زبیر منصوری
سٹی گورنمنٹ کے پہلے آفس کے ایم سی کی پرانی بلڈنگ میں ابھی چند ہی دن ہوئے تھے، وہ چاروں طرف سے ایم کیو ایم کے لوگوں کے نر غے میں تھے، حتیٰ کہ سیکریٹری کے طور پر ملنے والا فرد بھی رابطہ کمیٹی کا رکن تھا، اور وہ بس خوفِ خدا رکھنے والا بے باک و جی دار ستّر برس کا جوان روز میانداد کے ساتھ آفس پہنچ جاتا اور میں بھی اُن کی ہدایت پر روز شیراز کوچ میں لٹک کر دفتر جا پہنچتا۔
ایک روز لیاری کے کسی محلے سے بیسیوں مرد و خواتین نے کے ایم سی بلڈنگ پر یلغار کردی ۔
’’اڑے پانی دیو ام کو، نہیں تو اس میئر کو باہر نکالو، ام نہیں چھوڑے گا‘‘۔
دروازے بند کردئیے گئے، خوف کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ خاں صاحب نے آوازیں سنیں تو بولے: ’’انہیں اندر آنے دیں‘‘۔ میں نے عرض کیا: ’’بپھرے ہوئے لوگ ہیں، خطرناک ہوسکتا ہے، پولیس طلب کریں‘‘۔ وہ سکون سے بولے: ’’میں کہہ رہا ہوں اندر بلا لیں‘‘۔ اب صورت حال یہ کہ اندر مَیں اور وہ، اسٹاف بھی وہ جو دوست سے زیادہ دشمن، اور کھڑا مزے لے رہا تھا۔ ایک پولیس والا اور بیسیوں مشتعل لوگ۔ دروازے کھلے تو وہ اندر گھس آئے۔ نعرے لگاتے بڑے سے ہال نما اے سی روم میں داخل ہوئے اور خاں صاحب کو دیکھ کر ٹھنڈے پڑتے چلے گئے۔ ہال بھر گیا، سب چیخ چیخ کر بولنے لگے، خاں صاحب سنتے رہے اور پھر ایک بار بولے: ’’آپ خود بتائیں میں آپ سب کی بات کیسے سمجھوں گا؟ میں نے آپ کو اندر اسی لیے بلایا ہے کہ بات سننا چاہتا ہوں، آپ چار نمائندے بنا لیں، وہ بات کریں، باقی آرام سے بیٹھ جائیں‘‘۔ کچھ دیر بعد اگلے ہفتہ اُن کے علاقے آنے کا وعدہ کیا، انہیں ٹھنڈا پانی پیش کیا۔ اور نعرے لگاتے آنے والے ’’بابا میئر زندہ باد‘‘ کہتے واپس لوٹ رہے تھے۔
وہ عوام میں سے تھے، ہجوم کی نفسیات کو جانتے تھے…
اُنھی ابتدائی دنوں کی بات ہے، ملیر کے نئے ٹائون ناظم اعظم صاحب مرحوم ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا، خاں صاحب کا کھانا گھر سے آتا تھا جو اکثر ہم دو افراد کے لیے پورا ہوجاتا تھا، اب باہر سے منگوانا پڑا، اور عیاشیوں کے عادی افسر نے پی سی سے کھانا منگوا لیا۔ ہم کہ ٹھیرے ڈھابے کے ہوٹل پر پیسے بچا کر کھانے والے۔ میں نے افسر کو سختی سے ڈانٹا کہ یہ فضول خرچی کیوں کی گئی؟ مجھے اندازہ نہ تھا کہ میری آواز اندر والے کمرے تک جا رہی ہے۔ کچھ دیر بعد دیکھا تو خاں صاحب اور اعظم صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اعظم صاحب نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ اچانک شفقت کیسی؟ مگر پھر وہ بولے: ’’بس یہی وہ کردار ہے جو مرشد مودودی نے تیار کیا تھا۔ ہمیں اس سسٹم کا حصہ نہیں بننا‘‘۔ مجھے یاد ہے میں نے اور پھر شجیع بھائی مرحوم نے بس یا بائیک پر ہی دفتر جانے کا معمول بنائے رکھا اور سٹی گورنمنٹ کی گاڑیاں ہماری منتظر ہی رہیں الحمدللہ۔
