مرد قلندر نعمت اللہ خان

سجاد میر
میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے، اور ان سے ایک خاص رشتہ بھی تھا۔ کامیاب لوگ ایسے ہوتے ہیں، جس شعبے میں جائیں اُس کے سارے تقاضے پورے کریں۔ وہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر رہے۔ یہ وہ عہدہ ہے جو جماعت میں امیر جماعت اسلامی پاکستان کے بعد سب سے اہم گنا جاتا تھا۔ وہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے ناظم بھی رہے۔ یہ وہ واحد بلدیہ تھی جس پر اس نظام کو مرتب کرنے والوں کو ناز تھا۔ شاید اس نظام کے واحد لارڈ میئر ہی کامیاب گنے گئے۔ پھر الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے سربراہ بنے جو پاکستان کی سب سے بڑی این جی او تھی۔ یہ ذمہ داری اُن کے سپرد اُس وقت ہوئی جب وہ 72 برس کے تھے، اور جس طرح پیرانہ سالی میں انہوں نے اس ذمہ داری کو نبھایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
نعمت اللہ خان ایک غیر معمولی آدمی تھے۔ میں نے سطورِ بالا میں کہا کہ اُن سے خصوصی رشتہ تھا۔ وہ میرے وکیل بھی تھے۔ جب 1979ء میں ہفت روزہ ’’تعبیر‘‘ کی اشاعت کا فیصلہ کیا تو اس کے تمام قانونی معاملات کے لیے اُن سے رجوع کیا، بالکل ایسے جیسے لاہور میں ہمارے یہ کام محمود مرزا کیا کرتے تھے۔ نیا ادارہ بنانا، اس کے ٹیکس کے معاملات کی نگرانی کرنا… یہ آسان کام نہ تھا، وہ یہ کام کسی معاوضے کے بغیر کرتے تھے۔ ان کا دفتر اس علاقے میں تھا جہاں پر دراصل کراچی آباد ہے۔ بندرگاہ کے گرد کا علاقہ۔ میں شاید ایک بار اُن کے پاس وہاں گیا تھا۔ پھر وہ مجھے تلاش کرتے تھے۔ اُن دنوں موبائل بھی نہ ہوتا تھا اور میرا لاابالی پن تب بھی عروج پر تھا۔
میں نے ایک بار نعمت اللہ خان کا تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔ کیا کہانی ہے۔ ہندوستان سے لُٹ پٹ کر پاکستان آئے، اور اپنی مرضی سے آئے کہ وہ تمام پاکستان کے کام کرتے رہے۔ صرف میٹرک پاس تھے۔ نیا شہر، نئے مسائل۔ اپنے شہر میں خوشحال تھے۔ یہاں نئے چیلنج تھے۔ پاس کچھ بھی نہ تھا، نہ گھر نہ نوکری۔ محنت مزدوری سے آغاز کیا۔ والدہ نے کہا گھر لو گے تو آئوں گی۔ لکھ بھیجا کہ گھر کا بندوبست ہوگیا ہے، آجائیے۔ جب آئیں تو معلوم ہوا مزارِ قائد کے گرد جو کھلی زمین ہے اُس میں ایک جھگی الاٹ ہوگئی ہے۔ بتاتے تھے کہ والدہ آئیں تو ان کے آنسو نکل پڑے۔ بارش ہوتی تو یہ جھگی ٹپ ٹپ ٹپکتی اور والدہ چارپائی پر چولہا رکھ کر کھانا پکاتیں۔ ایسے تھے پاکستان بنانے والے۔ خان صاحب نے صحافت میں ایم اے کیا۔ یہ کام اُن دنوں پنجاب یونیورسٹی سے ہوتا تھا۔ کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔ وکالت شروع کی تو دیکھتے دیکھتے انکم ٹیکس کارپوریٹ سیکٹر کے ایسے بڑے وکیل بنے کہ ایک جھگی نشین نے جلد ہی اپنا گھر بنالیا۔
