نعمت اللہ خان سب کی نظر میں

سراج الحق
(امیرجماعت اسلامی پاکستان)

جماعت اسلامی اور کراچی کے لیے ان کی موت بہت بڑا نقصان ہے۔ نعمت اللہ خان صاحب نے ساری زندگی مخلوقِ خدا کی خدمت اور ان سے محبت کی ہے۔ وہ ایک مثالی کارکن بھی تھے اور ایک مثالی لیڈر بھی۔ کارکن کی حیثیت سے وہ ایک تابعدار اور اطاعت گزار کارکن تھے اور قائد کی حیثیت سے وہ ایک حوصلہ مند، صابر اور حکمت و دانائی سے مسلح قائد تھے۔ وہ آخری لمحے تک ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ اور عوامی خدمت کے لیے کام کرتے رہے، بیماری کے باوجود اندرون سندھ کے دورے کرتے رہے، سخت گرمی میں عید کے دنوں میں تھرپارکر میں رہا کرتے تھے، کئی دیہات اور بستیوں کے لیے پانی اور علاج کی سہولتیں فراہم کیں، بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام کیا۔ نہ صرف سندھ میں بلکہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں سمیت چترال اور کشمیر میں جاکر انسانی خدمت کے کام کیے۔ 80، 85 سال کی عمر میں بھی 18گھنٹے کام کرتے رہے تھے۔ ان کی رحلت سے ایک باب تو بند ہوگیا، لیکن آج ہر شخص ان کی تعریف اس لیے بھی کرتا ہے کہ انہوں نے بلا تمیزِ رنگ و نسل اور بلا تعصب مخلوق کی خدمت کی ہے۔ ان کے زمانۂ نظامت میں کراچی امن کا بھی گہوارہ تھا اور ترقی کی جانب بھی گامزن تھا، اور ان کی نظامت میں پاکستان بھر سے کراچی آئے ہوئے لوگوں کو سکون ملتا تھا اور وہ امن و سکون سے زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے جو قابلِ ستائش اور قابلِ تقلید ہے۔ بہرکیف ہر انسان کو اس دنیا سے چلے جانا ہے لیکن بعض لوگوں کی رحلت ان کے لیے تو اللہ کے قرب کا ذریعہ بنتی ہے لیکن مخلوقِ خدا بہت بڑے خیر سے محروم ہوجاتی ہے، اور آج ان کی رحلت سے نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان ایک محبت کرنے والے شخص سے محروم ہوگیا۔

سید منور حسن
(سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان)

