چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والی ’ناول کرونا‘ نامی وبا نے چین کو آزمائش اور مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ چین کے اندر اس مرض نے سینکڑوں لوگوں کی جان لے لی ہے۔ ایک بڑی تعداد کو مرض لاحق ہے۔ یہ وائرس چین کے تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود دنیا کے مختلف ممالک پہنچ گیا ہے، حتیٰ کہ فرانس اور اٹلی کے اندر بھی اموات کی اطلاعات ہیں۔ چناں چہ ہمسایہ ملک ایران کے شہر قم میں بھی لوگ بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اب تک بارہ سے زائد لوگ اس وائرس کی وجہ سے جان سے گئے ہیں۔ افغانستان کے علاقے ہرات (جو ایران سے ملحق ہے) میں بھی کرونا متاثرین کی مصدقہ اطلاعات آئی ہیں، یعنی افغان حکومت نے تصدیق کردی ہے۔ ایرانی حکومت بھی اپنے ہاں اس وباء کی موجودگی اور اموات تسلیم کرچکی ہے۔ گو کرونا کی وباء نے بلوچستان کے دروازے پر دستک دے دی ہے، جس سے یقیناً پورا پاکستان اضطراب کی کیفیت میں آچکا ہے۔ بلوچستان حکومت نے اپنی استعداد اور وسائل کے تحت بھاگ دوڑ شروع بھی کردی ہے۔ بلوچستان کی ایران کے ساتھ 900کلومیٹر سرحد ہے۔ چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر کے اضلاع ایران سے ملحق ہیں۔ گوادر کا سمندر بھی ایران سے ملتا ہے۔ ان پانچوں اضلاع میں سرحد پر آبادیاں موجود ہیں۔ سرحدی علاقوں کے لوگوں کی سرحد پار رشتے داریاں ہیں۔ قومیت اور زبان کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تجارتی و معاشی ارتباط بھی رکھتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر آمد ورفت ہوتی ہے۔ غیر فطری راستوں سے ایران سے تیل اور ایرانی مصنوعات پاکستان میں اسمگل کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ہر روز درجنوں افراد غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرتے ہیں۔ منشیات اور انسانی اسمگلنگ بھی بڑے پیمانے پر ہورہی ہے۔
ایسا ہی افغانستان کے ساتھ بھی ہے۔ افغانستان کی پاکستان کے ساتھ 2600کلومیٹر طویل سرحد میں 1100کلومیٹر سرحد بلوچستان سے لگتی ہے۔ چاغی، نوشکی، کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ اور ژوب کے اضلاع افغان سرحد سے ملحق ہیں۔ گویا روزانہ ہزاروں افراد سرحد کے آرپار آتے جاتے ہیں۔ مریضوں کی بڑی تعداد افغانستان سے روزانہ کی بنیاد پر کوئٹہ، کراچی علاج کے لیے آتی ہے۔ تجارت کے لیے بھی روزانہ ہزاروں لوگوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہر مہینے پانچ چھے ہزار زائرین ایران آتے جاتے ہیں۔ چناں چہ 23 فروری کو کوئٹہ سیکریٹریٹ میں چیف سیکریٹری بلوچستان کی صدارت میں ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں سیکریٹری داخلہ و قبائلی امور، سیکریٹری صحت، آئی جی پولیس، ڈائریکٹر ایف آئی اے، کلکٹر کسٹم، ڈی جی پی ڈی ایم اے، کمانڈر سدرن کمانڈ، ایف سی نارتھ اور ایف سی سائوتھ کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں صورتِ حال کا مختلف پہلوئوں سے تجزیہ کیا گیا اور کرونا سے بچائو کی تدابیر اور اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ سرِدست فیصلہ ہوا کہ پاکستان سے کسی کو ایران جانے کی اجازت ہوگی، نہ ہی کسی کو آنے دیا جائے گا۔ اجلاس میں وفاقی حکومت کو بھی مراسلہ بھیجنے کا بتایا گیا ہے ۔ ہونا بھی یہی چاہیے کہ اوپر سے نیچے تک پوری حکومت و سرکاری مشینری اس باب میں یکسو و متحرک ہو۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ایران سرحد پر پانچ کراسنگ پوائنٹس پر ہر قسم کی آمد و رفت بند کردی گئی ہے۔ ان پوائنٹس پر 45 ڈاکٹر، 72 تھرمل گنز، دس ہزار ماسک، 100ٹینٹ فراہم کیے گئے ہیں۔ اس وقت ایران میں پاکستان سے گئے5 ہزار زائرین موجود ہیں۔ ایرانی حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ کسی کو بغیر اسکریننگ پاکستان آنے نہ دیا جائے۔ ایران سے آنے والے افراد کو چودہ دنوں تک الگ تھلگ رکھا جائے گا، اس کے بعد کلیئر قرار دیئے جانے والے زائرین کو بسوں میں براہِ راست ان کے علاقوں تک پہنچایا جائے گا۔ ایران سے ایک ماہ کے دوران پاکستان آنے والے7664تاجروں اور زائرین کی بھی اسکریننگ کی جائے گی۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سو بستروں پر مشتمل خیمہ اسپتال تفتان میں قائم کیا گیا ہے، دس ہزار ماسک بھی پہنچا دیئے گئے ہیں۔ دو موبائل آفس یونٹ، چار موبائل کنٹینر اور ڈاکٹروں کی ٹیم سمیت دس ایمبولینس تفتان بھجوا دی گئی ہیں۔ اس وباء کے پھیلائو کے تدارک کے ضمن میں بحیثیتِ مجموعی پوری قوم کو نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ تساہل، غفلت، کام چوری اور بدعنوانی کا خیال تک نہیں لانا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ وائرس پھیل گیا تو کسی کی جان اور خاندان محفوظ نہ ہوگا۔ ایران کے ساتھ قانونی آمدورفت کے راستے تو بند کردیئے گئے ہیں مگر غیر قانونی راستوں سے آمدورفت اب تک جاری ہے جسے روکنا سرِدست ضروری ہے۔ اخبارات میں چھپنے والی خبر کے مطابق پی آئی اے نے چین کے لیے اپنی پروازیں 15 مارچ تک کے لیے معطل کردی ہیں۔ چین کے لیے کسی روٹ پر پی آئی اے کی کوئی پرواز نہیں چلائی جائے گی۔کوئٹہ میں تعینات ایرانی قونصل جنرل محمد رفیعی نے سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو پیغام میں اس تناظر میں وضاحت کی ہے کہ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر غلط خبریں شائع ہوئی ہیں کہ ایرانی قونصل خانے نے سیاحوں، تاجروں، زائرین اور سرکاری اہلکاروں سمیت پاکستانی شہریوں کے ایران میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔ قونصل جنرل کے مطابق ایران نے 21 فروری کو ہونے والے ایرانی پارلیمنٹ کے انتخابات کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ اپنی مشترکہ سرحد بند کی تھی۔ تفتان میر جاوہ سرحد کھلی ہے اور پاکستانی بغیر کسی پریشانی کے ایران میں داخل ہورہے ہیں۔ کرونا وائرس پھیلنے سے پاکستانی شہریوں کے ایران میں داخلے پر پابندی نہیں۔ اسی طرح ایران کی منصوبہ بندی اور بجٹ آرگنائزیشن کے سربراہ محمد باقر نوبخت نے بھی کہا ہے کہ وزارتِ صحت اور طبی عملہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت اقدامات کے لیے تیار ہیں۔ یاد رہے کہ عراق کے ساتھ ملحق ایران کے شہر قم میں کرونا وائرس کے پھیلائو کی بازگشت کے بعد بلوچستان کی حکومت نے پاکستانی شہریوں کے ایران کے سفر پر پابندی لگادی جس سے سینکڑوں افراد پاک ایران سرحد پر پھنس گئے ہیں۔ ایران سے ملحقہ بلوچستان کے کم از کم پانچ سرحدی اضلاع میں خوردنی اور روزمرہ کی اشیاء کے لیے ایران پر انحصار کیا جاتا ہے۔ سرحد کی بندش کی وجہ سے ان علاقوں کے مکینوں کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس رپورٹ
پاکستان میں کورونا وائرس کے دو کیس سامنے آئے ہیں۔ پہلے کیس میں چند روز قبل ایران سے کراچی واپس آنے والے 22 سالہ نوجوان میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ترجمان محکمہ صحت اور حکومت سندھ کے مشیر مرتضی وہاب نے تصدیق کی ہے کہ 22 سالہ متاثرہ شخص یحییٰ جعفری چند روز قبل ہوائی جہاز کے ذریعے ایران سے کراچی پہنچا ہے۔ حفاظتی انتظامات کے تحت متاثرہ شخص کے اہل خانہ کی بھی نگرانی کی جارہی ہے اور انہیں بھی مخصوص وارڈ میں منتقل کردیا گیا ہے۔ متاثرہ شخص کے ساتھ سفر کرنے والے دیگر افراد کا ڈیٹا بھی حاصل کیا جارہا ہے۔وزیر اعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر نے دو کیسیز کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے گھبرانے کی ضرورت نہیں دونوں ٹھیک ہیں۔