طالبان،امریکہ مجوزہ امن معاہدہ !۔

تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق قطر کے شہر دوحا میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تقریباً ایک سال تک جاری رہنے والے دو طرفہ مذاکرات ایک وسیع البنیاد معاہدے کی جانب کامیابی سے بڑھ رہے ہیں۔ موصولہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق طالبان اور امریکہ 29 فروری کو باہمی امن معاہدے پر نہ صرف رضامند ہوگئے ہیں، بلکہ فریقین پہلی دفعہ کھل کر اس ممکنہ امن معاہدے کی تصدیق بھی کررہے ہیں، جب کہ دوسری جانب عالمی سطح پر اس معاہدے کو ایک امید کے طور پر دیکھا جارہا ہے، جس سے اس خطے میں امن قائم ہونے کی امیدیں باندھی جارہی ہیں۔ واضح رہے کہ طے شدہ نکات کے تحت 22 فروری سے پُرتشدد واقعات کی روک تھام کا وقت شروع ہوچکا ہے اور اس پر تادم تحریر فریقین کی جانب سے عمل درآمد بھی کیا جارہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس معاہدے پر دستخط کے بعد دونوں جانب سے اعتماد سازی کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جائیں گے جن میں قیدیوں کی رہائی اور افغان سرزمین کا امریکہ کے خلاف استعمال روکنے سے لے کر امریکی افواج کا انخلاء اور افغانستان کی مستقبل کی حکومت میں طالبان کی شمولیت تک کے جملہ نکات شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 29 فروری کو معاہدے پر دستخطوںکے بعد دونوں جانب سے قیدیوں کی رہائی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ امریکہ طالبان قیدیوں کو رہا کرے گا، جب کہ دوسری جانب طالبان کی تحویل میں جو لوگ ہیں انھیں بھی رہا کیا جائے گا۔ ان قیدیوں کی تعداد کیا ہے، یا کتنے افغان طالبان امریکہ کی حراست میں ہیں، اور کتنے افراد طالبان کی تحویل میں ہیں، اس بارے میں تاحال کسی کے پاس بھی واضح معلومات نہیں ہیں، البتہ ماضی میں ایسی خبریں ذرائع ابلاغ میں شائع ہوتی رہی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ہزاروں افغان طالبان امریکہ کی حراست میں ہیں جنھیں معاہدہ ہونے کے بعد رہا کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ، طالبان معاہدے کے متعلق یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی جس میں افغان آئین اور اداروں کے بارے میں بات ہوگی، اس میں سیکورٹی اداروں کے حوالے سے بھی بات چیت ہوگی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس معاہدے کو اُمید کے ساتھ دیکھا جارہا ہے، لیکن اس معاہدے کے نتیجے میں امن کے قیام کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے، تاکہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان کو ماضی کی طرح تنہا نہ چھوڑ دیا جائے، اور اگر ایسا کیا گیا تو اس کے نتائج نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے خطے پر شدید خطرات کی صورت میں برآمد ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے پر دستخط کے بعد امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کو بتدریج نکالے گا، اور یہ انخلا ایک باقاعدہ ٹائم فریم کے تحت ہوگا۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیا امریکہ افغانستان سے اپنی تمام فوجوں کو نکالے گا؟ یا کچھ وقت کے لیے امریکی فوجیوں کی ایک خاص تعداد افغانستان میں قیام کرے گی؟ اس بارے میں تفصیلات معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ہی سامنے آسکیں گی۔ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس وقت 13 ہزار ہے، جبکہ 2018ء تک یہ تعداد 15 ہزار کے لگ بھگ تھی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق افغانستان سے جب امریکی فوجیوں کے انخلا پر کام شروع ہوگا تو افغان طالبان کو بھی یہ یقین دہانی کرانا ہوگی کہ افغان سرزمین امریکہ سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ ہمیں یہاں اس امر کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان سے کوئی بیرونی جارح ملک پہلی دفعہ معاہدہ کرکے اپنا بوریا بستر گول نہیں کررہا ہے، بلکہ 19ویں صدی میں اسی نوع کا ایک معاہدہ اُس وقت کی سپر پاور برطانیہ بھی افغانوں سے کرچکا ہے، اور بعد ازاں 20ویں صدی عیسوی کے اختتام سے محض بارہ سال قبل اسی طرح کا ایک معاہدہ 1988ء میں جنیوا میں آنجہانی سوویت یونین اور افغان مجاہدین کے درمیان بھی ہوا تھا، اور اب تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، اور 21ویں صدی کی پہلی ربع میں اس وقت کی عالمی سپرپاور امریکہ نہتے اور بوریا نشین افغانوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے امن معاہدے کی بھیک مانگ کر یہاں سے ذلت ورسوائی کے ساتھ رخصتی کی تیاری کررہا ہے۔
دریں اثناء امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے طالبان، امریکہ امن معاہدے کے بارے میں کہا ہے کہ طالبان سے معاہدے میں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اب افغانستان امریکہ پر حملہ کرنے کے لیے دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ نہیں ہے۔ اس موقع پر امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا کہ افغانستان سے 13 ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی کے معاہدے کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ داعش، القاعدہ اور دیگر امریکہ مخالف دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت مل جائے گی۔
