صدر ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں دانت پیستے ہوئے ’ازلامک ٹیررازم‘ یا اسلامی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورۂ ہندوستان جاری ہے۔ اس دورے میں خاتونِ اوّل کے علاوہ اُن کی صاحب زادی ایوانکا ٹرمپ اور دامادِ اوّل جیررڈ کشنر بھی سرکاری وفد کا حصہ ہیں۔ تاہم کوئی امریکی وزیر یا معروف اعلیٰ افسر ان کے ساتھ نہیں۔ اس سے پہلے نریندر مودی اپنے ساتھیوں کو نوید سنا رہے تھے کہ دورے میں امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تجارتی معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔ ’سب سے پہلے امریکہ‘ کے تحت صدر ٹرمپ نے چین، کینیڈا، میکسیکو اور یورپی یونین سمیت کئی ملکوں کی درآمدات پر بھاری محصولات عائد کردیے ہیں۔ ہندوستان سے آنے والی مصنوعات بھی ایسی ہی قدغنوں کا شکار ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے امریکہ نے میکسیکو اور کینیڈا سے باہمی تجارت کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ بھارتی وزارتِ تجارت کے مطابق امریکہ ہندوستان تجارتی معاہدے کو آخری شکل دی جاچکی ہے اور نوک پلک سنوارنے کے بعد جلد ہی مسودے پر دستخط کردیے جائیں گے۔ اس وقت امریکہ کے لیے ہندوستانی برآمدات کا سالانہ حجم 57 ارب 66 کروڑ ڈالر ہے، جس کے مقابلے میں ہندوستان امریکہ سے 34 ارب 40 کروڑ ڈالر کی مصنوعات درآمد کرتا ہے۔ یعنی باہمی تجارت کا پلڑا بھارت کے حق میں جھکا ہوا ہے، جسے برابر کرنے کے لیے ہندوستان نے روایتی درآمدات کے ساتھ امریکہ سے 3 ارب ڈالر کا تباہ کن اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا ہے، اور اگلے برس اسے 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کی بات ہورہی ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ جیسے چالاک تاجر کو وعدۂ فردا پر ٹرخانا آسان نہیں۔ انھوں نے اپنے وزیرتجارت کو باہمی تجارت کا خسارہ 2021ء تک ختم کرنے کا ہدف دیا ہے۔ تجارتی معاہدے پر دستخط کی امید گزشتہ ہفتے اُس وقت دم توڑ گئی جب واشنگٹن سے یہ اعلان ہوا کہ دورۂ ہندوستان میں امریکی وزیر تجارت صدر ٹرمپ کے ساتھ نہیں ہوں گے۔ اب گزشتہ روز امریکی وزارتِ تجارت کے حوالے سے خبر آئی کہ نومبر میں امریکی انتخابات سے پہلے امریکہ ہند تجارتی معاہدہ مشکل ہے۔
امریکی صدر کے دورے کی تیاری ایک عرصے سے جاری تھی۔ گزشتہ سال وزیراعظم مودی امریکہ آئے تھے۔ اُن کا یہ دورہ بنیادی طور پرامریکی ریاست ٹیکساس (Texas) تک محدود تھا جو تیل و گیس کا عالمی مرکز ہے۔ ٹیکساس کے لوگ سلام، کلام اور رسمی مزاج پرسی کے لیےHow do you do?کو مختصر کرکے اپنے مخصوص جنوبی تلفظ میں Howdy کہتے ہیں، چنانچہ دورے کو مقامی روایات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے Howdy Modi کا نام دیا گیا اور اسی وزن اور بحر پر صدر ٹرمپ کے دورۂ ہندوستان کے لیے ’نمستے ٹرمپ‘ کا عنوان تراشا گیا۔ تاہم بنیادی فرق یہ تھا کہ وزیراعظم مودی کی آئو بھگت اور ہیوسٹن میں استقبالیے کا انتظام ٹیکساس میں آباد ہندوستانیوں نے کیا تھا، اور عام امریکیوں کی جانب سے کسی دلچسپی کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا تھا، بلکہ مودی جی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں میں خاصے امریکی موجود تھے۔ دوسری طرف ہندوستان میں صدر ٹرمپ کا استقبال عوامی سطح پر کیا گیا، ہوائی اڈے سے کرکٹ اسٹیڈیم تک سڑک کے دونوں طرف خواتین روایتی رقص پیش کررہی تھیں اور صدر ٹرمپ کی تقریر سننے کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ ہندوستانی اسٹیڈیم میں جمع تھے۔
