مصنف کو جن شخصیات کا تعارف دستیاب نہیں ہوسکا، بطور تکملہ ان شخصیات کے مقام سکونت کے ساتھ ایک اجمالی فہرست دی تھی، جب کہ بعض ناموں کے ساتھ ان کے چند سطری کوائف بھی لکھے تھے۔ فاضل محقق نے ان میں سے بعض مشاہیر کے ضمن میں ان کے اجمالی احوال کا اضافہ بصورتِ حواشی کیا ہے۔
پانچویں باب میں متن مخطوطہ پر طویل حواشی اور تعلیقات ہیں جنھیں تحریر کرنے میں اردو، عربی، فارسی کی تقریباً 300 مطبوعہ کتابوں، تذکروں اور مخطوطات سے فاضل محقق نے استفادہ کیا ہے جن کی فہرست کتابیات کے تحت ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ چھٹا باب وضاحتی اشاریے (Index) پر مشتمل ہے، اس باب میں متن مخطوطہ، تکملہ اور حواشی و تعلیقات میں جتنی بھی شخصیات، اماکن اور کتابیں مذکور ہوئی ہیں، ان کا اشاریہ مرتب کیا گیا ہے۔
آخر میں ’’کتابیات‘‘ کے عنوان سے متن مخطوطہ، تکملہ اور حواشی و تعلیقات کے حوالوں کی مکمل تفصیل درج کی گئی ہے، جس کے باعث امید ہے کہ 125 برس پرانا یہ نایاب نسخہ اہلِ علم و تحقیق کے لیے افادی حیثیت سے وقیع تصور کیا جائے گا اور مشاہیر علما و ادبا کی تاریخ ساز خدمات کا یہ علمی مرقع اربابِ علم و دانش کی توجہ کا مرکزبنے گا۔
ممتاز محقق اور ماہر مخطوطات پروفیسر ڈاکٹر عارف نوشاہی کا یہ کہنا کہ : ’’1961ء اور 2018ء کے درمیانی 57 برسوں میں اگرچہ علما کے کئی تذکرے چھپے اور مرتب ہوئے لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جیسا کام ڈاکٹر خوشتر نورانی نے انجام دیا ہے، میں نے دیکھا ہو۔‘‘ بالکل بجا ہے اور اس کتاب کے وقیع، معتبر اور مثالی ہونے کے لیے سند کی حیثیت رکھتا ہے کہ ؎

قدرِ جوہر شاہ داندیا بداند جوہری

بلاشبہ یہ اردو کا ایک ایسا باضابطہ، تفصیلی، عمومی، غیر مطبوعہ تذکرہ ہے، جو متنی اور تدوینی اصول پر مدون ہوکر پہلی بار سامنے آیا ہے اور اپنی مثال آپ ہے۔ اس تذکرے میں ہر مسلک و مشرب کے مشاہیر فاضلین کے احوال درج کیے گئے ہیں، جو تذکرے کی وسعت و جامعیت کی دلیل ہے۔ فاضل محقق و مرتب نے بھی اس کی تدوین و ترتیب اور حواشی و تعلیقات تحریر کرنے میں علمی دیانت داری اور وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا ہے، جس کے لیے فاضل محقق و مرتب اور ناشر ہر دو قابلِ مبارک باد اور لائقِ صد تحسین ہیں کہ ایسے مثالی علمی کام روز روز سامنے نہیں آتے۔