جنرل جوزف کا کہنا تھا کہ وہ امریکی فوج کے لیے اس وقت انخلا کا لفظ استعمال نہیں کررہے، تاہم کوشش یہ ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ نہ بنے اور وہاں امن و امان قائم ہو۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے طالبان کے ساتھ معاہدہ 29 فروری کو ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد میں کمی کے حوالے سے ہونے والی مفاہمت پر کامیابی سے عمل درآمد کی صورت میں امریکہ اور طالبان کے مابین 29 فروری کو معاہدہ ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ایک ہفتے کے لیے تشدد میں کمی کی جس مفاہمت پر اتفاق کیا گیا تھا، اس کا آغاز 22 فروری سے ہوچکا ہے۔ دوسری جانب طالبان کے قطر دفترکے ترجمان سہیل شاہین نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ہم امن معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور یہ معاہدہ بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں ہوگا۔ تیسری جانب افغان سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغان حکومت اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری توجہ اس پر ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور ہم امن لا سکیں۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان سیکورٹی فورسز کو تیار رہنے کا حکم بھی دیا گیا ہے جبکہ اس جنگ بندی کے باوجود داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف آپریشن اور دیگر سرگرمیاں بدستور جاری رہیں گی۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ2001ء میں امریکی سربراہی میں ایک بین الاقوامی اتحاد نے جس میں نیٹو سمیت 48 ممالک کی افواج موجود تھیں، القاعدہ کو پناہ دینے کے الزام میں طالبان کی حکومت کو ختم کرکے بون معاہدے کے تحت پہلے تین سال تک حامد کرزئی کی قیادت میں ایک عبوری افغان حکومت قائم کی تھی، جب کہ بعد ازاں افغانستان میں ایک نیا صدارتی آئین نافذ کرکے اس کے تحت 2004ء، 2009ء، 2014ء اور اب 2019ء کے صدارتی انتخابات کرائے ہیں۔ تاہم ان گزشتہ بیس برسوں میں طالبان نے ایک لمحے کے لیے نہ تو امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو سانس لینے کا موقع دیا ہے، اور نہ ہی اس کی کٹھ پتلی افغان حکومتیں اور اس کی پروردہ سیکورٹی فورسز اپنا کنٹرول کو ممکن بنا سکی ہیں، بلکہ پچھلے بیس برسوں کے دوران ہر آنے والا دن طالبان کی فتح اور امریکہ کی شکست کی نوید لے کر طلوع ہوتا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب امریکہ کو پاکستان کا سہارا لے کر طالبان سے امن معاہدے کی بھیک مانگنی پڑی ہے جسے امریکہ اور اُس کے اتحادی چاہے کوئی بھی نام دیں، لیکن زمینی حقائق اس امر کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں۔ یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اِس وقت بھی افغانستان کے ایک بڑے رقبے پر طالبان کاکنٹرول ہے۔ ایف ڈی ڈی لانگ وار جرنل کے مطابق طالبان کا اِس وقت ملک کے 70 اضلاع پر مکمل کنٹرول ہے، جبکہ 190 اضلاع ایسے ہیں جہاں حکومت اور طالبان میں جنگ جاری ہے، یعنی وہ بھی حکومتی تصرف میں نہیں ہیں۔ افغان حکومت کو اس وقت دارالحکومت کابل سمیت صرف 133 اضلاع پر جزوی کنٹرول حاصل ہے جہاں طالبان جب چاہیں، حملہ کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں، جبکہ طالبان کا مؤقف تھا کہ وہ براہِ راست امریکہ سے بات کریں گے کیونکہ افغان حکومت امریکی کٹھ پتلی ہے۔ امریکہ نے بالآخر طالبان کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اُن کے ساتھ براہِ راست امن مذاکرات کا آغاز 2018ء میں کیا تھا جس میں قطر، پاکستان اور بعض دیگر اسلامی ممالک کا خاص عمل دخل رہا ہے۔
اس مجوزہ امن معاہدے کے بارے میں بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کا تمغا اگلے صدارتی انتخابات سے قبل ہر حال میں اپنے سینے پر سجانا چاہتے ہیں جس کا وعدہ انہوں نے گزشتہ انتخابی مہم کے دوران شدومد سے کیا تھا۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ پیش رفت خوش آئند ہونے کے باوجود زیادہ امید افزا نہیں ہے، کیونکہ یہ کوئی جامع معاہدہ نہیں ہوگا، اس معاہدے کے بارے میں فی الحال وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ افغانستان میں امن بحال کرنے کے لیے ہے یا فقط امریکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہے۔ مبصرین کے مطابق اس معاہدے سے جہاں امریکہ افغانستان میں اپنی بیس سالہ طویل جنگ کو اختتام دے سکے گا، وہیں افغان حکومت کے لیے اس کے بعد کئی کٹھن مراحل کے آغاز کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں انتخابی نتائج کے تحت ڈاکٹر اشرف غنی کی دوسری مدت کے لیے کامیابی کے اعلان کے باوجود اگر ایک طرف اشرف غنی کے مخالف عبداللہ عبداللہ نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت قائم کریں گے، تو دوسری جانب ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آخر طالبان کو اس گمبھیر صورت حال میں کہاں اور کیسے ایڈجسٹ کیا جائے گا؟ ایک بار جب امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا تو کیا افغان حکومت میں اتنا دم خم ہے کہ وہ طالبان کوکسی وسیع تر معاہدے کا احترام کر نے پر مجبور کرسکے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا فوری جواب فی الحال کسی کے پاس بھی نہیں ہے، لہٰذا اس کے لیے ہمیں 29فروری کے مجوزہ امن معاہدے اور بعد کے آنے والے دنوں کا انتظار کرنا ہوگا۔