نعمت اللہ خان ایک فرد کا نام نہیں تھا، اور یہ سب لوگ بخوبی جانتے ہیں۔ وہ ایک مہم جُو انسان تھے، تحریکوں میں چلنا، آگے بڑھنا، تنظیمی مقاصد کو دور تک لے کر جانا… اس پورے کلچر کو انہوں نے پوری طرح سے دیکھا، اپنایا اور اس کے مطابق خود کو ڈھالا بھی۔ بیماریوں سے پاک کوئی شخص نہیں ہوتا، لیکن نعمت اللہ نے اپنی صحت سے ہمیشہ اپنی بیماری کا مقابلہ کیا، اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں یہ قوت بخشی تھی کہ عمر کی زیادتی کے باوجود وہ کام کر دکھاتے تھے جو بہت سے لوگ کم عمری میں بھی نہیں کر پاتے۔
1977ء کی قومی اتحاد کی تحریک تھی، اس میں یہ مشہور نعرہ پورے شہر کا نعرہ بن گیا تھا کہ ’’شیر جوان شیر جوان… نعمت خان نعمت خان‘‘۔ ساری رات بچے گھروں سے نکل کر نعرہ لگاتے رہتے تھے۔ اور قومی اتحاد کی تحریک کو قومی اتحاد کی تحریک بنانے کا سہرا نعمت اللہ خان کے سر جاتا ہے۔ تحریک کے لیے وہ ہر اعتبار سے ہمہ وقتی کارکن تھے۔ ان کا سونا، ان کا جاگنا، ان کا چلنا، ان کی تقریریں، ان کا خاموش رہنا… تمام دائروں میں، ہر جہت کے اندر انہوں نے کچھ کرکے دکھایا ہے۔
ایک ورسٹائل جینئس تھے جس کا نام نعمت اللہ خان تھا۔ کثیر الاولاد تھے، اللہ تعالیٰ نے کثیرالوسائل بھی بنایا ہوا تھا۔ گھر پر لوگوں کو بلانا، دعوتیں کرنا، لوگوں کو بھیجنا، خدمتِ خلق کے ہر کام پر ذاتی توجہ دینا، یہ ان کا کلچر تھا، اور ان کے لیے کچھ کرنے اور کر گزرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا تھا۔ جماعت کی تنطیم میں بھی ان کا بڑا رول ہے۔ جب میں کراچی کی نظامت سے فارغ ہوا تومیرے بعد وہی کراچی کے امیر بنے۔ اس کے علاوہ 1985ء کی صوبائی اسمبلی میں ممبر منتخب ہوئے اور پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے انہوں نے اسمبلی میں کام کیا۔ ایک اچھے وکیل تھے۔ دیانت اور امانت کا پیکر تھے، ہر ہر حوالے سے ان کی یاد دلوں کو ستائے گی، دلوں کو گرمائے گی، دلوں کے بیچ چراغوں کو روشن کرے گی، وہ بہت عرصے تک دلوں میں بسے رہیں گے۔
ان کے بچے بڑے ہونے کے باوجود بھی بالکل بچوں کی طرح ان کے سامنے رہے اور اپنے والد کی ہر بات، نصیحت و تلقین پر عمل کیا۔ انکم ٹیکس پریکٹیشنر تھے۔ ہم چونکہ بہت عرصہ ساتھ رہے، فجر کی نماز مسجد جاکر باجماعت ادا کرتے تھے اور ایک چھوٹا گروپ سا بن گیا تھا مسجد نور میں فجر کی نماز پڑھنے والوں کا، اور وہاں کے قاری صاحب درس دیا کرتے تھے۔ نماز پڑھ کر، درس سن کر ہم نکلا کرتے تھے اور پورے راستے درس پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ خود قاری صاحب حافظِ قرآن تھے نارتھ ناظم آباد بلاک ایف میں۔
نعمت صاحب نے کراچی کے ناظم کی حیثیت سے شب و روز ایک کرکے لوگوں کے دلوں کو جیتا ہے۔ اور یہ ہمارا المیہ ہے اور اس کا بیان کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ دوسری مدت کے لیے لوگوں کا خیال تھا کہ میئر انہی کو بننا چاہیے، ہر ایک بار وہ اس کے لیے سوٹ کرتے تھے۔ پرویز مشرف اُس وقت صدر تھے، وہ کراچی کے دورے پر آئے میئر کے الیکشن سے پہلے تو انہوں نے نعمت اللہ خان کو بلایا اور کہا کہ کچھ بات کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے بارے میں میرے پاس جتنی بھی انٹیلی جنس رپورٹس ہیں وہ سب پوزیٹو ہیں، آپ نے کوئی مال نہیں بنایا ہے، آپ نے کرپشن نہیں کی ہے، آپ نے ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے، بلکہ ہر طرح کے حالات میں کچھ کرکے دکھایا ہے، اور یہ ہمارے لیے ایک رکاوٹ ہے کہ آپ آئندہ ٹرن کے لیے میئر بنیں۔ نعمت اللہ خان نے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ میں نے دین کے خلاف کوئی کام کیا ہو، ملک کے خلاف کام کیا ہو، میں نے لوگوں کی امانت میں خیانت کی ہو۔ کہنے لگے کہ یہ ساری باتیں ٹھیک ہیں، لیکن آپ کا جماعت اسلامی سے تعلق ہے اور یہ ہمیں کھٹکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو میرا مسئلہ نہیں ہے اور میں تو جماعت اسلامی کو چھوڑ نہیں سکتا۔ جماعت اسلامی کے ساتھ چلنا ہی میرے لیے عافیت کا پیغام اور حالات کی بہتری کی نوید ہے۔ اگر وہ دوسری مدت کے لیے کراچی کی خدمت کے لیے نامزد نہ ہوسکے تو اس میں قصور ایڈمنسٹریشن کا اور اُس بیوروکریسی کا تھا جس کو پاکستان سے محبت کم اور اپنے آقائوں سے محبت زیادہ ہے۔ اپنے وکلا کے حلقے میں بھی انہوں نے ہمیشہ لوگوں کے دل جیتے۔ ایسے مؤقف ہمیشہ اپنائے اور ایسی جدوجہد کرکے دکھائی جس سے ناممکن کو ممکن ہوتا ہوا لوگوں نے دیکھا۔ میئر بننے سے پہلے کراچی میں الخدمت کا جتنا کام تھا انہوں نے سنبھالا ہوا تھا، لوگوں کی خدمت ذاتی دلچسپی لے کر کرتے تھے، لوگوں کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ زندگی کے تمام دائروں میں فی الحقیقت جماعت اسلامی کی جو ساکھ ہے اس میں نعمت اللہ خان کا بہت بڑا کردار ہے، قومی سطح پر بھی اور مقامی سطح پر بھی۔

علامہ باقر زیدی
(مجلس وحدت المسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل)

