مسلم اقلیت پر بھارتی ”ریاستی دہشت گردی“۔
میر تقی میرؔ نے دِلّی کے اجڑنے کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا تھا:۔
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دِلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لُوٹ کے برباد کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
میر صاحب کے دِلّی کا ایک بار پھر وہی حال ہے۔ بسیں اور ریل گاڑیاں بند ہیں۔ سوختہ مساجد و مدارس، جلے ہوئے مکان و دکانیں، راکھ بنی گاڑیاں اور پتھروں سے اٹی ویران سڑکوں کی بنا پر یہ شہر میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہا ہے۔ گزشتہ برس 12 دسمبر سے، کہ جب مودی انتظامیہ نے شہریت کے قانون میں متنازع ترمیم المعروف CAA منظور کی ہے سارے ہندوستان میں پُرتشدد مظاہرے ہورہے ہیں۔
مودی انتظامیہ کو پہلے سے خدشہ تھا کہ ترمیم کے مخالفین صدر ٹرمپ کے دورے کے موقع پرعالمی میڈیا کی دارالحکومت میں موجودگی کا فائدہ اٹھاکر اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کریں گے۔ اسی بنا پر وزیرداخلہ امیت شاہ اپنی تمام دوسری مصروفیات ملتوی کرکے گزشتہ چار ہفتوں سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطے میں تھے۔
صدر ٹرمپ کے دورۂ ہندوستان کی تیاریاں کئی ماہ سے جاری تھیں۔ احمد آباد، آگرہ اور دِلّی میں صفائی کی مہم پر اربوں روپئے خرچ ہوئے۔ کچی بستیوں کو معزز مہمان کی نظروں سے اوجھل رکھنے کے لیے کچے گھروں اور جھونپڑیوں کے سامنے دیوار کھڑی کی گئی۔ یہ تاثر دینے کے لیے کہ جموں و کشمیر میں صورتِ حال معمول کے مطابق ہے، 24 فروری سے وادی کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کا اعلان بھی کردیا گیا۔ وادی میں 14 ہزار کے قریب تعلیمی ادارے گزشتہ برس اگست سے بند ہیں جب آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ساری وادی میں کرفیو لگادیا گیا۔ لیکن تمام پیش بندیاں اور احتیاطی اقدامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور عین اُس وقت جب احمد آباد کے کرکٹ اسٹیدیم میں صدر ٹرمپ دنیا کی ’’سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کا قصیدہ پڑھ رہے تھے، دہلی میں قیامت کا سماں تھا۔ امیت شاہ کے حکم پر باوردی پولیس کو پیچھے ہٹا لیا گیا اور سارے یوپی سے آئے پیشہ ور مجرموں کا مسلح جتھہ CAAکے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر ٹوٹ پڑا۔ دِلّی کے مضافاتی علاقے جعفر آباد میں میٹرو اسٹیشن کے پل کے نیچے کئی ہزار مسلم خواتین پُرامن انداز میں دھرنا دیے بیٹھی تھیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مرکزی رہنما کپل مشرا کی قیادت میں جے شری رام کا نعرہ لگاتے کئی سو مسلح غنڈوں کا ہجوم وہاں پہنچ گیا۔ پولیس کی گاڑی پر نصب لائوڈ اسپیکر سے مشرا نے اعلان کیا کہ اگر ’’یہ (فحش گالی) یہاں سے نہ ہٹیں تو اسی جگی ان کی چتا جلائی جائے گی‘‘۔ مشرا کی مغلظات پر وہاں موجود نوجوان مشتعل ہوگئے اور تصادم میں درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ بی جے پی کے غنڈوں نے علاقے کے مکانات اور مسلمانوں کی دکانوں کو نذرِ آتش کردیا۔ جعفر آباد سے شروع ہونے والا یہ فساد جلد ہی موج پور، چاند باغ، گوکل پوری، بھجن پورہ، کراوال نگر اور دوسرے مسلم شہروں اور محلوں تک پھیل گیا۔ پتھرائو اور خنجر زنی کے علاوہ مسلمانوں کے درجنوں مکانوں، دکانوں اور گاڑیوں کو نذرِ آتش کردیا گیا، اور اس دوران پولیس مزاحمت کرنے والے نوجوانوں کو گرفتار کرکے سڑک پر بدترین نشدد کا نشانہ بناتی رہی۔