اس موقع پر ہندوستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ثابت کرنے کی مصنوعی اور بھونڈی کوشش بھی کی گئی۔ ائرپورٹ سے اسٹیڈیم کے راستے میں سڑک کے کنارے پر بدنما کچی بستیاں بھی ہیں۔ اسی راستے سے صدر ٹرمپ کے قافلے کو گزرنا تھا، چنانچہ غربت کے نشانات کو چھپانے کے لیے کروڑوں روپئے کے صرفے سے دیوار تعمیر کردی گئی، اور اسٹیڈیم کے قریب آباد کچھ خاندانوں کو وقتی طور پر بے دخل کرکے گھروں کے آگے تہنیتی نعروں سے آراستہ قدآدم بورڈ نصب کردیے گئے۔ کاش کوئی مودی جی کو بتاتا کہ قناتیں تاننے اور دیواریں کھڑی کرنے سے معاشرے خوشحال نہیں ہوتے، اور نہ ہی چونے کی تغاری میں ڈبکی دے کر کوّے کو ماہِ لقا بنایا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات کہ یہ خبریں عالمی میڈیا کی زینت ہیں اور ساری دنیا اس بے وقوفی پر ہنس رہی ہے۔
دِلّی سرکار کی اس حماقت کے ساتھ صدر ٹرمپ کے ’لاابالی انداز‘ نے امریکی حکومت کو بھی شرمندہ کردیا۔ روایت کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے احمد آباد کے مضافاتی علاقے سابرمتی میں مہاتما گاندھی کی تاریخی رہائش گاہ (آشرم) پر حاضری دی، جس کے بعد زائرین کی کتاب میں تبصرہ لکھتے ہوئے امریکی صدر نے گاندھی جی کا ذکر تک نہیں کیا۔ صدر ٹرمپ نے لکھا’’میرے عظیم دوست وزیراعظم مودی کے نام۔ اس شاندار دورے کے لیے آپ کا شکریہ‘‘۔
ہندوستانی دانشور اور سیاست دان صدر ٹرمپ کے تاثرات کو اُن کی بے حسی اور خراب سفارت کاری سے تعبیر کررہے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اس قومی تذلیل کی بنا پر صدر ٹرمپ کی استقبالیہ تقریبات سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی تقریب کے لیے حزبِ اختلاف کو دعوت نامہ بھیجا ہی نہیں گیا تو بِن بلائے مہمان کے بائیکاٹ کی کیا حیثیت ہے!
صدر ٹرمپ کے ہندوستان آنے سے چند دن پہلے امریکی صدر کی جغرافیہ کے بارے میں معلومات پر ایک دلچسپ انکشاف ہوا۔ واشنگٹن پوسٹ کے صحافیوں فلپ رکر اور محترمہ کیرل لیونگ کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب A very stable Genius میں کہاگیا ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی سے اپنی پہلی ملاقات میں امریکہ چین تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے نریندر مودی سے کہا ’’شکر ہے آپ کی سرحدیں چین سے نہیں ملتیں‘‘۔
تجارتی معاہدے میں تاخیر، امریکی اسلحہ کی خریداری پر زور، غریب بستیوں کے آگے دیوار کی تعمیر، اور مہاتما گاندھی کے حوالے سے ہندوستانیوں کے جذبات کے عدم احترام سے قطع نظر صدر ٹرمپ اس دورے میں اپنے روایتی قدامت پسند اور متعصانہ حد تک مسلم مخالف بیانیے کا اعادہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ اُن کی تقریر اور بدن بولی تقریباً ویسی ہے جس کا مشاہدہ گزشتہ برس ہیوسٹن میں ہوا تھا۔ تاہم اِس بار ہندوستان اور وزیراعظم مودی کے لیے اُن کے پیار و سپردگی میں جو والہانہ پن ہے وہ اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں دانت پیستے ہوئے ’ازلامک ٹیررازم‘ یا اسلامی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ امریکی صدر، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور مودی کی نظریاتی مثلث مسلم مخالف منشور پر یکسو ہے۔ بین الاقوامی فورمز پر ان تینوں حضرات کی تقریروں میں الفاظ کا انتخاب اور ادائیگی کا انداز بالکل ایک سا ہوتا ہے۔
پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ میری انتظامیہ پاکستان کی سرحد پر انسدادِ دہشت گردی کے لیے اسلام آباد کے ساتھ مل کر مثبت انداز میں کام کررہی ہے۔ ہمارے پاکستان سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور اس معاملے میں پاکستان کی پیش رفت مثبت ہے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ امریکی حکومت اور پاکستان مل کر دہشت گرد گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن کررہے ہیں۔ اس موقع پر انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہم جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں کمی کے خواہاں ہیں اور امریکہ و بھارت مل کر اسلامی دہشت گردوں سے اپنے عوام کا دفاع کریں گے۔
