نکل گئے وہ جو بادل برسنے والے تھے
یہ شہر آب کو ترسے گا چشم تر کے بغیر
جماعت اسلامی کراچی کے سابق امیر اور شہرِ قائد کے سابق ناظم نعمت اللہ خان کراچی میں انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی عمر 89 سال تھی۔
سلیم احمد کی ایک ہی غزل کے دو شعر عجیب ہیں۔ سلیم احمد کی غزل کا ایک شعر یہ ہے:۔
یہ شہر ذہن سے خالی نمو سے عاری ہے
بلائیں پھرتی ہیں یاں دست و پا و سر کے بغیر
اس شعر میں ایم کیو ایم کے ’’ظہور‘‘ اور اس کے ’’نتائج‘‘ کی پیشگوئی موجود ہے، حالانکہ یہ غزل 1970ء کی دہائی کے اواخر میں کہی گئی۔ سلیم احمد کی غزل کا دوسرا شعر یہ ہے:۔
نکل گئے وہ جو بادل برسنے والے تھے
یہ شہر آب کو ترسے گا چشمِ تر کے بغیر
سلیم احمد کا یہ شعر کراچی کے بارے میں نہیں ہے مگر کراچی میں ایسے کئی لوگ تھے جنہیں آنکھ بند کرکے ’’برسنے والے بادل‘‘ اور چشم تر سے تشبیہ دی جا سکتی تھی، مثلاً محمد حسن عسکری پر اس شعر کا اطلاق ہوتا ہے، مفتی محمد شفیع کے لیے یہ شعر پوری طرح کفایت کرتا ہے، مولانا ایوب دہلوی اس شعر کا مصداق تھے، سلیم احمد خود ایک برسنے والا بادل اور ایک چشمِِ تر تھے، اشتیاق حسن قریشی کی شخصیت بھی اس شعر کی معنویت سے ہم آہنگ تھی، پروفیسر غفور احمد پر بھی اس شعر کی معنویت کا سایہ تھا، نعمت اللہ خان صاحب کی شخصیت بھی اپنے دائرے میں اس شعر کے مفہوم سے روشن تھی۔
نعمت اللہ صاحب کی جماعتی زندگی بھی بھرپور تھی۔ انہوں نے پوری زندگی ایک ایسی جماعت کے ساتھ بسر کی جو برصغیر میں غلبۂ دین کی جدوجہد کرنے والی واحد جماعت ہے، جس کے پاس دین کی جامعیت کا تصور بھی ہے اور اس تصور کو بیان کرنے والا غیر معمولی انقلابی لٹریچر بھی۔ لیکن کراچی کے ناظم کی حیثیت سے نعمت صاحب کی شخصیت حقیقی معنوں میں ’’کراچی گیر‘‘ بن کر ابھری۔ ان کی نظامت کے دور میںہم نے پہلی بار جماعت اسلامی کو کراچی میں مقبولیت کے معنوں میں ’’عوامی‘‘ بنتے دیکھا۔ نعمت صاحب مزید چار سال کراچی کے ناظم رہ جاتے تو وہ سیاسی اور عوامی معنوں میں کراچی کی اہم ترین شخصیت بن کر ابھر سکتے تھے۔ ہم نے ایک بار نہیں کئی بار عوامی اجتماعات میں عقیدت سے لوگوں کو اُن کے ہاتھ چومتے دیکھا۔ ایسا کرنے والے جماعت اسلامی کے لوگ نہیں تھے۔ جماعت میں ہاتھ چومنے کا کلچر موجود نہیں۔ یہ عام لوگ تھے، اور انہیں نعمت اللہ صاحب کی غیرمعمولی عوامی خدمت پر ردعمل کا یہی اسلوب پسند تھا کہ وہ ان کے ہاتھ چوم لیں۔
نعمت اللہ خان صاحب نے ناظمِ کراچی کی حیثیت سے شہر کی جو خدمت کی وہ کئی اعتبار سے’’تاریخ ساز‘‘ ہے۔ نعمت صاحب نے شہر کی نظامت سنبھالی تو بلدیہ کراچی کا بجٹ صرف 6ارب روپے تھا۔ نعمت صاحب نے صرف چار سال کی قلیل مدت میں کوئی ٹیکس لگائے بغیر یہ بجٹ 42 ارب روپے تک پہنچا دیا۔ نعمت صاحب ناظم بنے تو انہوں نے ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں ہم نے اُن سے عرض کیا کہ کراچی میں ایک درجن سے زیادہ بڑے ادارے شہر کے ڈھانچے اور سہولتوں کو استعمال کرتے ہیں مگر وہ کراچی کو کچھ بھی نہیں دیتے، آپ ان اداروں کو شہر کے وسائل میں حصہ ڈالنے پر مائل کریں۔ نعمت صاحب نے یہ تجویز جنرل پرویزمشرف کے سامنے رکھی۔ جنرل پرویزمشرف کو یہ تجویز پسند آئی اور انہوں نے کئی بڑے اداروں کو مجبور کیا کہ وہ کراچی کو اضافی وسائل مہیا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس سے بلدیہ کو کئی ارب روپے کا فائدہ ہوا۔ ہم نے نعمت صاحب سے یہ بھی کہا تھا کہ کراچی صرف مہاجروں یا سندھیوں کا شہر نہیں، اس کے وسائل پر پورے ملک کا حق ہے، اور کے پی کے اور پنجاب کے لاکھوں لوگ آکر کراچی میں آباد ہیں، چنانچہ آپ دوسرے صوبوں کی حکومتوں سے کراچی کے لیے خصوصی فنڈ مہیا کرنے کے لیے رابطہ کریں۔ نعمت صاحب کو مزید چار سال ملتے تو وہ شاید اس تجویز پر بھی عمل کرتے۔
