سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود خان کی فرائیڈے اسپیشل سے گفتگو
ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر وقار مسعود خان پاکستان کے سابق سیکریٹری خزانہ ہیں۔ آپ بوسٹن یونیورسٹی امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سول سروسز سے منسلک ہوئے اور وزیراعظم کے اسپیشل سیکریٹری ، سیکریٹری فنانس ڈویژن، سیکریٹری اکنامک افیئرز، سیکریٹری پیٹرولیم افیئرز، سیکریٹری ٹیکسٹائل انڈسٹری، بورڈ ممبر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، اسلامک ڈیولپمنٹ بینک، نیشنل بینک آف پاکستان، پی آئی اے، پی ٹی سی ایل و دیگرکئی اداروں سے وابستہ رہے۔ ایک روزنامہ میں مستقل عنوان سے آپ کے کالم بھی شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس میں گریجویٹ سطح کے طلبہ کو (اکنامکس) معاشیات بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ آپ سے ملک کی معاشی و اقتصادی صورت حال پر گفتگو ہوئی، جو نذر قارئین ہے۔
…………
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان کی معاشی اور اقتصادی صورتِ حال کیوں ٹھیک نہیں ہو رہی۔ تاریخی پس منظر میں آپکا تجزیہ کیا ہے؟
ڈاکٹر وقار مسعود: ماضی میں اگر دیکھیں تو ایسی معاشی صورت حال کی دو سے ڈھائی دہائیوں میںمثال نہیں ملتی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب حکومت بنی تو اس نے بہت قیمتی وقت کھو دیا اور حکومت کوئی حکمتِ عملی نہیں بنا سکی کہ کس راستے میں معیشت کو لے کر چلیں گے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آخر کے دنوں میں معیشت کی حالت بہت خراب تھی، جو معیشت وراثت میں ملی اس کی وجہ سے یقیناً موجودہ حکومت کو مشکلات کا سامنا تھا، اور ظاہر ہے معیشت اسی کو درست کرنی تھی۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ فیصلہ سازی کا ایک قیمتی وقت ہمارے ہاتھ سے نکل گیا، اور بالآخر کوئی دس مہینے بعد حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا، لیکن اس دوران حکومت نے اپنے تئیں معیشت کے استحکام کے لیے بہت سارے اقدامات کیے۔ ان منصوبہ بندیوں کے باعث معیشت سست روی کا شکار ہوگئی۔ ایک ساتھ کئی مسائل درپیش تھے، لہٰذا ہماری کرنسی اپنی قدر کھو بیٹھی، ہمارے کاروبار کو چلانے کے لیے درکار سرمائے کی قدر میں اضافہ ہوگیا، اور پھر اس بجٹ میں تاریخ کا سب سے زیادہ ٹیکس لگادیا گیا۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ تو آج کی صورتِ حال ہوئی۔ تھوڑا سا پس منظر معلوم ہو کہ 1947ء کے بعد سے پاکستان کی معیشت یا اقتصادی صورتِ حال آخر ٹھیک کیوں نہیں ہوپائی؟ کیا اس کی وجہ ہماری نااہلی ہے یا دستیاب وسائل کا مسئلہ ہے؟
ڈاکٹر وقار مسعود:اس پر اگر تفصیلی گفتگو کی جائے تو بہت طویل ہوگی، مختصراً یہ کہ ہم نے معاشی ترقی بھی بہت کی ہے۔ ہم ایک زمانے میں نمونے کے طور پر پیش کیے جاتے تھے، اور جس طرح سے ہمارے ہاں معاشی ترقی ہورہی تھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس طریقے سے سبز انقلاب یہاںآیا تھا، زراعت میں میکنائزیشن ہوا تھا، صنعتیں لگی تھیں، برآمدات بھی ہورہی تھی… یہ تمام کام ہوئے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ شروع کے پچیس سال میں جو ترقی ہوئی اُس میں احساسِ محرومی پیدا ہوا دو صوبوں کے درمیان بدگمانیاں پیدا ہوگئیں، عام لوگوں اور سرمایہ داروں میں تفاوت بڑھا۔ پھر اس کے بعد ہم دوسری طرف ہولیے، اور ایک طرح سے سرمایہ دارانہ معیشت کے مقابلے میں ہم سوشلسٹ معیشت کی طرف چلے گئے ۔ اس میں بھی ہم نے بھی کچھ سوچا سمجھا نہیں اور حکومت کو موقع بھی نہیں ملا کہ زیادہ عرصہ کام کرتی۔ اس کے بعد پھر فوجی حکومت آئی، اور اُس نے بھی ان اثاثوں کو قومی ملکیت ہی میں رکھا، اور پھر ملک میں ایک نیا معاشی ماحول آگیا، جس میںنجی شعبے کی سرپرستی نہیں ہوا کرتی تھی۔ جو کچھ ہورہا تھا پبلک سیکٹر میں ہورہا تھا۔ اس نظام میں بھی سیاست در آنے لگی۔ قدرتی بات ہے کہ ایسے ماحول میں سیاسی بنیادوں پر فیصلے ہوتے ہیں۔ پھر اس دور کے ختم ہونے پر تیس سال کے اندر اگر کوئی قدرِ مشترک اگر ہم دیکھیں تو یہی ہے کہ حکومتیں جلدی جلدی بدلتی ہیں اور بیچ میں ایک مارشل لا کی سی کیفیت بن گئی تھی اور کاروباری مفادات بھی حکومت کے اندر شامل ہوگئے۔ ہر طرف ایسی معاشی شخصیات جو سیاست کا بھی حصہ ہیں اور حکومتی اہم عہدوں پر بھی ہیں، وہ ایسے فیصلے کرتی ہیں جو شاید ان کے اپنے مفادات کے لیے ہوتے ہیں۔ تو یوں سب کچھ گڈ مڈ ہوگیا۔ پھرآئی ایم ایف کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے اندر بھی ہم تھوڑا سا چلتے ہیں، پھر گر جاتے ہیں۔ ہم سانپ سیڑھی والے کھیل کی سی کیفیت کا شکار ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ قومی استقامت کا کردار نظر نہیں آرہا، تو غلط نہ ہوگا۔ 1990ء میں اسی عرصے کے اندر جب ہندوستان نے اپنی معاشی سمت بدلتی تو سیاست اس پر اثر انداز نہیں ہوئی، اور انہوں نے بڑی ترقی کی۔ مگر اب بی جے پی نے آکر جو طرزِعمل اختیار کیا ہے اُس سے ہندوستانی معیشت بھی متاثر ہورہی ہے اور باہمی اتحاد بھی سبوتاژ ہورہا ہے جو کہ کسی بھی قسم کی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم نے وہ استقامت ہی نہیں دکھائی جو کسی راہ پر سوچ سمجھ کر چلنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں پرائیویٹائزیشن ہو، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نہ ہو۔ لیکن جب حکومتیں آتی ہیں وہ کہتی کچھ ہیں اور کرتی کچھ ہیں، اور معاشی استحکام کے لیے جس سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اُس کا فقدان ہے۔ یعنی استقامت کا فقدان ہی معاشی عدم استحکام کا باعث ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: موجودہ حکومت میں غریب مزید غریب ہورہا ہے، مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے، دوسری طرف طاقتور طبقہ مزید مضبوط ہورہا ہے۔ آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر وقار مسعود: میں نے جس طرح سے پہلے عرض کیا کہ تین باتیں ہیں: شرح سود کو دگنا یا اُس سے بھی زیادہ کردینا، اور پھر ٹیکسوں کی بہتات کو اگر دیکھیں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ یہ غیر یقینی کی کیفیت کیوں پیدا ہوئی ہے اور مہنگائی میں اس قدر اضافہ کیوں ہوا ہے کمر توڑ مہنگائی۔ پھر چلیں یہ ایک واقعہ یا حادثہ تھا اور آپ کو معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کچھ سخت اقدامات کرنے تھے، لیکن یہ آٹے کا بحران، چینی کا بحران، ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ… اس کی تو کوئی بھی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی۔ اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہاں تو خطائیں ہوئی ہیں۔ اور پھر وزیراعظم نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ ہاں ہم سے خطا ہوئی ہے۔ اگر خطا ہوئی ہے تو سزا اور جزا کا نظام اگر اسے نہیں دیکھے گا تو عوام کا اعتماد کس طرح قائم رہے گا! پھر یہ آپ کے سامنے ہے کہ ان اقدامات کی وجہ سے پوری معیشت سست روی کا شکار ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: وہ کون سے حکومتی اقدامات ہیں جن کی وجہ سے یہ صورتِ حال پیدا ہوئی؟
ڈاکٹر وقار مسعود: اس کی دو تین مثالیں ہیں۔ سب سے پہلے لارج اسکیل انڈسٹری ہے۔ اٹھارہ مہینے ہوچلے ہیں، نیگیٹو ہی ہے۔ اس مہینے گروتھ ذرا بڑھا، مگر پورے چھے ماہ کے اندر ہماری 3.4 فیصد کے قریب نیگیٹو گروتھ ہے، جس میں آٹو موبائلز چالیس فیصد کے قریب ڈائون ہوئے ہیں، سیمنٹ میں کچھ بڑھا ہے، آئرن اسٹیل وغیرہ میں چودہ پندرہ فیصد کی کمی ہے، ٹیکسٹائل بالکل ساکت ہے اس میں کسی قسم کی گروتھ نہیں ہوئی، مقامی پیٹرولیم پروڈکشن دس فیصد کم ہوئی ہے، امپورٹ میں تو اکیس فیصد کمی ہوئی ہے۔ یہ ذرائع معیشت کا پہیہ چلاتے ہیں، اگر ان کی مانگ کم ہورہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت سست روی کا شکار ہے۔ بڑے پیمانے پر بے روزگاری ہوئی ہے۔ حکومت نئے روزگار کی باتیں کرتی ہے، روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہوں گے تو غربت میں اضافہ لازمی ہے۔ دوسری طرف زراعت کا عالم دیکھ لیں کہ کپاس کی پیداوارجو پہلے ہی کم تھی میں خاطرخواہ کمی واقع ہوئی ہے، گنے کی پیداوارمیں کمی ہوئی ہے، گندم کو خطرات لاحق ہیں ٹڈی دل وغیرہ سے۔ اگر ترقی ہی نہیں ہورہی تو نئے روزگار کے مواقع کہاں سے پیدا ہوں گے؟ اور نئے روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوں گے تو غربت میں بھی اضافہ لازم ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 22سے 25لاکھ لوگ حالیہ دور میں بے روزگاری کا شکار ہوئے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:حکومت کیوں ناکام ہوئی ہے؟
ڈاکٹر وقار مسعود: اس میں صلاحیتوں کا بھی مسئلہ ہے، لیاقت کا بھی مسئلہ ہے،ناتجربہ کاری بھی ہے، تیاری بھی نہیں ہے۔ ایک طرح سے تو یہ اس حکومت کے لیے ایک بڑا حادثہ ہوا کہ جو اس پارٹی کے ستون تھے اور جن کے بارے میں کئی سال پہلے سے معلوم تھا کہ وہ وزیر خزانہ ہونے والے ہیں، وہ تبدیل ہوگئے، اور ان کی جگہ باہر سے دوسرے لوگوں کو لایا گیا۔ یہ وتیرہ تو پچھلی حکومت کا تھاکہ باہر سے اقتصادی مشیر بنائے جائیں،آپ بھی انہی خطوط اور پیمانوں پر کام کرنے لگے!، ایک منتخب حکومت کے پاس ماہرین کی ایک تعداد ہونی چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: تحریک انصاف حکومت کی معاشی پالیسی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی معاشی پالیسی کا تسلسل ہے؟
ڈاکٹر وقار مسعود: ایک دفعہ نیشنلائزیشن کا عمل ہوا تھا، اس کے بعد ہر کوئی اسی راستے پر چل رہا ہے۔ کسی بھی طرح کا انقلابی فرق کسی حکومت نے نہیں اپنایا۔ پہلا دس سالہ دور بے نظیر اور نوازشریف کا، پھر پرویزمشرف کا دورِ حکومت، پھر اس کے بعد دس سال میں یہی کچھ تو ہوتا رہا ہے… آئی ایم ایف کا پروگرام، مارکیٹس کو بہتر کرنا، اصلاحات نجی شعبوں کے فروغ کے لیے سخت پالیسیوں کا جاری کرنا… لیکن اِس دفعہ آپ نے حد کردی ہے، اتنی سختی تو ماضی میں کبھی نہیں ہوئی، اور اب تک اس پروگرام میں ترقی کہیں نظر نہیں آرہی دوسرا جائزہ مکمل نہیں ہوسکا، اور اس کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کامیاب ہوگا یا نہیں ہوگا، کیونکہ اب وزیراعظم کے پاس، اس حکومت کے پاس مزید سخت اقدامات اٹھانے کی نہ آزادی ہے اور نہ ہی وہ سرمایہ ہے کہ جس سے لوگوں کو مطمئن کیا جاسکے۔ تو ٹیکس لگانا ہو یا بجلی اور گیس کی قیمتوں کو بڑھانا ہو، میری نظر میں سب سے اچھے فیصلے عمران خان نے یہی دو کیے ہیں کہ انہوں نے ان کی قیمتوں میں اضافے سے انکار کردیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اگر اقتصادی اور معاشی حالات یہی رہے تو پاکستان میں کیا صورت حال پیدا ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹر وقار مسعود: اس ملک کے عوام میں بہت ہی صبر و تحمل اور بے پناہ بوجھ اٹھانے کی قوت ہے۔ کیا کریں گے لوگ؟ پس رہے ہیں۔ آج کی جو صورتِ حال ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ 12سال پہلے اتنا بڑا مہنگائی کا طوفان آیا تھاہوا یعنی 14.6فیصد کے قریب۔ لیکن اُس وقت پوری دنیا میں 150ڈالر تک تیل کی قیمت پہنچ گئی تھی۔ آج تو ایسی کوئی واہی تباہی دنیا میں نہیں ہورہی جس کے اثرات ہم پر مرتب ہوں۔ آپ اطراف میں دیکھ لیجیے، بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان اور نیپال میں دیکھ لیں، کیا کہیں مہنگائی اور بحران کی یہ صورت حال ہے جو ہمارے ہاں ہے؟
فرائیڈے اسپیشل: معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے ہماری ہر حکومت عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف دیکھتی ہے، آپ آئی ایم ایف کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں اور پاکستان کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے؟
ڈاکٹر وقار مسعود: آئی ایم ایف تو بین الاقوامی برادری نے مل کر بنایا ہے۔ یہ کسی ایک ملک کا ادارہ نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: امریکہ کا زیادہ اور براہِ راست اثر ہے۔
ڈاکٹر وقار مسعود: امریکہ کے 16 فیصد شیئر رہ گئے ہیں، اور یقیناً اس کا ایک اثر ہے، لیکن دیگر ممالک کا بھی اثر ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ سب کچھ امریکہ کے اختیار میں ہے۔ آئی ایم ایف کا ایک کردار تو ہے اور اس سے فائدہ اٹھا کر جلد سے جلد فارغ ہوجانا چاہیے، بجائے اس کے کہ ہم باربار اس کے در پر جائیں، اور وہ اگلا پروگرام دینے کے موقع پر کہتے ہیں کہ پیسے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہاں پر بہت برا انسٹیٹیوشنل ارینجمنٹ ہے، عادتیں ہیں اور ان کو ختم کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں پیسے بھی اس دفعہ کم ملے ہیں، لیکن اس کے باوجود بے شمار بوجھ آپ کے سر پر لاد دیا ہے۔ مجبوری تھی لہٰذا آپ نے قبول کرلیا۔
فرائیڈے اسپیشل:آئی ایم ایف جن ممالک میں گیا وہاں کے معاشی حالات درست سمت پر چلنا شروع ہوگئے،کیا ایسی مثالیں ہیں؟
ڈاکٹر وقار مسعود: آئی ایم ایف جہاں گیا اور جلدی نکل آیا، وہ ملک کامیاب ہوگئے۔ جو ملک بار بار آئی ایم ایف کے پاس جاتے رہے وہاں پر ناکامیاں رہیں۔ ایسے بہت سے ممالک ہیں۔ ہمارا تو ایسا ٹریک بھی نہیں ہے، لوگ تیس تیس سال تک آئی ایم ایف کے پروگراموں میں الجھے رہے۔ میں صرف یہی کہوں گا کہ اگر آپ کو آئی ایم ایف برا لگتا ہے تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ مجھے قرض خواہ کی شکل بری لگتی ہے۔ تو آپ ایسا انتظام کیجیے کہ اس کی شکل کبھی دیکھنی نہ پڑے۔ کبھی آپ ان حالات میں نہ پہنچیں کہ کسی کے آگے آپ کو ہاتھ پھیلانے پڑیں۔ اور وہ طریقہ یہی ہے کہ آپ اپنے وسائل کے اندر اپنی زندگی گزاریں۔ مالیاتی خسارہ معیشت کے لیے اُم الخبائث ہے۔ جب صوبوں کو ہم اُن کا حصہ ادا کردیتے ہیں اُس کے بعد جو وفاق کے پاس اس کے مکمل محاصل، ہر طرح کے ٹیکس اس قابل بھی نہیں کہ آپ کی ڈیٹ سروسنگ (قرضوں کی ادائیگی کے بوجھ کو اٹھا سکیں۔ باقی ساری حکومت، ڈیفنس سے لے کر ڈیولپمنٹ تک سب کے سب قرضے پر چل رہے ہیں۔ اندرونی قرضہ ہوتا ہے باہر کا قرضہ ہوتا ہے اگر آپ اپنے آپ کو سمیٹ لیں اور اپنی خواہشیں کم کردیں تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ ٹیکس کے نظام کو درست کرنا چاہیے۔ پچھلی دفعہ ہمارا ٹیکس نو فیصد سے بھی کم تھا۔ ظاہر ہے نو فیصد ٹیکس تو اس قابل نہیں کہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ سب لوگوں کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے، لیکن لوگ ٹیکس اُسی وقت ادا کریں گے جب انہیں یہ اعتماد ہو کہ ٹیکس اتھارٹیز ہماری چمڑی نہیں ادھیڑیں گی، ہمارے ٹیکس کی رقم ہمارے اوپر خرچ ہوتی ہے، سہولیات ہوتی ہیں، ہمارا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں کیا خیال رکھا جاتا ہے عوام کا؟ چوری چکاری ہوتی ہے، اس کے باوجود کوئی داد رسی نہیں ہوتی۔ عدالت چلے جائیں، وہاں آپ کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ جو ٹیکس کا بوجھ ہم پر لادا جارہا ہے تو جواباً ہمیں کیا مل رہا ہے؟ تو ان سوالات کے ہمیں جواب تلاش کرنے ہوں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: معیشت کی بہتری کے لیے حکومت آخر کیا اقدامات کرے جو اب تک نہیں کیے؟
ڈاکٹر وقار مسعود: بہت اچھا سوال ہے۔ دیکھیں، سب سے پہلے شرح سود کا مسئلہ ہے، آپ نے سوا تیرہ ساڑھے تیرہ فیصد پر آپ سرمایہ کاری کررہے ہیں، یہ تو آپ کی کمر توڑ دے گا اور اس کی وجہ سے آپ کے ہاں سرمایہ کاری نہیں ہوگی، اور جن کے اوپر قرضے ہیں وہ تو بلبلا اٹھیں گے، ان کے پاس واپسی کے لیے پیسے نہیں ہیں اور سود کی ادائیگی کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ اب وہ جارہے ہیں کہ ہماری ری شیڈول کردیجیے واپسی کے لیے۔ ایک تو کم از کم سنگل ڈیجٹ کے اندر شرح سود کو لانا ہوگاایک بات۔ دوسرا یہ کہ ہم نے جو بے تحاشا ٹیکس لگائے ہیں اور وہ کارگر ثابت نہیں ہوئے، یعنی جنہیں لگانے کے بعد ان چیزوں کی مانگ ہی ختم ہوگئی۔جو ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی ہم نے لگائیں اس میں بیس والا ریٹ ستائیس پر لے گئے، اور سولہ والا ریٹ تئیس پر لے کر چلے گئے، ان کو تو رول بیک کریں۔ معیشت کے اندر اب مانگ آپ کو پیدا کرنی ہے۔ سرمایہ کار اب اس کا تقاضا کررہا ہے کہ کچھ جوس وغیرہ دو کہ میرے بدن میں جان تو آئے۔ معیشت کو رواں کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسرے اپنے پرائیویٹائزیشن کے پروگرام کو آگے بڑھائیں، کیونکہ یہیں سے سرمایہ کاری کا پہلا باب کھلے گا۔ پھر اس مہنگائی کو کم کرنا ہوگا۔ پچھلے دنوں وزیراعظم نے ہر کسی سے ملاقات کی اور پوچھا کہ قیمتیں کم کیسے کرسکتا ہوں؟ اور انتظامیہ کو بھی انہوں نے متحرک کیا۔ واللہ اعلم بالصواب، قیمتیں کم ہوئیں یا نہیں ہوئیں۔ بھئی یہ کام پہلے ہونے کے تھے، اور یہ وزیر اعظم کے کرنے کے کام نہیں ہیں۔ وزیراعظم کی اتنی بڑی کابینہ ہے، یہ کام انہوں نے کیوں نہیں کیا؟ اور دن رات ایک کرنا چاہیے۔یہ چار موٹی موٹی باتیں ہیں جن پر عمل کرنے سے صورتِ حال بہتر ہوسکتی ہے۔