عمران حکومت کے حامی اور احساسِ کمتری کا شکار پاکستانی وزارتِ خارجہ کے بابو حضرات پاکستان کے بارے میں صدر ٹر مپ کے الفاظ کو پاکستان کی تعریف اور کپتان کی کامیاب خارجہ پالیسی کا ثبوت قرار دے رہے ہیں، حالانکہ اگر بین السطور پڑھا جائے تو صدر ٹرمپ نے سرحد پار دراندازی کے ہندوستانی الزام کو درست قرار دیتے ہوئے مودی جی کو یقین دلایا کہ ہماری گوشمالی سے پاکستان سدھر رہا ہے، اور جب تک وہ اچھا بچہ نہیں بن جاتا ہم اسلام آباد پر دبائو برقرار رکھیں گے۔
ہندوستانی ثقافت سے اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے بھنگڑا اور بالی ووڈ کی فلموں کا نام لے کر تعریف کی اور غلط تلفظ کی زحمت سے بچنے کے لیے دل والے دلہنیا لے جائیں گے کے بجائے اس کا انگریزی مخفف DDLJ ادا کرنے پر اکتفا کیا۔ صدر ٹرمپ نے تالیاں بجاتے ہجوم کو بتایا کہ وہ بالی ووڈ کے ممتاز اداکاروں شاہ رخ خان، امیتابھ بچن اور دھرمیندر کے قدردان ہیں۔ دلچسپ بات کہ 4 برس پہلے سابق صدر اوباما نے بھی ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کا ذکر کیا تھا، بلکہ سابق صدر نے اس فلم میں شاہ رخ خان کا ادا کیا گیا ایک مکالمہ بھی دہرایا تھا۔
دوسری طرف یہ تاثر دینے کے لیے کہ جموں و کشمیر میں صورتِ حال معمول کے مطابق ہے، 24 فروری سے وادی کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کا اعلان بھی کردیاگیا۔ ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ اسکول کھلنے پر بچوں کی حاضری کتنی رہی؟ اسکول واقعی کھل گئے یا یہ محض علامتی کارروائی ہے؟ جموں وکشمیر کے 14 ہزار کے قریب تعلیمی ادارے گزشتہ برس اگست سے بند ہیں جب آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ساری وادی میں کرفیو لگادیا گیا۔
ہندوستان سے امریکی قربت کا آغاز صدر اوباما کے دور میں ہوا تھا، جب 2012ء میں امریکہ کی نئی فوجی حکمتِ عملی کا اعلان کرتے ہوئے سابق امریکی صدر نے بحرالکاہل اور بحرہند کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا۔ جب ایک صحافی نے اس نظرِکرم کی وجہ دریافت کی تو امریکی صدر نے فرمایا کہ یہ ایک مصروف تجارتی شاہراہ ہے اور اس آبی راستے کی نگرانی ہماری سلامتی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ واشنگٹن کے عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ روس کے زوال کے بعد دنیا کی اسلامی قوتیں امریکہ کے لیے خطرے کا باعث تھیں، لیکن گزشتہ دس بارہ سال میں اسلامی مزاحمت کچلی جاچکی ہے۔ عرب دنیا کی اسلامی تحریکیں زبردست عوامی حمایت کے باوجود دفاعی پوزیشن پر ہیں اور شمالی افریقہ و مشرق وسطیٰ میں ابھرنے والی نئی قیادت امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے کے موڈ میں نہیں۔ چنانچہ امریکہ کی توجہ اب چین کی جانب ہے جو معاشی دوڑ میں بہت آگے نکل چکا ہے اور بلا استثنیٰ دنیا کی چھوٹی بڑی ہر منڈی میں ’میڈ اِن چائنا‘ مصنوعات کا غلبہ نظر آتا ہے۔ چین کے گھیرائوکے لیے بحرالکاہل سے بحرہند کو ملانے والی آبنائے ملاکا کی نگرانی اور خلیج بنگال پر گرفت مضبوط رکھنا امریکہ کی ضرورت ہے، اور یہ کام ہند نائو سینا (بحریہ) کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔
صدر ٹرمپ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد عسکری اور تزویراتی ضرورت کے ساتھ بے مثال نظریاتی ہم آہنگی نے صدر ٹرمپ اور نریندر مودی کو یک جان دوقالب بنادیا ہے۔ آج کل ان دونوں رہنمائوں کو سیاسی محاذ پر بھی کچھ آزمائشوں کا سامنا ہے۔ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کے بعد شہریت کے قوانین المعروف CAAمیں ترمیم کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان میں بے چینی ہے بلکہ مہذب دنیاکو بھی اس پر شدید تحفظات ہیں۔ بھارتی معیشت کے بھاری بھرکم حجم کی وجہ سے مودی جی کو پابندیوں یا سفارتی تنہائی کا ڈر تو نہیں، لیکن ان کی حکومت انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ حال ہی میں دِلّی کے انتخابات میں نریندر مودی کی جماعت کو شرمناک شکست ہوچکی ہے جس کی وجہ سے موصوف شدید دبائو میں ہیں، اور اس موقع پر امریکہ کی جانب سے بھرپور حمایت اُن کے لیے حبس میں تازہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔
اُدھر صدر ٹرمپ کو عام انتخابات کا سامنا ہے۔ چند ہفتے پہلے تک تو ایسا لگ رہا تھا کہ حزبِ اختلاف میں شدید اختلافات کی بنا پر انھیں دوسری مدت کا انتخاب جیتنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں صدارتی ٹکٹ کے لیے کردارکشی اور الزام تراشی کی مہم جاری ہے، اور آبروریزی کا یہ سلسلہ جولائی میں ٹکٹ کے اجرا تک جاری رہے گا۔ جبکہ ری پبلکن پارٹی میں ٹکٹ کے لیے صدر ٹرمپ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا، چنانچہ وہ پُراعتماد انداز میں اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ حکمراں جماعت پوری طرح ان کی پشت پر ہے، اس لیے وہ اپنی کامیابی کے لیے خاصے پُراعتماد ہیں، لیکن گزشتہ دس دنوں میں برنی سینڈرز کی پے در پے تین کامیابیوں سے ملک کا قدامت پسند طبقہ کچھ فکرمند ہوگیا ہے۔ 22 فروری کو نواڈا کے انتخابات میں پولنگ اسٹیشنوں پر ہسپانوی اور سیاہ فام نوجوانوں کا زبردست ہجوم تھا، اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نوجوان ووٹر برنی سینڈرز کے حق میں پُرجوش نظر آرہے ہیں۔ اگر پرائمری انتخابات کے دوران برنی سینڈرز خواتین، سیاہ فام اور ہسپانویوں کے طوفان اٹھانے میں کامیاب ہوگئے تو پانسہ پلٹنا خارج از امکان نہیں۔
اس مرحلے پر صدر ٹرمپ ملک کے اندر اور باہر اپنے حامیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ صدارت کے ساتھ نومبر میں سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں اور ایوانِ نمائندگان کا چنائو بھی ہورہا ہے۔ کئی انتخابی حلقوں میں ہندو ووٹروں کی تعداد فیصلہ کن ہے۔ مالی اعتبار سے بھی ہندوستانی خاصے مستحکم ہیں۔ امریکی سیاست میں مسلمانوں نے 9/11 کے بعد دلچسپی لینا شروع کی، لیکن ہندوستانی 1990ء سے بے حد منظم ہیں۔ درجنوں ہندوستانی انتخابات میں براہِ راست حصہ لے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ ہندوستانیوں کو اپنے حق میں متحرک کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمان برنی سینڈرز کے حق میں پُرجوش ہیں، لہٰذا امریکی صدر ہندو ووٹروں کا فطری انتخاب ہیں۔ ’’ازلامک ٹیررازم‘‘ کا ورد، مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی اور مسلم مخالف بیانیے نے صدر ٹرمپ کو ہندوآبادی میں بے حد مقبول بنادیا ہے۔ نریندر مودی اور ہندوستان سے صدر ٹرمپ کے غیر معمولی پیار و دلارکی ایک اہم اور فوری وجہ امریکی ہندوئوں کے ووٹ اور نوٹ ہیں جس کی ری پبلکن پارٹی کو آج کل سخت ضرورت ہے۔ یعنی اس طرف ہے گرم خوں اور ان کو عاشق کی تلاش والا معاملہ ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا امریکی صدر کا دورہ ابھی جاری ہے۔ پیر کو رسمی تقریبات منعقد ہوئیں۔ منگل کے روز کئی اہم ملاقاتیں اور دفاعی نوعیت کے کچھ اہم معاہدے متوقع ہیں۔ ان ملاقاتوں میں افغانستان کا معاملہ بھی زیربحث آئے گا جس میں امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں ہندوستان کے کردار پرسوچ و بچار ہوگی۔ نریندر مودی پاکستان کے حوالے سے دراندازی سمیت دہشت گردی کا پٹارہ ضرور کھولیں گے، ساتھ ہی وہ 370 کی منسوخی کو ہندوستان کا داخلی معاملہ قراردینے کا سرکاری اعلان، پاکستان کی کشمیر سے دست برداری اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے کے لیے اسلام آباد پر دبائو ڈالنے کا مطالبہ کریں گے۔ FATF سلیٹی فہرست کی صورت میں امریکہ اور ہندوستان کے پاس ترپ کا پتّا موجود ہے جسے مہارت کے ساتھ کھیل کر پاکستان کو مدارس کے خلاف کارروائی اور حافظ سعید کی ذلت آمیز سزا پر مجبور کیا جاچکا ہے۔ اگلے تین مہینوں میں FATFکے نام پر چند مزید ذلت آمیز مطالبات کی منطوری ناممکن نہیں۔
…………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