کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے بارے میں کئی بار توجہ دلائی گئی ہے، لیکن تحریر و تقریر میں غلط ہی استعمال ہورہے ہیں۔ تحریر سے مراد اخبارات، اور تقریر سے اشارہ ٹی وی چینلز کی طرف ہے۔ مثلاً ایک بڑا اچھا پروگرام ’’حسبِ حال‘‘ آتا ہے جس میں زبان و بیان کا خیال رکھا جاتا ہے، تاہم اگر اوسط (او۔سط) کو اوسط بروزن حیرت نہ کہا جائے تو اور اچھا۔ اسی طرح بعض سیارے ہیں جن کا تلفظ غلط کیا جاتا ہے جیسے ’مِرّیخ‘۔ اس میں ’م‘ بالکسر ہے، بالضم نہیں۔ ’عُطارِد‘ کا تلفظ تو ہم بھی غلط ہی کرتے ہیں، خاصا مشکل ہے۔ عطارد میں پہلا حرف بالضم، چوتھا بالکسر (عُطا۔ رِد)۔ اب ہم تو آسان سا تلفظ کرتے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ عطارد کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ کتنے ہی لوگ ’غَلَطْ‘ کو بھی تو ’’غلْط‘‘ کہتے ہیں۔ اوپر ایک لفظ ’خاصا‘ آیا ہے۔ ہم اسے لکھتے ہوئے کچھ دیر ضرور سوچتے ہیں کہ یہ ’خاصا‘ ہے یا ’خاصہ‘۔ اردو میں دونوں ہی مستعمل ہیں۔ حفیظ جالندھری کا شعر ہے:۔
غم موجود ہے، آنسو بھی ہیں، کھا تو رہا ہوں، پی تو رہا ہوں
جینا اور کسے کہتے ہیں، اچھا خاصا جی تو رہا ہوں
خاصا ہو یا خاصّہ، ان کا مصدر ’’خاص‘‘ ہوگا۔ عربی کا لفظ ہے اور عربی میں تیسرے حرف پر تشدید ہے۔ فارسی اور اردو میں بغیر تشدید کے مستعمل ہے۔ خاص، عام کا نقیض (ضد، الٹ) ہے۔ مطلب ہے مخصوص، ذاتی، اپنا۔ جیسے یہ خاص آپ کی عنایت ہے۔ عمدہ، منتخب، چیدہ، منظورِ نظر اور مقبول و مرغوب کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ ایک شعر یاد آگیا تو برداشت کریں:۔
خاص ہیں کچھ دل روزِ ازل سے
درد نہیں ہے نعمت عام
اور ’خاصہ‘ کہتے ہیں امراء و سلاطین کے کھانے کو، جیسے ’’سرکار نے خاصہ تناول فرما لیا‘‘۔ لیکن اب سلاطین تو رہے نہیں، اور امراء میں صدر، وزیراعظم یا وزراء کو شامل تو کرلیں لیکن یہ لوگ چھوٹتے ہی پوچھیں گے کہ یہ کیا چیز ہے؟ خاصہ کون ہے اور تناول کدھر ہے؟ بہرحال امراء و سلاطین کی سواری کے گھوڑے کو بھی خاصہ کہتے تھے، جیسے یہ مصرع ’’خاصے جاتے ہیں چمکتے ہوئے بجلی کی طرح‘‘۔ اب ان خاصہ داروں کی سواری موٹر سائیکل سے لے کر پراڈو تک ہے۔ موٹر سائیکل کی آبرو بھی ایک صاحب واوڈا کے دم سے ہے، ورنہ تو یہ سواری مسکینوں کے لیے رہ گئی جس کا فائدہ ٹریفک پولیس کے اہلکار اٹھاتے ہیں۔ شاید کچھ گھرانوں میں اب بھی ’’خاصہ‘‘ چُنا جاتا ہو، جس کا مطلب ہے دستر خوان پر مختلف اقسام کے کھانے رکھنا۔ اب تو لوگ اخبار بچھا کر اس پر کھانا چُن کر یا بغیر چُنے کھا لیتے ہیں، اخبار کا ایک فائدہ یہ بھی ہے۔ کراچی سے جب انگریزی کا ایک رنگین اخبار بڑے اہتمام سے نکلا تو ایک بریگیڈیئر صاحب نے اس کی تعریف یوں کی کہ بہت اچھا اخبار ہے، میری بیگم الماری کی درازوں میں یہی بچھاتی ہے۔ یہ غالباً فوجی دور کی بات ہے۔
خاص سے خاصان بھی ہے۔ یہ فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے خاص لوگ۔ معروف نعت کا ایک مصرع ہے ’’اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے‘‘۔ خاصہ سے خاص دان بنالیا ہے یعنی گلوریوں کے رکھنے کا ظرف۔ عام لفظوں میں پاندان۔ اب شاید ہی کوئی خاص دان کہتا ہو۔ یوں تو اب گھروں میں پاندان رکھنے کا رواج بھی نہیں رہا ورنہ چاندی کے پاندان جہیز میں دیے جاتے تھے اور فخریہ بتایا جاتا تھا کہ یہ دادی یا نانی جہیز میں لائی تھیں۔ اور گلوریاں اب کون بناتا ہے۔ پان کی جگہ گٹکے نے لے لی، اور اس کے لیے گٹکا دان نہیں بنا۔ البتہ بعض پنواڑی گاہکوں کو گلوری بناکر دیتے ہیں۔ پرانی انارکلی میں تو ایک مشہور پنواڑی گلوری اپنے ہاتھ سے منہ میں رکھتے تھے۔ کراچی میں بھی کچھ علاقوں کے پان مشہور ہیں اور لوگ دور دور سے آکر کھاتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کا ایک واقعہ یاد آگیا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مخصوص نائکہ کے کوٹھے پر پہنچے اور فرمایش کی ’’خانم پان لگادیجیے‘‘۔ خانم نے گرگابی پر ہاتھ مار کر پوچھا ’’جوش صاحب، کے لگیں گے؟‘‘ جوش کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو تصحیح کی کہ ’’پان بنا دیجیے‘‘۔ لیجیے صاحب، پان بنانے اور لگانے میں بھی تہذیب، ثقافت اور زبان دانی داخل ہوگئی۔ پان لگائیں یا بنائیں، کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل بات تو کتھے، چونے کے تناسب کی ہے۔ ہم کبھی چھالیہ کے شوق میں پان کھاتے بھی تھے تو پان کے پتے پر کتھا، چونا لگا کر منہ میں رکھ لیتے تھے۔ اب تو چھالیہ ہی ممنوعہ ہوگئی ہے۔
گلوری کو بیڑا (بی ڑا) بھی کہتے ہیں جو محاورے میں اٹھایا جاتا ہے۔ لوگ اس کی جگہ بیڑا (بے ڑا) اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ’بے ڑا‘ بحری جہازوں کا ہوتا ہے جسے اٹھانا ممکن نہیں، البتہ ’بی۔ ڑا‘ ایک چٹکی سے اٹھایا جاسکتا ہے۔ خاصّہ پر اگر تشدید ہو تو یہ عامّہ کی ضد ہے۔ مطلب ہے جو بات کسی کے لیے مخصوص ہو، وہ وصف جو ایک ہی شے میں پایا جائے جیسے ہنسنا انسان کا خاصّہ ہے۔ خاصا اور خاصہ کے اور بھی کئی معانی ہیں۔ خاصیت بھی تو اسی سے ہے۔ سحرؔ کا شعر ہے:۔
جان آئی تنِ بے جاں میں ملا ہاتھ سے ہاتھ
اور اعضا میں بھی خاصیتِ لب ہوتی ہے
پروین شاکر نے بھی یہ مضمون باندھا ہے:۔
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک پھیل گئی تاثیر مسیحائی کی
ایک بہت معتبر رسالہ ہے لیکن اب تک ’’مکاتیب اور مکاتب‘‘ میں فرق نہیں کرتا۔ ایسے ہی ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ سید مودودیؒ نے ہمیشہ ’لمحہ فکر‘ لکھا، لیکن ان سے منسوب رسالے میں ’’لمحہ فکریہ‘‘ پڑھ کر افسوس ہوا۔ اب اگر مضمون نگار بھی یہی غلطی کریں گے تو عجب کیا ہے! پچھلے دنوں جسارت میں ’میعاد‘ کی جگہ ’’معیاد‘‘ چھپا ہے، اور ’معیار‘، ’’میعار‘‘ ہوجاتا ہے۔ اگلے دن صرف احتجاج ہی کیا جاسکتا ہے۔ ’مکاتیب‘ جمع ہے مکتوب کی، یعنی خطوط۔ عربی کا لفظ ہے اور ’مکتوب‘ کا مطلب ہے لکھا گیا:۔
کہہ سکتے ہیں لکھے کو بھلا اب نہ برا ہم
سن کر نہ کہے دوست یہ مکتوب ہے میرا
’مکتوب الیہ‘ تو جانتے ہی ہیں وہ شخص جس کو خط لکھا جائے۔ مونث کے لیے ’مکتوب الیہا‘۔ کسی صاحب کو خط بھیجا گیا جن کا انتقال ہوگیا تھا۔ ڈاکخانے کی طرف سے خط پر لکھ دیا گیا ’’مکتوب الیہ انتقال کرگئے ہیں‘‘۔ اتفاق سے یہ خط دوبارہ ڈاک میں شامل ہوگیا تو اس پر لکھا تھا ’’مکتوب الیہ ہنوز انتقال کیے ہوئے ہیں‘‘۔ اب ڈاکخانے والے اتنی کھکیڑ نہیں کرتے۔ یوں بھی اب خط لکھنے کا رواج ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ پیغام رسانی کی جدید سہولتیں غالب کے زمانے میں ہوتیں تو ’’خطوط غالب‘‘ کا آج تک چرچا نہ ہوتا۔ اور ’مکتب‘ کہتے ہیں لکھنے پڑھنے کی جگہ، وہ مقام جہاں بچوں کو ابتدائی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ شعر تو سنا ہی ہوگا:۔
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
’مکتب‘ عربی میں دفتر یا آفس کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ویسے تو عربی میں مکتب اور کتب کے اور بھی کئی معانی ہیں مثلاً ’’کُتب علیکم الصیام‘‘۔ مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے لیے روزے لکھ دیے گئے، لیکن یہ فرض کرنے کے معنوں آتا ہے، جیسے نماز کے بارے میں کہا گیا کہ نمازیں وقت کے حساب سے فرض کی گئیں۔ یہاں بھی کتاب کا لفظ آیا ہے۔
’’چھٹی ملنا‘‘ اور ’کھلی چھوٹ‘ میں لوگ گڑبڑ کردیتے ہیں اور ’کھلی چھوٹ‘ کی جگہ بھی’’کھلی چھٹی‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں۔ کھلی چھٹی غلط ہے۔