پاکستان کا افغان طالبان کی حمایت کرنا ہر اعتبار سے منطقی اور درست

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

افغانستان جیسے ملک کو اسلحہ سے پاک کردینا کسی کرشمے سے کم نہیں تھا، جس کا کریڈٹ بہرحال طالبان قائد ملاّ عمر کو جاتا ہے۔ افغانستان کئی سال سے شدید خانہ جنگی کا شکار تھا۔ حالت یہ تھی کہ کابل کے مختلف حصوں پر مختلف کمانڈر قابض تھے۔ تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود اور پختون گلبدین حکمت یار کے جنگجو ایک دوسرے پر راکٹ اور گولیاں برساتے رہتے۔ باقی صوبوں میں وار لارڈز قابض تھے۔ افغانستان نے سوویت یونین کی واپسی یعنی 1988ء کے بعد مکمل سکون تب دیکھا جب وہاں 1997ء میں طالبان حکومت مستحکم ہوئی، تب نوّے پچانوے فیصد افغانستان میں مثالی قسم کا امن وامان قائم ہوگیا تھا۔ افغان طالبان کا تیسرا بڑا کارنامہ افغانستان سے پوست کی کاشت صفر کردینا تھا۔ ملاّ عمر نے بیک جنبش زبان افغانستان میں ہر قسم کی منشیات کاشت کرنے پر پابندی لگا دی، اور پھر اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرا دیا۔ خود امریکی ادارے تسلیم کرتے ہیںکہ پوست کی کاشت صفر ہوگئی۔ افغان طالبان کا چوتھا بڑا کام پاکستان کے نقطہ نظر سے بہت اہم ہے۔ افغانستان ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف سازشوں اور پراکسی وار کا مرکز رہا تھا۔ یہ واحد ملک ہے جس نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کے خلاف ووٹ دیا۔ افغانستان کی پاکستان مخالفت بلاوجہ اور غیر منطقی تھی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اُس وقت کے افغان حکمران ظاہر شاہ نے اپنے آرمی چیف کو بلا کر کہا کہ کیا ہم پاکستان پر حملہ کرسکتے ہیں؟ افغانستان کے پاس قابل ذکر فوجی قوت ہی نہیں تھی، اس لیے ایسا نہ ہوسکا۔ ظاہر شاہ کا تختہ الٹنے والے سردار دائود نے بھی یہی پاکستان مخالف پالیسی اپنائی۔ دائود نے ہمارے پختون قوم پرست لیڈر اجمل خٹک کو افغانستان میں پناہ دی، انہیں سپورٹ فراہم کی اور گریٹر پختونستان کا نعرہ لگوایا۔ ایک طرف اجمل خٹک، جبکہ دوسری طرف بھٹو دور میں فوجی آپریشن کے باعث پہاڑوں پر چڑھ جانے والے بلوچ جنگجوئوں کی بھرپور سرپرستی کی گئی۔ مری قبیلے کے سربراہ نواب خیر بخش مری کئی برس تک افغانستان میں افغان حکومت کے مہمان رہے۔ دائود کا تختہ الٹنے والے نور محمد ترہ کئی اور پھر حفیظ اللہ امین کے رویوں میں مزید شدت آئی، ببرک کارمل کے دور میں تو روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوکر قابض ہوگئیں اور افغان تحریکِ مزاحمت یا افغان جہاد شروع ہوگیا، جس میں پاکستان مرکزی کھلاڑی بن گیا۔ ببرک کارمل کے بعد جنرل نجیب آیا، اور پھر اُس کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوگئی، جس کا خاتمہ افغان طالبان نے کیا۔ افغانستان کی پوری تاریخ میں پاکستان کے ساتھ سب سے خوشگوار تعلقات طالبان حکومت نے قائم کیے۔ ان کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں پہلی بار پاکستانی ریاست نے سکون کا سانس لیا۔ ایک اہم نکتہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ افغان طالبان پاکستان کی پراکسی ہرگز نہیں تھے، اپنے اندرونی معاملات میں انہوں نے کبھی پاکستانی مداخلت کو ایک حد سے زیادہ قبول نہیں کیا۔ ملاّ عمر اپنے قریبی ساتھیوں اور علما کی مشاورت سے حکومت چلاتے رہے، اور بہت بار کسی معاملے میں پاکستان کے دبائو کو مسترد کیا۔ اس کے باوجود افغان طالبان حکومت پاکستان کی دوست، مخلص اور خیر خواہ حکومت تھی۔ اس سے پہلے کے پچاس برسوں کا بیشتر حصہ افغان حکومت بھارتی پراکسی بن کر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی۔ اس تاریخی پسِ منظر کو ذہن میں رکھیں تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان نے افغان طالبان حکومت کی کیوں حمایت کی تھی، اور پاکستانی ریاست کے نزدیک افغان طالبان کس لیے اتنے اہم رہے ہیں؟ نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نیٹو دستوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر قابض ہوگئیں، طالبان حکومت ختم ہوگئی، ان کے چندکمانڈر ہلاک ہوگئے جبکہ کچھ کمانڈر اور جنگجو انڈرگرائونڈ، جبکہ باقی عوام میں تحلیل ہوگئے۔ امریکیوں نے حامد کرزئی کی صورت میں ایک پشتون کو مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا، جبکہ عملی طور پر حکومت پر شمالی اتحاد کے تاجک، ازبک، ہزارہ گروہ قابض ہوگئے۔ اگلے چند برسوں میں افغانستان ایک بار پھر بھارتی پراکسی اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا مرکز بن کر سامنے آیا۔ امریکیوں نے اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحت بھارت کو افغانستان میں بہت زیادہ جگہ دی۔ مثال کے طور پر سی آئی اے کے ہوتے ہوئے افغان انٹیلی جنس کے لیے بھارتی ایجنسی ’را‘ کے افسر بطور ٹرینر بلوانے کی کیا تک تھی؟ کیا سی آئی اے افغان انٹیلی جنس کو تربیت نہیں دے سکتی تھی؟ بھارت نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی، ہزاروں افغان طلبہ کو اسکالرشپ دے کر بھارت بلوایا، افغان میڈیا میں بے پناہ انویسٹمنٹ کی اور کئی ٹی وی چینل، ایف ایم ریڈیو بھارتی پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے رہے۔ امریکی حکومت نے اگلا ہدف عراق بنا لیا، مگر یہ بات واضح ہوگئی کہ امریکی افواج افغانستان پر قابض ہوگئی ہیں، ان کا اب نکلنے یا جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ بدقسمتی ہی کہیں گے کہ ازبک، تاجک، ہزارہ گروپوں نے امریکی قبضے کو خوش دلی سے قبول کیا اور ڈالروں کی ریل پیل میں بڑھ چڑھ کر لوٹ مار کرنے لگے۔ کرزئی کے ساتھ تعاون کرنے والے پشتون کمانڈر اور وارلارڈ بھی یہی کررہے تھے۔ افغانوں کی روایتی غیرت، حب الوطنی اور دلیری کا نام تک نہ رہتا اگر امریکی سامراج کے خلاف افغان طالبان گوریلا جنگ شروع نہ کرتے۔ درحقیقت یہ افغان طالبان کی مزاحمت ہی ہے جس نے افغانوں کی عزت بچائی۔ آج اگر امریکی افغانستان سے جانا چاہ رہے ہیں تو اس کی وجہ افغان طالبان اور اُن کی جانب سے دی گئی بے پناہ قربانیاں ہیں۔ ہزاروں طالبان جنگجو اور ملا داد اللہ جیسے بہت سے کمانڈروں نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر وطن کی آزادی کی یہ لڑائی جیتی۔ افغانستان کی صورت حال یہ تھی کہ طالبان کے سوا باقی افغان گروپ امریکی بالادستی قبول کرنے کے لیے دل وجان سے تیار تھے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہر ایک کسی نہ کسی ملک کا آلہ کار یا زیراثر بھی رہا۔ ہزارہ روایتی طور پر ایرانی اثر میں رہے ہیں، تاجک خاص کر پنج شیری تاجک بھارت سے زیادہ قریب ہیں، عبداللہ عبداللہ، امر اللہ صالح وغیرہ ان کے نمائندہ لیڈر ہیں، بدخشانی تاجکوں پر بھی ایران کا اثر ہے، ازبک سینٹرل ایشیائی ریاستوں ازبکستان وغیرہ کے ذریعے روس کے قریب رہے، ازبک کمانڈر جنرل دوستم کے ترکی سے بھی قریبی مراسم ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کا افغان طالبان کی حمایت کرنا ہر اعتبار سے منطقی اور درست ہے۔ افغان طالبان کا ایک تو کاز جینوئن اور اخلاقی طور پر درست تھا، دوسرا اُن کے پاکستان کے ساتھ ماضی میں گہرے تعلقات تھے، تیسرا جب نام نہاد پاکستانی طالبان یعنی ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کررہی تھی ، اُس وقت افغان طالبان پاکستانی ریاست کے خلاف نہیں گئے، الگ تھلگ رہے۔ اس لیے افغان طالبان میں خواہ چند ایک خامیاں ہیں، کچھ مسائل مستقبل میں سر اٹھا سکتے ہیں، مگر پاکستان کے پاس طالبان کی حمایت کے سوا اور کوئی آپشن موجود نہیں۔ پاکستان کی البتہ اِس بار یہ شدید خواہش اور کوشش ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی نہ ہو، افغان طالبان دوسرے گروپوں کے ساتھ مل کر کوئی قابلِ عمل حکومتی فارمولا بنا لیں۔ اس معاملے کے بعض اور پہلو ابھی باقی ہیں، اگر موقع ملا تو ان پر بھی بات ہوگی۔
(محمد عامر خاکوانی۔ روزنامہ 92۔ 26فروری2020ء)