عمر کی نقدی پوری ہوئی۔ نعمت اللہ خان بھی اپنے رب کے پاس پہنچ گئے۔
اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
کامیاب ہوا وہ شخص جس نے زندگی کی حقیقت کو جان لیا۔ ظلمت اور نور کا شعور ہی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ اس حقیقت کا عرفان اُس کو حاصل ہوتا ہے جسے یہ معلوم ہوجائے کہ اسے دنیا میں کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ یہی سوال زندگی کا کلیدی سوال ہے۔ اسی سوال کے جواب پر آدمی کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ نعمت اللہ خان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسی سوال کا جواب تھی، اسی لیے اندھیروں کی حکمرانی کے اس دور میں وہ روشن چراغ بن کر سامنے آئے۔ یہی چراغ ہیں جو مایوسی کے اندھیروں میں امید کی کرن بن کر نمودار ہوتے ہیں۔ نعمت اللہ خان اُس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے اپنے لڑکپن میں برصغیر ہند و پاک میں ایک عظیم مسلم مملکت کا خواب دیکھا، اس جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالا اور نئی عظیم مملکت کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے ہجرت کے مصائب کو انگیز کرنے کا فیصلہ کیا۔ بے گھری، غربت، افلاس اور نامساعد حالات کو رکاوٹ نہیں بننے دیا، اور طویل عمر گزار کر اس حال میں اپنے رب کے پاس پہنچ گئے کہ ان کے دامن میں مملکتِ خداداد پاکستان اور اس کے باشندوں کی خدمت کے لیے اجتماعی جدوجہد کا اثاثہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نعمت اللہ خان کی جدوجہد کا نیا مرحلہ شروع ہوا اور مقاصدِ پاکستان کی تکمیل کے لیے آپ نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت پر لبیک کہا اور جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ نظریاتی تحریکیں نظریاتی شخصیات کو جنم دیتی ہیں۔ یہ زندگی کا نصب العین اور عقیدہ ہے جس کے مطابق سیرت و کردار کی تعمیر ہوتی ہے۔ فرد کی سیرت کی تعمیر قوم کی تعمیر کی ضمانت ہے۔ افسوس یہ ہے کہ سیرت و کردار کی تعمیر کو دنیا پرستی کے عقیدے نے پس منظر میں دھکیل دیا ہے، جس کی وجہ سے کرپشن، بدعنوانی، جرائم، ہوسِ دولت مملکتِ خداداد پاکستان کی قومی شناخت بن گئے ہیں۔ مفاد پرستی اور ضمیر فروشی کی حکمرانی ہے۔ پست کرداری نے پاکستان کے مقتدر طبقے کو جابرانہ استیصالی اور اسلام دشمن، مسلم دشمن قوتوں کا غلام اور آلۂ کار بنادیا ہے، جس نے ہماری قومی سیاست کو اوپر سے نیچے تک آلودہ کردیا ہے۔ صاحبِ فکر اذہان کو راستہ نہیں ملتا کہ کس پر اعتماد کیا جائے، کیسے بدلیں گے حالات۔ ان مایوس کن حالات میں نعمت اللہ خان جیسی شخصیات کی موجودگی اس قوم پر اللہ کے احسانوں میں سے ایک احسان تھا۔ ان کی وہ زندگی جو انہوں نے ایک عام شہری، ایک سیاسی ونظریاتی تحریک کے کارکن اور عوام کے نمائندے کی حیثیت سے گزاری، یہ پیغام دیتی ہے کہ مایوسی کے اندھیرے میں امید کے چراغ روشن ہیں۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، قائداعظم نے اسے پاکستان کا دارالحکومت بنایا تھا، یہ شہر قیام پاکستان کے بعد پورے برعظیم کے مسلمانوں کا سب سے بڑا ہجرت کدہ بنا، اسی وجہ سے اس شہر کو منی پاکستان بھی کہا گیا۔ نعمت اللہ خان نے اس شہر کو منی عالم اسلام بھی قرار دیا، کیونکہ اس ملک میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی آبادی موجود ہے۔ یہ شہر جو عالم اسلام کا رہنما شہر تھا اسے نفرت، تعصبات، جاہلانہ قوم پرستی کی آگ میں جلادیا گیا ہے۔ جہاں ہمارے ضمیر فروش مقتدر طاقتور طبقات کے جرائم اور عالمی سازشیں تھیں، وہیں اس شہر نے اپنے اصل کردار کو برقرار رکھنے کے لیے مزاحمت کی غیر معمولی مثال بھی پیش کی۔ ایسی مزاحمت کرنے والے لوگوں میں نمایاں نام نعمت اللہ خان کا ہے۔ تقریباً پوری قوم اس بات سے مایوس ہوچکی تھی کہ کراچی اپنے سابقہ کردار کو دوبارہ بحال بھی کرسکتا ہے، بیشتر گروہوں اور طبقات نے مایوسی اختیار کرکے اپنے ہاتھ پیر ڈال دیے۔ خاص طور پر اس شہر میں ایم کیو ایم کے جبر و استبداد کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی مزاحمتی قوت باقی نہیں بچی تھی۔ ایسے نامساعد حالات میں انہوں نے سید منور حسن کے جانشین کے طور پر جماعت اسلامی کراچی کی قیادت کی۔ اس کے بعد حالات نے کروٹ بدلی اور وہ ذات کہ جو مالک الملک ہے، اس اعلیٰ و برتر ذات نے اس شہر کی مقامی حکومت کی قیادت کے لیے اپنے بندے نعمت اللہ خان کا انتخاب کیا۔ صرف چار برسوں میں اس شہر میں ہر قسم کی تبدیلی کی لہر شروع ہوگئی۔ نعمت اللہ خان کے کاندھوں نے یہ بوجھ 72سال کی عمر میں اٹھایا اور انہوں نے دنیا کو بتایا کہ حکومت کو خدمت کیسے بنایا جاتا ہے۔ گروہی اور سیاسی تعصبات کے دور میں بلاامتیاز شہریوں کی خدمت کیسے کی جاتی ہے، جبکہ نیچے اور اوپر کہیں بھی تعاون موجود نہیں تھا۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا قومی مسئلہ یہ ہے کہ قومی سیاست اور حکمرانی کو ذاتی مفادات حاصل کرنے کے بجائے قومی خدمت کا ذریعہ کیسے بنایا جائے۔ اب تو بات مفاد پرستی سے بڑھ کر مجرمانہ کردار میں تبدیل ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم میں مایوسی کا غلبہ ہے۔ لیکن ایسے مایوس کن حالات میں خدمت اور مزاحمت کی مثال بن کر نعمت اللہ خان اس دنیا سے اپنے رب کے پاس پہنچ گئے ہیں۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی اس شہر کے لیے عبدالستار افغانی کی صورت میں ایک نمونہ اور مثال پیش کرچکی تھی لیکن ہمارے مقتدر طبقات کو جرأت اور محبت کا یہ پیکر برداشت نہیں ہوا اور آج یہ شہر تباہ ہوگیا ہے۔ آج جب نعمت اللہ خان ہم سے جدا ہوکر اپنے رب کے پاس پہنچ گئے ہیں تو ہر آنکھ اشکبار ہے، ہر دل غمزدہ ہے، ہر وہ فرد جو اپنے شہر اور ملک کے حالات سے پریشان ہے، اسے نعمت اللہ خان کی زندگی یہ پیغام دے رہی ہے کہ نظریاتی شخصیات ہی حالات کو تبدیل کرسکتی ہیں، یہ نظریہ اور عقیدہ ہے جو ایک فرد کو دنیا پرستی، تعصبات اور مفاد پرستی سے بلند کرکے انسانوں کا خادم بناسکتا ہے، قوم کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے۔
(یحییٰ بن زکریا صدیقی)