یہ گھر غالباً 1500 گز پر تھا، ناظم آباد کی بستی میں۔ میرا اس کے سامنے اکثر گزر ہوتا۔ سید منور حسن کراچی کے امیر تھے اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں بیٹھتے تھے۔ میں اکثر ادھر ہی ہوتا تھا۔ جب ظہر کے بعد گھر جانا ہوتا تو منور صاحب میری موٹر سائیکل پر نکلتے۔ گاڑی موجود ہوتی، مگر وہ یہی طریقہ اختیار کرتے۔ راستے میں اس گھر کے سامنے سے گزرتے جس پر گلاب محل لکھا ہوتا۔ اس کے نزدیک ہی نعمت اللہ خان کا گھر تھا۔ ابھی وہ جماعت میں عملاً شامل نہیں ہوئے تھے۔ ان دنوں کراچی میں جماعت کے لوگوں میں پروفیسر غفور احمد کے بعد صرف اُن کا گھر اتنا کشادہ تھا جہاں اجتماعات ہوسکتے تھے، اور ہوا کرتے تھے۔ نعمت اللہ خان جماعت میں شریک ہوگئے تھے۔ اس سے پہلے بے ریش تھے، عمدہ لباس پہنتے تھے۔ جس تیزی کے ساتھ میں نے انہیں اس نئے رول میں دیکھا وہ حیران کن تھا۔ وہ جلد ہی جماعت اسلامی کراچی کے امیر بن گئے۔ سید منور حسن کو گھر کی ضرورت پڑی تو ان کے اسی گھر کی چھت پر اُٹھ آئے۔ ایک کمرہ تھا جس میں سیڑھیاں کھلتی تھیں۔ اس کی پشت پر کھلی چھت میں باورچی خانہ اور ٹوائلٹ ہوگا۔ ہم نے تو گرمیوں کی دوپہروں میں بھی یہاں منور صاحب کی مہمان نوازی کا لطف اٹھایا ہے۔ وہ برسوں اس کمرے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہے، پھر لاہور منتقل ہوگئے۔
میں نے عرض کیا کہ جماعت اسلامی کراچی کی امارت ایک زمانے میں امیر جماعت اسلامی پاکستان کے بعد سب سے اہم گنی جاتی تھی۔ میں نے لیجنڈری چودھری غلام محمد صاحب کا زمانہ نہیں دیکھا، جنہوں نے جماعت اسلامی کے لیے ایسے لازوال کام کیے ہیں کہ جماعت کا کوئی مؤرخ اسے نظرانداز نہیں کرسکتا۔ بعد میں اس ذمے داری پر پروفیسر غفور احمد اور منور حسن بھی رہے۔ اور ان کے بعد یہ سعادت نعمت اللہ خان صاحب کو ملی۔ ایسا کام کیا کہ جب پرویزمشرف نے بلدیاتی نظام کی بنیاد رکھی تو جماعت اسلامی نے کراچی کی نظامت کے لیے نعمت اللہ خان کو منتخب کیا۔ اس سے پہلے ضیاء الحق کے زمانے میں جب انتخابات ہوئے تو جماعت نے عبدالستار افغانی کو میئر نامزد کیا تھا۔ اُس درویش کا بھی جواب نہ تھا۔ میں نے انہیں جوتوں کی ایک دکان پر سیلزمین کی ملازمت کرتے دیکھا ہے۔ وہ آخری وقت تک اپنے گھر لیاری میں رہے۔ اُن کی باتیں کرنے بیٹھ جائوں تو بات آگے بڑھ نہ پائے گی۔ بیٹا چھت سے گرا تو سول اسپتال میں لایا گیا۔ سر کا سی ٹی اسکین ہونا تھا، سرکاری اسپتال تھا، شاید دو ہزار یا بائیس سو کی ضرورت تھی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کے پاس یہ رقم نہ تھی۔ کس نے ادا کی، کیسے ادا ہوئی، مجھے وہ شخص اپنی اس ادا کی وجہ سے کبھی نہیں بھولتا۔ نعمت اللہ ایسے شخص کے جانشین بنائے گئے۔ جانشین تو نہیں، درمیان میں ایم کیو ایم کے فاروق ستار آئے تھے۔ مگر جماعت کی طرف سے جو معیار افغانی نے پیش کیا اُس پر نعمت اللہ خان نے اضافہ ہی کیا، کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ بغیر کسی بحث کے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ کراچی کے کامیاب ترین ناظم تھے۔ پرویزمشرف چاہتے تھے وہ اپنا کام جاری رکھیں، مگر پہلے جماعت سے بے تعلقی کا اعلان کریں۔ اس مردِ درویش کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ عبدالستار افغانی کی حکومت اس لیے ختم ہوئی کہ غوث علی شاہ نے بلدیہ توڑ دی اور افغانی صاحب کو ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ پھر نعمت اللہ خان کا دور اس لیے تمام ہوا کہ پرویزمشرف جماعت اسلامی کو قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔
نعمت اللہ صاحب نے ان دنوں کراچی کے لیے ایک پلان بنایا۔ منصوبہ 29 ارب کا تھا۔ پرویزمشرف کو پیش کیا گیا۔ کہا: شہر میں کئی اسٹیک ہولڈر ہیں، بندرگاہ ہے، اسٹیل مل ہے، پی آئی اے ہے، یہ سب ادارے شہر کی سہولتیں استعمال کرتے ہیں، اب یہ کچھ اپنا حصہ ڈالیں۔ فلاں سڑک اسٹیل مل بنائے، فلاں فلائی اوور کے پی ٹی اپنے ذمے لے۔ یہ منصوبہ منظور ہوا اور اس پر کام ہوا۔ زیرزمین نکاسی و فراہمیِ آب کے نظام پر انقلابی کام شروع کیا۔ کراچی کا یہ نظام برسوں پرانا تھا۔ بعد میں آنے والوں نے اس پر توجہ نہ دی، مگر یہ کام بھی نہ ہوتا تو بعض علاقوں کا حال بہت برا ہوتا۔ اور یہ کام جاری رہتا تو کراچی کا نقشہ ہی اور ہوتا۔
جن دنوں نعمت اللہ صاحب ناظم اعلیٰ کی ذمہ داری سے فارغ ہورہے تھے جماعت اسلامی فیصلہ کرچکی تھی کہ اپنے شعبہ خدمت کو آزادانہ چلائے گی۔ چنانچہ الخدمت فائونڈیشن کا آغاز الگ ادارے کے طور پر ہوا، اور نعمت اللہ خان کو اس کا سربراہ بنادیا گیا۔ انہوں نے یہاں آکر بھی خدمت کے نئے معیار قائم کیے۔ تھر کے علاقے سے آغاز ہوا۔ زلزلہ، سیلاب جانے کیا کچھ اس مردِ خدا کا منتظر تھا۔ انہوں نے دن رات ایک کرکے یہ ذمہ داری نبھائی اور آج الخدمت پاکستان کی سب سے بڑی NGO میں سے ہے۔ یہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں کام کررہی ہے۔
ایک بات کی طرف اور اشارہ کرنے کو جی چاہتا ہے، کراچی میں ایک آدھ حادثہ ہوا، صرف دو آدمی سامنے آئے جنہوں نے لاشیں اٹھائیں۔ ایک عبدالستار ایدھی اور دوسرے نعمت اللہ خان۔ اُن دنوں لوگ شاید کسی سیاسی جماعت کو خدمت کے لیے اہم نہ سمجھتے تھے، اس لیے اس کا اس قدر چرچا نہ ہوا۔ مگر اُس وقت ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ خدمت کا جذبہ ہوتا کیا ہے اور لوگ اسے دل میں بٹھا لیتے تھے، کبھی بھولتے نہیں۔
نعمت اللہ خان نے خدا کی عطا کردہ زندگی کا حق ادا کیا۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ میں ان پر لکھنے کا حق ادا نہیں کرپایا۔ جلدی جلدی فی البدیہ یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ ایک خوبصورت شخصیت کے شایانِ شان جس خراج تحسین کی ضرورت ہے وہ روزِ حساب بارگاہِ خداوندی میں فرشتے ہی ادا کریں گے۔ مجھے بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں مگر اس وقت اتنا ہی لکھ پائوں گا۔ زمین اچھے لوگوں سے خالی ہوتی جارہی ہے، مگر خوشی ہے کہ یہ مردِ قلندر جینے کا حق ادا کرکے ہم سے رخصت ہوا۔