نعمت صاحب نے شہر کی ذمے داری سنبھالی تو اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ اس لیے کہ شہر کے تمام چھوٹے بڑے اداروں پر ایم کیو ایم اور اُس کے کارکنوں کا مکمل قبضہ تھا۔ مگر نعمت صاحب چار سال تک شہر کی اس طرح خدمت کرتے نظر آئے جیسے وہ مکمل طور پر آزاد اور بااختیار ہوں۔ اس دوران انہوں نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ایم کیو ایم مجھے کام نہیں کرنے دے رہی۔ شہر اس وقت بھی ایم کیو ایم کی گرفت سے مکمل آزاد نہیں ہے، مگر ایم کیو ایم کا میئر وسیم اختر ہر دوسرے دن خزانہ خالی ہونے کا ماتم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ سندھ حکومت اسے کچھ کرنے ہی نہیں دیتی۔ اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار تک نے کہہ دیا ہے کہ آپ اتنے ہی بے اختیار ہیں تو مستعفی کیوں نہیں ہوجاتے؟ نعمت صاحب پر اللہ کا کرم تھا کہ انہوں نے ہزاروں مشکلات کے باوجود کبھی اپنی مجبوری اور معذوری کا ماتم نہیں کیا، اور شہر کی وہ خدمت کی کہ پورا شہر اش اش کر اٹھا۔ بلاشبہ نعمت صاحب کے اس رویّے میں اُن کی شخصی خوبیوں کا بھی دخل تھا مگر اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی تعلیم و تربیت کا بھی اہم کردار تھا۔ اس تعلیم و تربیت کے بغیر نعمت صاحب، نعمت صاحب نہیں ہوسکتے تھے۔ انہوں نے ہم سے خود کئی بار یہ بات کہی کہ میں جو کچھ ہوں مولانا کی فکر اور جماعت اسلامی کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے ہوں۔
جماعت اسلامی کے دائرے میں ہم نے کئی لوگوں کو نعمت صاحب کے مزاج میں موجود سختی کی شکایت کرتے دیکھا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی بات میں وزن ہو، مگر ہم نے کئی بار نعمت صاحب کے مزاج کی سختی ’’اصولوں کے دفاع‘‘ کے لیے بروئے کار آتے دیکھی۔ ایک روز نعمت صاحب نے ہمیں کسی مشورے کے لیے اپنے دفتر میں بلایا ہوا تھا، کہ اتنے میں جماعت اسلامی کے ایک دیرینہ رکن ایک مسئلہ لے کر نعمت صاحب کے پاس تشریف لائے۔ اُن کا مسئلہ یہ تھا کہ اُن کے کسی خالی پلاٹ پر کسی نے قبضہ کرلیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ نعمت صاحب اس سلسلے میں اُن کی مدد کریں۔ نعمت صاحب نے اُن سے پوچھا کہ کیا آپ پلاٹ کے کاغذات اپنے ساتھ لائے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ’’کاغذات‘‘ تو میں نہیں لایا ہوں۔ نعمت صاحب نے کہا کہ پہلے کاغذات لائیں پھر میں کچھ کروں گا۔ مسئلے کا شکار بزرگ غلط بیانی نہیں کررہے تھے اور اُن کی بات پر اعتبار نہ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہ آتی تھی، مگر نعمت صاحب نے ’’ٹھوس شہادت‘‘ کے بغیر اُن کی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان کی کسی اور جماعت کے دائرے میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اتنے معمولی سے کام کے لیے بھی کوئی اپنی جماعت کے آدمی سے ٹھوس شہادت طلب کرلے گا۔
نعمت صاحب کراچی کے لیے بڑے بڑے منصوبے بنائے بیٹھے تھے۔ اُن کی سب سے زیادہ دلچسپی کراچی کے لیے فراہمیِ آب کے منصوبے K-4 میں تھی۔ نعمت صاحب کو مزید چار سال مل جاتے تو وہ یہ منصوبہ مکمل کرا دیتے۔ اس منصوبے سے کراچی کو یومیہ 650 ملین گیلن اضافی پانی فراہم ہوجاتا اور کراچی میں قلتِ آب کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوچکا ہوتا۔ نعمت صاحب نے ہمیں خود بتایا کہ وہ کراچی کے لیے ’’مونو ٹرین‘‘ کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں ملائشیا کی کسی کمپنی سے اُن کی ابتدائی بات چیت ہوچکی ہے۔ وہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور شہر میں بڑی بسوں کی تعداد میں اضافے کا بھی منصوبہ بنائے ہوئے تھے۔ نعمت صاحب کو مزید چار سال مل جاتے تو شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے پر قابو پانا ممکن ہوسکتا تھا۔
