سری نگر اور مظفرآباد کا فرق واضح ہوگیا
برطانوی خاتون رکنِ پارلیمنٹ ڈیبی ابراہمز کو مقبوضہ کشمیر کے دورے سے اس بری طرح روک دیا گیاکہ وہ خود اسے بدسلوکی اور بدتمیزی کہنے پر مجبور ہوئیں۔ ڈیبی ابراہمز کو دہلی ائرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا اور ائرپورٹ حکام اُن سے بدتمیزی سے پیش آئے، جس پر ڈیبی ابراہمز نے ایک ٹویٹ کے ذریعے پوچھا کہ کیا انہیں کشمیر پر ان کے خیالات کی وجہ سے بھارت میں داخل ہونے سے روکا گیا؟ دہلی سے لندن ڈی پورٹ کیے جانے کے بعد ڈیبی ابراہمز اسلام آباد اور مظفرآباد کا دورہ کررہی ہیں۔ اُن کے ہمراہ آٹھ ارکانِ پارلیمنٹ بھی ہیں۔ یہ خاتون برٹش پارلیمنٹ میں کشمیر گروپ کی سربراہ ہیں اور اس حوالے سے کشمیر کے حق میں آواز بلند کرتی چلی آرہی ہیں۔ ایک ایسی حق گو خاتون کا کشمیر جانا اور سماج کے تمام طبقات سے آزادانہ میل جول بھارت کو کیوںکر گوارا ہوسکتا تھا!
برطانوی رکنِ پارلیمان کی بھارت بدری سے یہ سوال ایک بار پھر اُبھر کر سامنے آیا کہ بھارت کشمیر میں آزاد ضمیر انسانوں سے کیا چھپانا چاہتا ہے؟ خود بھارتی، یورپی یونین کے ارکان اور سفارت کاروںکو سرکاری چھتر چھائے میں دہلی سے بھر کر سری نگر ائرپورٹ پر اُتارتے ہیں اور ان کی ملاقاتیں نشان زدہ لوگوں سے کراتے ہیں، اور گاڑیوں کے اندر سے ہی انہیں امن کے بہتے دریا دکھاتے ہیں۔ فوجی چھائونیوں میں انہیں بریفنگ دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس تصویر کا دوسرا رُخ دیکھنے کے خواہش مند غیر ملکی ہوں یا بھارت کے شہری اور سول سوسائٹی سے وابستہ افراد… بھارت کشمیر کو ان کے لیے ’’نوگو ایریا‘‘ بنائے ہوئے ہے۔
بھارت کی طرف سے اس بدسلوکی کے بعد برطانوی پارلیمنٹ میں کشمیر گروپ کی سربراہ ڈیبی ابراہمز کی قیادت میں آٹھ رکنی وفد نے مظفر آباد کا دورہ کیا۔ وفد میں آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمنٹ بیرسٹر لارڈ قربان بھی شامل تھے۔ وفد کے ارکان نے صدر آزاد کشمیر مسعود خان اور وزیراعظم راجا فاروق حیدر سے ملاقاتیں کیں۔ وفد نے کنٹرول لائن کے قریب چکوٹھی تک کا دورہ بھی کیا۔ صدر مسعود خان کا کہنا تھا کہ برطانوی وفد کے لیے آزادکشمیر کو کھول دیا گیا ہے، وہ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے ڈیبی ابراہمز نے اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے خصوصی ملاقات کی، بعدازاں انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ ڈیبی ابراہمز کا کہنا تھا کہ ہم کشمیر میں جاری بحران اور انسانی المیے کا فوری خاتمہ چاہتے ہیں۔ ڈیبی ابراہمز چند روز قبل لندن میں بھارتی ہائی کمیشن سے ای ویزہ لے کر دہلی پہنچی تھیں جہاں ان کی منزل سری نگر تھی۔ بھارتی حکام نے انہیں دہلی ائرپورٹ پر لائونج سے باہر نہیں آنے دیا اور انہیں بتایا گیا کہ ان کا ویزہ منسوخ کردیا گیا ہے۔ دہلی ائرپورٹ سے انہیں لندن کے لیے ڈی پورٹ کردیا گیا تھا۔ ڈیبی ابراہمز نے بھارتی حکام کے اس رویّے پر شدید احتجاج کیا تھا، جس کے بعد وزیراعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر ڈیبی ابراہمز کو پاکستان آکر آزادکشمیر کے حالات کا بچشمِ خود جائزہ لینے کی دعوت دی گئی تھی۔ ڈیبی ابراہمز اسی دعوت کے جواب میں ارکانِ پارلیمنٹ کے ایک وفد کے ہمراہ مظفرآباد آئیں اور انہوںنے اس دورے میں حکومتی شخصیات کے علاوہ عام شہریوں اور صاحب الرائے افراد سے بھی ملاقاتیں کیں۔ انہوںنے اس بات کی تعریف کی کہ آزاد کشمیر میں انہیں ہر اُس سیاسی گروپ سے ملنے کی اجازت دی گئی جس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ اس طرح کے دوروں سے بیرونی دنیا کو فی الوقت سری نگر اور مظفرآباد کے حالات کا فرق سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ سری نگر اس وقت ایک جیل کی شکل اختیار کرچکا ہے، اور اس کیفیت کو سات ماہ ہوچکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر مکمل پابندی اور عوام کی نقل وحرکت پر قدغنیں ہیں۔ آبادی کا اچھا خاصا حصہ جیلوں میں ہے، اور جو جیلوں سے باہر ہیں وہ بھی خود کو بڑی جیل کے قیدی محسوس کررہے ہیں، کیونکہ ان کے رابطے بیرونی دنیا سے کاٹ کر رکھ دئیے گئے ہیں۔ سات ماہ سے جاری ان حالات نے کشمیریوں کا اربوں اور کھربوں کا مالی نقصان کیا ہے۔ سیاحت اور پھلوں کی صنعت خسارے کا شکار ہے اور اس سے وابستہ تمام افراد مالی طور پر قلاش ہوچکے ہیں۔ اس کے برعکس آزادکشمیر میں صورتِ حال معمول کے مطابق ہے اور لوگ آزادانہ طریقے سے اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں، اور مواصلات کے جدید ذرائع سے پوری طرح استفادہ کررہے ہیں۔ یہی وہ فرق ہے جو بھارت دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنا اور چھپانا چاہتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے ڈیبی ابراہمز کو بھی سری نگر جانے سے روک دیا گیا۔
سری نگر اور مظفرآباد کے حالات کا یہ فرق دنیا کے لیے واضح کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے حکومتِ پاکستان اور آزادکشمیر کی حکومت کو مل کر کوئی پالیسی وضع کرنی چاہیے۔ اسلام آباد میں تعینات سفارت کاروں کو مظفرآباد اور گلگت بلتستان کا دورہ کرانا چاہیے، تاکہ وہ اپنی حکومتوں کو حالات سے آگاہ کرسکیں۔ اس کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور اہم اسلامی ممالک کے نمائندوں اور منتخب ارکان کو آزادکشمیر کا دورہ کرانا چاہیے۔ اس سے کسی نہ کسی انداز سے مسئلہ کشمیر زیر بحث آتا رہے گا۔ امریکہ اور برطانیہ کے اخباری نمائندوں اور میڈیا کے لوگوں کو بھی آزادکشمیر کا دورہ کرانا چاہیے۔ یہاں ان کی ملاقاتیں منقسم خاندانوں سے کرانی چاہئیں جنہیں کشمیر میں مواصلات کی پابندیوں کے باعث شدید ذہنی اذیت کا سامنا ہے۔ ڈیبی ابراہمز کی قیادت میں آنے والے وفدکی مظفرآباد آمد اس سلسلے کا آغاز ہونا چاہیے۔