مرحوم نعمت اللہ خان کی رحلت سے کراچی کے عوام ایک عظیم اور انسان دوست شخصیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ نعمت اللہ خان کی ملک و قوم خصوصاً شہرِ قائد کے لیے بیش بہا خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ نعمت اللہ خان نے پوری زندگی ملک و قوم اور بالخصوص شہرِ قائد کے عوام کی بے لوث خدمت کی۔ شہر قائد کے ناظم ہونے کی حیثیت سے کراچی میں ہونے والے ترقیاتی کام خصوصاً شہر کے مختلف علاقوں میں عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لیے بنائے گئے پراجیکٹس مرحوم نعمت اللہ خان کو عوام کے دل میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ مرحوم ایک مخلص اور انسان دوست شخصیت تھے، انہوں نے شہر کراچی کے مفلوک الحال عوام کے لیے بڑی خدمات انجام دیں۔ بے روزگاروں کے لیے مناسب روزگار کا انتظام ہو یا نادار اور یتیم بچیوں کی شادی کے لیے دستِ شفقت رکھنا، صاف پانی کی فراہمی ہو یا بھوکے اور بے گھر افراد کی کفالت کرنا… یہ سب مرحوم نعمت اللہ کی مخلصانہ زندگی کا ایک اہم اور ناقابلِ فراموش پہلو ہے۔

تاج حیدر
(سابق سینیٹر ،پیپلز پارٹی)

بڑے افسوس کی بات ہے کہ نعمت اللہ خان صاحب نہیں رہے۔ میرا اُن سے بڑا قریبی تعلق تھا۔ کراچی ناظم کے جب انتخابات ہورہے تھے وہ بھی امیدوار تھے اور میں پیپلز پارٹی کی طرف سے امیدوار تھا۔ پوری انتخابی مہم کے دوران نعمت اللہ خان صاحب کا رویہ مثالی تھا۔ بڑی محبت اور شفقت کا مظاہرہ کیا۔ ایک احترام باہمی کا تعلق ہمارے درمیان قائم تھا۔ وہ ہمارے پولنگ کیمپ میں آتے، سب سے ملتے، اور ہم جماعت اسلامی کے پولنگ کیمپ میں جاتے تھے۔ بڑا کانٹے کا مقابلہ تھا لیکن کسی قسم کی بدمزگی یا ایسا واقعہ پیش نہیں آیا کہ ہمیں افسردگی ہوئی ہو۔ جب نتائج کا وقت آیا، اٹھارہ میں سے پندرہ پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج سامنے آئے تو مجھے اندازہ ہوا کہ نعمت اللہ خان صاحب جیت گئے ہیں، تو میں نے انہیں فون کرکے مبارکباد دی۔ ان کے کارکنان جو وہاں جمع تھے ان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے آغاز ہی ان کلمات سے کیا کہ ابھی ابھی تاج حیدر صاحب کا فون آیا تھا اور انہوں نے مبارکباد دی ہے جس پر میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ہمارا تعاون ہمیشہ انہیں حاصل رہے گا۔ اور ایسا ہوا بھی، ہمیشہ ان کا تعاون ہمیں حاصل رہا۔ یہاں تک ہوا کہ میں اسلام آباد میں تھا، میرے بھائی کی طبیعت خراب ہوئی تو نعمت اللہ خان صاحب تیمارداری کو پہنچ گئے۔ بڑے مہذب اور شفیق انسان تھے، اور میں سمجھتا ہوں کہ ہماری سیاست انہی خطوط پر استوار ہوجائے تو ہم ایک مہذب سیاسی کلچر قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کی وفات کا مجھے بے حد افسوس ہے!

پروفیسر این ڈی خان
(سابق وفاقی وزیر ،رہنماپیپلز پارٹی)

ہر انسان جو آیا ہے اسے واپس جانا ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور اسے پیش ہونا ہے۔ نیک انسان روشن چہروں کے ساتھ جائیں گے، اور نعمت اللہ خان صاحب انہی عظیم انسانوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں گزارا۔ دیانت، سخاوت، محبت اور شفقت ان کا شعار رہا۔ میرے تو رشتے دار بھی تھے۔ ان کی وفات کا مجھے بے حد صدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی نیکیوں، ان کی صفات کے پیش نظر انہیں ایک اعلیٰ اور ممتاز مقام عنایت کرے، اور میرا یقین ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندے تھے اور آنے والی زندگی ان کی بہترین زندگی ہوگی۔ میئر کی حیثیت سے ان کا جو کردار تھا اس کی روشنی میں اگر آج بھی ہم آگے بڑھیں تو میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کو درپیش مسائل کا حل اس میں ہی ہے۔ اور انہوں نے اپنے مختصر دور میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ان کے نقوش آج بھی نظر آتے ہیں۔ ان کا کردار نہ صرف قابلِ ستائش بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ ایسا میئر کہ ہم توقع نہیں کرسکتے۔ پوری تاریخ میں ایک بہترین میئر تھے۔
نعمت اللہ خان صاحب کراچی کے کامیاب ناظم تھے اور الخدمت کے سربراہ کی حیثیت میں ان کی فلاحی سرگرمیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کراچی کے عوام کی خدمت اور بہتری کے لیے یاد رکھی جانے والی خدمات سرانجام دیں۔

مبشر لقمان
(صحافی،اینکر)

نعمت اللہ خان صاحب بحیثیت ناظم، کراچی کے کامیاب ناظم تھے اور الخدمت کے سربراہ کی حیثیت میں ان کی فلاحی سرگرمیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کراچی کے عوام کے لیے یاد رکھی جانے والی خدمات سرانجام دیں۔