نعمت صاحب صرف چار سال کراچی کے ناظم رہے مگر انہوں نے چار سال میں اتنے کام کیے جیسے وہ کراچی کو آٹھ سال تک چلاتے رہے ہوں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نعمت صاحب کی انتھک محنت نے اُن کے چار سال کو آٹھ سال کے مساوی بنادیا تھا۔ نعمت صاحب کا اعزاز ہے کہ ان کے بعد مصطفیٰ کمال نے جتنے کام کیے وہ نعمت صاحب کے منصوبوں کے مطابق تھے، یعنی نعمت صاحب ناظم نہ رہے تو بھی اُن کے کام کا تسلسل باقی رہا۔ نعمت صاحب صرف محنت ہی کی نہیں، دیانت و امانت کی بھی علامت تھے۔ یہ تینوں چیزیں جماعت اسلامی کے امتیازی تشخص کا حصہ ہیں۔ نعمت صاحب نے صرف امیر جماعت اسلامی کراچی کی حیثیت سے نہیں، ناظمِ کراچی کی حیثیت سے بھی جماعت کے امتیازی تشخص کی حفاظت کی۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
جماعت اسلامی کراچی اور اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے ایم کیو ایم کے ظلم و جبر کا جس طرح مقابلہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایم کیو ایم کے جبر کے 35 برسوں میں جماعت اور جمعیت نہ ایم کیو ایم کے جبر و ظلم سے ڈریں نہ میدان چھوڑ کر بھاگیں۔ اس سلسلے میں سید منور حسن اور نعمت اللہ خان کی شخصی مثالیں ششدر کرنے والی ہیں۔ سید منور حسن سے جب بھی پوچھا گیا کہ ایم کیو ایم کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے پوری بے خوفی سے کہا کہ ایم کیو ایم سیاسی جماعت نہیں ہے، وہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ سید صاحب کی گاڑی پر ایک بار فائرنگ بھی ہوئی مگر انہوں نے ہمیشہ وہی کہا جو حق تھا۔ نعمت اللہ خان صاحب کی گاڑی پر بھی ایک بار فائرنگ ہوئی۔ نعمت صاحب اُس دن کسی اجتماع میں جارہے تھے۔ ان کے ڈرائیور نے واپسی پر مشورہ دیا کہ راستہ بدل لیتے ہیں۔ مگر نعمت صاحب نے راستہ بدلنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ڈرائیور سے چار سگریٹ خریدنے کے لیے کہا اور پھر اُس مقام پر جاکر گاڑی کھڑی کروا دی جس مقام پر اُن کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد نعمت اللہ خان گاڑی سے نکلے اور انہوں نے گاڑی سے نکل کر دو سگریٹیں ختم کیں۔ یہ ’’ناممکن‘‘ کو ’’ممکن‘‘ بنانے کا عمل تھا، اور یہ بوجھ صرف مولانا مودودیؒ کے وارثین ہی اٹھا سکتے تھے۔ اتفاق سے یہ سعادت بھی وہی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے:۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
نعمت صاحب میں بلا کا انکسار تھا۔ ایک دن ہم ادارہ نورحق میں تھے کہ وہ کہیں سے تشریف لائے۔ ہمارے ساتھ کئی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ آتے ہی کہنے لگے ’’ابھی ابھی بی بی سی کی اردو سروس کو انٹرویو دے کر آیا ہوں، موضوع اسلام اور مغرب تھا۔ بھئی میں نے آپ کے گزشتہ کالم کے بنیادی نکات دہرا دیے‘‘۔ تنہائی میں اُن سے ملاقات ہوئی تو ہم نے اُن سے عرض کیا کہ ’’آپ نے یہ کیا کیا؟ ہم تو آپ کی اولاد کی طرح ہیں، بھلا کوئی اولاد جیسوں سے بھی وہ کچھ کہتا ہے جو آپ نے کہا اور وہ بھی کئی لوگوں کے سامنے!‘‘ یہ سن کر مسکرائے، کہنے لگے ’’بھئی میں نے نہ جھوٹ بولا، نہ مبالغے سے کام لیا، جو حقیقت تھی وہی بیان کی۔‘‘
نعمت صاحب ناظمِ شہر بنے تھے تو ہم نے ان سے عرض کیا تھا کہ وہ بنیادی ٹیم تشکیل دے کر کام کریں۔ لیکن ہم نے انہیں اُن کی نظامت کے چار برسوں میں One Man Army کے طور پر کام کرتے دیکھا۔ معلوم نہیں یہ ان کی ذاتی پسند تھی یا مجبوری، لیکن یہ بات طے ہے کہ اگر وہ ٹیم بنا کر کام کرتے تو کراچی پر اُن کے زیادہ گہرے اثرات مرتب ہوتے۔