ان ہنگاموں میں سرکاری اعلان کے مطابق ایک پولیس افسر سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے درجنوں بچے غائب ہیں۔ لوگوں کو خدشہ ہے کہ پولیس نے جانی نقصان کم دکھانے کے لیے لاشیں غائب کردی ہیں۔ زخمی ہونے والوں کا کوئی شمار نہیں، کہ مسلمان اپنے جاں بلب زخمیوں کو گرفتاری کے خوف سے اسپتال بھیجنے کے بجائے گھروں میں رکھ کر مسلم ڈاکٹروں سے ان کا علاج کرارہے ہیں۔
دِلّی کے صحافتی حلقے بدترین تشدد کے علی الرغم مسلمانوں کی مزاحمت پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں۔ بی جے پی کے مسلح غنڈوں کے حملوں، آتش زنی، پولیس کی پکڑ دھکڑ اور اندھا دھند فائرنگ کے باوجود مسلم نوجوان سڑکوں پر ہیں اور مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی ماردینے کے حکم کے باوجود خواتین سمیت ہزاروں مظاہرین جگہ جگہ اب بھی دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
پولیس تشدد اور مسلمانوں پر فرقہ وارانہ حملوں کی خبر روکنے کے لیے بہت سے شہروں میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا بھی سنسر کی زد میں ہے۔ مرکزی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے نجی ٹی وی چینلوں کو باقاعدہ نوٹس جاری کیے ہیں جن میں نفرت انگیز اور تشدد کی حوصلہ افزائی کرنے والے مواد کی اشاعت پر سنگین تادیبی کارروائی کی دھمکی دی گئی ہے۔ کالج و اسکول بند اور بورڈ کے امتحانات ملتوی کردیے گئے ہیں۔
وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ دارالحکومت میں ہنگامے منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے ہیں جس کا مقصد ایسے موقع پر ہندوستان کا تاثر خراب کرنا تھا جب صدر ٹرمپ کے دورے کی بنا پر دِلّی دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
ان ہنگاموں سے دہلی کی انتظامی حیثیت کے بارے میں بھی سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ دارالحکومت ہونے کی وجہ سے دہلی کی پولیس مرکزی وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہے، جبکہ شہری سہولیات اور دوسرے انتظامی امور کی نگرانی وزیراعلیٰ کے ذمے ہے۔ دہلی پر عام آدمی پارٹی کی حکومت جس نے کچھ ہی دن پہلے ہونے والے انتخابات میں حکمران جنتا پارٹی کو شرمناک شکست سے دوچارکیا ہے، کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال اس صورت حال سے خاصے پریشان ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ پولیس امن و امان برقرار رکھنے میں صرف ناکام ہی نہیں، بلکہ مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہے جس کی قیمت دہلی کے معصوم شہری اب تک ادا کررہے ہیں۔ انھوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ دارالحکومت میں امن وامان بحال کرنے کے ساتھ غفلت و جانب داری کے ذمے دار پولیس افسران کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے جنھوں نے شہرکے باہر سے آنے والے غنڈوں کی ’سرپرستی‘ کی۔ اسی کے ساتھ یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے دہلی کی پولیس کو وزیراعلیٰ کی نگرانی میں دیا جائے۔
دلی میں مسلمانوں پر حملے
