تنقید کرنا ہمیشہ بہت آسان ہوتا ہے!!۔

پروفیسر اطہر صدیقی
ایک زمانہ ہوا ایک مصور تھا جس نے ایک بہت مشہور استاد کی شاگردی میں تصویریں بنانا سیکھا تھا۔ وہ نوجوان مصور اپنے ہنر کا امتحان کرنا چاہتا تھا اور یہ سوچ کر اس نے ایک بہت ہی عمدہ پینٹنگ بنائی۔ تین دن میں اس نے ایک بہت ہی خوب صورت سینری تیار کی۔ یکایک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا اور اس نے طے کیا کہ وہ جس شہر میں رہتا ہے اس کی ایک بہت مشغول سڑک کے پاس چوراہے پر اس پینٹنگ کی نمائش کرے۔ وہ اپنی تصویر اور اپنی مصوری کے معیار کے بارے میں لوگوں کی رائے جاننا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی پینٹنگ سڑک پر رکھ دی اور ایک سائن بورڈ پر لکھا:
’’جناب عالی، میں نے یہ پینٹنگ بنائی ہے، کیوں کہ میں اس کام میں نیا ہوں ممکن ہے میں نے اپنے برش سے کچھ غلطیاں کی ہوں۔ براہ مہربانی جہاں آپ کچھ غلط دیکھیں وہاں ایک کراس (X) بنادیں‘‘۔
شام کو جب وہ مصور اپنی تصویر واپس لینے آیا تو یہ دیکھ کر بے حد مضطرب و مضمحل ہوگیا کہ اس کی تصور کراسز (X) سے بھری ہوئی تھی اور کچھ لوگوں نے تو اس پر اپنی تنقید بھی لکھ دی تھی۔ دل برداشتہ اور شکستہ وہ اپنے استاد کے پاس گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ سسکیوں اور ناقابلِ تسلی احساسات کے ساتھ اس نے اپنے استاد کو بتایا کہ کیا ہوا ہے، اور ان کو اپنی تخلیق کا حشر دکھایا جو ہر طرف اور ہر جگہ نشانات سے بھری ہوئی تھی۔ اس کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ رنگ تو کہیں نظر ہی نہیں آرہے تھے، بس صرف کراسز (X) اور تنقیدی جملے ہی نظر آرہے تھے۔ نوجوان مصور زور زور سے بھاری سانس لے رہا تھا اور اپنے استاد سے کہہ رہا تھا:
’’میں بالکل ناکارہ ہوں، اور اگر میں نے ایسی ہی مصوری سیکھی ہے تو میں مصور بننے کے لائق ہی نہیں ہوں۔ لوگوں نے مجھے بالکل رد کردیا ہے۔ میں زندہ بھی نہیں رہنا چاہتا‘‘۔
استاد مسکرائے اور تجویز رکھی:
’’میرے بیٹے، میں یہ ثابت کردوں گا کہ تم ایک عظیم مصور ہو اور بے عیب تصویریں بنانا سیکھ چکے ہو‘‘۔
نوجوان شاگرد کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، وہ بولا:
’’میں اپنے آپ پر سے یقین کھو چکا ہوں اور میں نہیں سوچتا کہ میں کسی قابل ہوں، مجھے جھوٹی تسلی مت دیجیے‘‘۔
’’ویسا کرو جیسا میں کہتا ہوں بغیر سوال جواب کیے، پھر دیکھو‘‘۔ استاد نے اس کی بات کاٹ کر کہا:
’’میرے لیے بالکل پہلی جیسی ہی ایک تصویر پھر سے بنائو اور مجھے دے دو۔ کیا اپنے استاد کے لیے ایسا کروگے؟‘‘ استاد نے کہا۔
نوجوان مصور بہت مشکل سے تیار ہوا اور دو دن بعد علی الصبح پہلی جیسی پینٹنگ کی ایک کاپی اپنے استاد کو پیش کردی، جو انہوں نے خوش اسلوبی سے قبول کی اور مسکرائے۔ ’’میرے ساتھ آئو‘‘ استاد نے کہا۔
وہ دونوں اُسی چوراہے پر پہنچے اور پینٹنگ کو اسی جگہ جہاں پہلے نمائش کی گئی تھی، رکھ دیا۔ استاد نے اب ایک بورڈ نکالا جس پر لکھا ہوا تھا:
’’حضرات، ہم نے پہلی پینٹنگ میں کچھ غلطیاں اپنے برش چلانے میں کی تھیں۔ میں نے پاس ہی رنگوں کا ایک بکس اور برش رکھ دیا ہے۔ ہم پر مہربانی کیجیے، اگر آپ کو کوئی غلطی نظر آئے تو برش اٹھا کر اسے ٹھیک کردیجیے‘‘۔ اور استاد اور شاگرد گھر واپس لوٹ آئے۔
اسی شام کو دونوں پینٹنگ دیکھنے گئے۔ نوجوان مصور بہت متعجب ہوا یہ دیکھ کر کہ تصویر پر اب تک ایک بھی نشان نہیں لگایا گیا تھا۔ لیکن استاد ابھی تک مطمئن نہیں ہوا تھا، اس نے اپنے شاگرد سے کہا:
’’ممکن ہے لوگوں کے لیے ایک دن کا وقت بہت کم ہو اور ہماری غلطیاں درست کرنے کے لیے اپنی مشغول زندگی سے وقت نہ نکال سکے ہوں، اس لیے ہمیں اس پینٹنگ کو ایک دن کے لیے اور یہاں نمائش پر رہنے دینا چاہیے۔ کل اتوار ہے، اس لیے ہم امید کرسکتے ہیں کہ لوگ اس میں کوئی اصلاح کرسکیں گے‘‘۔
اگلے دن وہ دونوں پھر وہیں پہنچے اور دیکھا کہ پینٹنگ کو کسی نے بھی نہیں چھوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پینٹنگ وہاں ایک ماہ تک رکھی رہی، لیکن کسی نے کوئی اصلاح نہیں کی!
کہانی کا مورل: تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن بہتر بنانا مشکل کام ہے۔
’’مشکلات سے نجات پانے کے لیے ان میں سے گزرنا ضروری ہوتا ہے‘‘۔
(ای میل سے موصول انگریزی سے اردو ترجمہ)