بنکاک اور سنگاپور گئے تو اکثر اخراجات کے لیے لے کر گئی رقم میں سے بچا کر لائے اور واپس جمع کروائی۔ ایک بار جب بنکاک کا پروگرام بنا تو اس سے چند دن پہلے بھینس کالونی کا وزٹ کرکے آئے تھے، مجھے بنکاک کا بتایا اور کہا کہ ڈی سی او پراچہ صاحب کو بھی بتا دیں۔ میں نے اُن سے ذکر کیا تو وہ برجستہ بولے: ’’بھئی واہ، بھینس کالونی جاتے ہیں تو ہمیں لے جاتے ہیں، اور بنکاک جانا ہو تو اکیلے چلے جاتے ہیں‘‘۔ مگر خاں صاحب کا ایمان داری کا پیمانہ ہی کچھ اور تھا۔ عجیب آدمی تھا، نظامت سے فارغ ہوئے تو ایک چیک کاٹا اور ساری جمع شدہ لاکھوں روپے کی تنخواہ الخدمت کو دے دی۔ مردِ درویش جو ہمیشہ چادر جھاڑ کر کندھے پر ڈالنے اور چل دینے کو تیار رہتا تھا۔
ہم نے بارہ برس قبل ایک کوشش کی کہ اُن کی یادیں اور باتیں محفوظ رہ جائیں۔ انہیں بمشکل آمادہ کیا اور ایک نوجوان اسدالدین کئی ماہ روز اُن کے ساتھ بیٹھ کر نوٹس لیتا، اور لکھتا رہا۔ پونے تین سو صفحات کی کتاب ’’اعترافِ نعمت‘‘ تیار ہوئی، مگر وہ پرنٹنگ پر آمادہ نہ ہوئے۔ ایک بار مجھ سے کہا:’’میں چاہتا تھا تم خود اپنے اسلوب میں اسے لکھتے‘‘… کہتے تھے: ’’تمہارے پہلے مضمون ’’پیاسا تھر‘‘ نے تھر میں خدمت کے کام کے لیے فنڈنگ کی بنیاد رکھی‘‘… افسوس، میں اُن کی اِس خواہش کو سمجھ نہ سکا اور پھر زندگی کی مصروفیت نے موقع چھین لیا، اور اب انہیں ہی ہم سے لے لیا۔
ایک بار بتایا کہ ’’جن دنوں بشریٰ زیدی کا واقعہ ہوا مَیں وہاں سے ایم پی اے تھا، بشریٰ کے والد بیرونِ ملک تھے، حالات کی نزاکت دیکھ کر میں خود رات گئے انہیں لینے ائرپورٹ چلا گیا تاکہ صورت حال کو غلط سمت بڑھنے سے روکنے کی کوشش میں اپنا حصہ ڈال سکوں۔ آہ، مگر یہ واقعہ دشمنوں کے کام آیا۔ اس شہرِ پُرآشوب کی تین نسلیں اور ساری روشنیاں اور وقار ہڑپ کر گیا‘‘۔
کیا آدمی تھا، ناظم بنائے جانے کا فیصلہ ہوا تو قاضی صاحب کے اس عجیب فیصلے پر لوگ حیران اور فکرمند تھے۔ ان کی عمر، کراچی کی امارت، حالات… مگر وقت نے اس فیصلے کو درست ثابت کیا۔ وکالت کا تجربہ، بزرگی، شہر کا فہم، تحمل، معاملہ فہمی نے چیزوں کو آسان بنادیا۔ سفید بالوں کا حیا کرتے ہم نے ایم کیوایم کو بھی پایا اور گورنر سومرو کو یہ کہتے بھی سنا کہ آپ مجھے اپنے والد جیسے لگتے ہیں۔ جبکہ کور کمانڈر احترام میں اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 5 کور ہیڈ کوارٹر میں جہاں وزرا بھی بمشکل رسائی پاتے اور پارکنگ میں گھنٹوں انتظار کرتے تھے، خاں صاحب سٹی ناظم ہونے کے باوجود اپنی بزرگی، دیانت اور وقار کی وجہ سے بہت عزت و احترام سے استقبال کیے جاتے تھے۔
ایک موقع پر بولے: ’’زبیر میاں اختیار دیا نہیں، لیا جاتا ہے۔‘‘یہ موقع تھا جب نئی نئی سٹی گورنمنٹ بنی تھی، محکمے اور کام ابھی واضح نہیں تھے، اور خاں صاحب ہر ڈپارٹمنٹ کو آگے بڑھ کر اپنے انڈر میں لے رہے تھے۔ ایک موقع پر شروع میں ہی انہوں نے بیان دے دیا کہ پولیس بھی سٹی ناظم کے انڈر میں ہے، اور اگلے ہی دن سٹی پولیس چیف آفس آگیا حاضری دینے۔ بعد میں پتا چلا کہ ایسا نہیں ہے۔
خاں صاحب کا کہنا تھا کہ آگے بڑھ کر لے لو، آپ کا اختیار نہ ہونا ثابت ہوگیا تو چھوڑ دیں گے۔