دہلی میں چن چن کر مسلمانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مساجد پر حملے کیے جارہے ہیں اور مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ دہلی کے شمال مشرقی حصے میں ہنگاموں کے بعد کرفیو نافذ کردیاگیا ہے، جبکہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق ہندو مسلم فسادات میں 30 سے زائد افراد قتل، جبکہ 400 زخمی ہوگئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس کے غنڈے جھنڈے لے کر مساجد کے میناروں پر چڑھ گئے، ادھر کئی عمارتوں کو نذرِ آتش کردیا گیا ہے اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔ ہندو انتہاپسندوں نے گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ایمبولینسوں پر بھی حملے کیے۔ ادھر شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین میں شامل ایک شخص نے کہا ’’ہم پُرامن احتجاج کررہے ہیں، ہم امن چاہتے ہیں، کوئی بھی تشدد نہیں چاہتا۔ پُرتشدد واقعات کے بعد ہمارے ذہن پر خوف طاری ہے، لیکن اب ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘۔ دوسری جانب رکن اسمبلی اسدالدین اویسی نے کپل مشرا کی ٹویٹ کے جواب میں کہا کہ ’’یہ تمام ہنگامے بی جے پی کے رہنما کی وجہ سے ہورہے ہیں، انھیں فوراً گرفتار کیا جانا چاہیے‘‘۔ منگل کی شام بی بی سی ہندی کے نمائندے فیصل محمد علی جب شمالی دہلی کے تشدد سے متاثرہ علاقے میں کوریج کے لیے پہنچے تو وہاں ہجوم نے اُن سے وہ موبائل فون چھیننے کی بھی کوشش کی جس میں پُرتشدد واقعات کی ریکارڈنگ موجود تھی۔ فیصل محمد علی کے مطابق ہجوم میں شامل افراد نے ان پر پتھراؤ بھی کیا اور اسی دوران انھوں نے ایک شخص کو ہاتھ پر کپڑا باندھے گلی سے نکلتے دیکھا، جس کے بارے میں عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ اس شخص کے ہاتھ میں گولی لگی تھی اور کسی نے سڑک کے دوسری طرف چھت سے اسے گولی مار دی تھی۔ نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اس وقت شمال مشرقی دہلی کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ’’شہر بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے‘‘۔ بی بی سی کی ٹیم منگل کی صبح بھی جعفر آباد کے متاثرہ علاقوں میں گئی تھی۔ اس علاقے کے لوگوں نے ایک پوری مارکیٹ کو آگ لگا دی تھی۔ ایک مقامی شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ ان دکانوں میں زیادہ تر مسلم برادری کی ہیں۔ نامہ نگار کے مطابق جلتے ہوئے بازار سے اٹھتی ٹائروں کی بو اور دھویں کو دور سے دیکھا جاسکتا تھا، لیکن انھیں اس پورے واقعے کو کیمرے پر ریکارڈ کرنے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقے سے لگ بھگ 500 میٹر دور کچھ نوجوان دکانوں پر پتھر پھینک رہے تھے، اور جب انھوں نے دیکھا کہ ان کی حرکات کیمرے پر ریکارڈ ہورہی ہیں تو پتھراؤ کا رخ صحافیوں کی طرف ہوگیا۔ اسی دوران بی بی سی کی ٹیم نے جے شری رام کے نعرے بھی سنے۔ فیصل محمد علی کے مطابق ’’بہت ساری جگہوں پر ہم نے 100 سے 200 افراد کا ہجوم دیکھا۔ ان میں سے کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ترنگا تھا، لوگ جے شری رام، بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم جیسے نعرے بلند کررہے تھے۔ اس ہجوم میں شامل کچھ افراد ’ملک کے غداروں کو گولی مارو‘ جیسے نعرے بھی لگا رہے تھے‘‘۔ ایک مقامی رکشہ ڈرائیور گلشن کا کہنا تھا کہ ’’انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے ہمیں لڑنے اور جان دینے کے لیے چھوڑ دیا ہے‘‘۔ اسلام الدین نے ان حالات کا موازنہ 1984ء کے ہندو سکھ فسادات سے کیا جب پوری دہلی میں بڑے پیمانے پر تشدد دیکھا گیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ جب بی جے پی رہنما کپل مشرا اشتعال انگیز بیان دے رہے تھے تب ان کے خلاف اقدامات کیے جاتے تو معاملات ہاتھ سے نہ نکلتے۔