امریکہ طالبان کے حضور؟

کیا طالبان اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم کرلیں گے؟۔

افغانستان کی سرزمین تاریخ کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کہ اس نے جارح قوتوں کی بالادستی کو نہ صرف کبھی قبول نہیں کیا بلکہ تاریخی مزاحمت بھی کی۔ 1842ء میں شاہ شجاع برطانوی فوج کے ہمراہ کوئٹہ سے قندھار اور پھر کابل پہنچا، اور اقتدار پر براجمان ہوگیا۔ 70 سال کے بعد برطانیہ کو شکست ہوئی اور وہ افغانستان سے رخصت ہوگیا۔ امان اللہ خان افغان حکمران تھا، پشاور کے محاذ پر برطانیہ کو شکست ہوئی اور برطانیہ نے اسے بادشاہ تسلیم کرلیا۔ امان اللہ خان کے لینن سے تعلقات تھے اور خط کتابت بھی تھی۔ اس کے بعد اقتدار ایک خاندان سے دوسرے خاندان کو منتقل ہوتا رہا۔ سردار دائود نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یہ افغانستان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس تبدیلی کی پشت پر افغانستان کے کمیونسٹ تھے۔ یوں سوویت یونین کا کھیل شروع ہوگیا۔ بعد میں کمیونسٹوں نے سردار دائود کو قتل کردیا اور اقتدار خلق پارٹی کے ہاتھ میں آگیا۔ نور محمد ترہ کئی کو صدر بنادیا گیا۔ پھر اس کو حفیظ اللہ امین نے قتل کردیا اور اس کی لاش ایک گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دی۔ اس کے بعد سوویت یونین کی فوج 1979ء میں کابل میں داخل ہوئی اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ حفیظ اللہ امین نے مزاحمت کی لیکن مارا گیا۔ ببرک کارمل کو اقتدار دیا گیا، اس کے بعد جنرل نجیب کے ہاتھ میں کابل آگیا۔
اس دوران مجاہدین اور سوویت یونین آمنے سامنے آگئے۔ پاکستان کا نام نہاد لیفٹ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا اور قوم پرست بھی اس بیگانی شادی میں شامل ہوگئے تھے۔
مجاہدین نے تاریخی مزاحمت کی جس کے نتیجے میں سوویت یونین کو شکست ہوئی اور وہ بکھر گیا۔ امریکہ کے افغانستان میں داخل ہونے اور مجاہدین کی حکومت میں ایک وقفہ تھا۔ اس وقفے میں طالبان کا ظہور ہوا اور مجاہدین کے ہاتھوں سے اقتدار طالبان کے ہاتھ میں چلا گیا۔ نائن الیون کے واقعے نے تاریخ کا ورق پلٹا تو امریکہ مع اتحادیوں کے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ یوں افغانستان نے برطانوی سامراج کے بعد سرخ سامراج اور اس کے بعد امریکی سامراج کو مدمقابل پایا۔
امریکہ نے افغانستان میں ایک جمہوری عمل کی ابتدا کی اور انتخابات کی جانب افغانستان کو لے گیا۔ اس مرحلے میں مجاہدین کی تمام تنظیمیں انتخابی عمل میں شامل ہوگئیں اور پارلیمان میں پہنچ گئیں، صرف ایک پارٹی باہر رہ گئی، وہ تھی حزبِ اسلامی افغانستان۔ گلبدین حکمت یار کے ساتھ ساتھ طالبان نے بھی اس حکومت کو تسلیم نہیں کیا، اس لیے کہ ان کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر امریکہ نے اپنی مرضی کی حکومت بنا لی تھی۔ حامد کرزئی صدرِ افغانستان بن گئے تھے۔ یہ تاریخ کا عجیب اتفاق ہے کہ شاہ شجاع کو برطانیہ نے اپنے جھنڈے تلے قندھار اور اس کے بعد کابل پہنچایا، اور امریکہ نے حامد کرزئی کو کوئٹہ سے قندھار اور پھر کابل پہنچایا اور تخت پر بٹھا دیا۔
طالبان اور گلبدین نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ 8 سال کے بعد امریکہ نے اشرف غنی کے لیے راہ ہموار کی اور صدارت کا تاج اس کے سر پر سجا دیا۔ عبداللہ عبداللہ نے ان انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کا مؤقف تھا کہ میں نے ووٹ زیادہ لیے ہیں اس لیے مجھے صدر بنایا جائے۔ اُس وقت کے امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے ان دونوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کردیا۔
جب حامد کرزئی صدر بنے تو امریکہ نے ایک فارمولا تیار کیا اور اُن سے کہا کہ اس پر دستخط کردیں۔ حامد کرزئی اَڑ گئے اور انکار کردیا۔ اس پر جان کیری نے کہا کہ اگر تم نہیں کرو گے تو تمہاری جگہ جو صدر بنے گا وہ کردے گا۔ امریکہ اور حامد کرزئی کے درمیان یہ کشمکش جاری رہی اور اشرف غنی سربراہ بن گیا۔ اس نے معاہدے پر دستخط کردیے۔ اس حکومت کے دوران آخری مجاہد لیڈر گلبدین حکمت یار نے بھی اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم کرلیا، لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے باقاعدہ ایک تحریری معاہدہ اشرف غنی کے ساتھ کیا۔ ان کے تمام نکات کو تسلیم کرلیا گیا، صرف ایک نکتے کو مؤخر کیا گیا کہ امریکی فوج فوری نہیں جائے گی بلکہ ایک معاہدے کے تحت جائے گی۔ اس پر گلبدین نے اتفاق کیا مگر اپنی شرط سے دستبردار نہیں ہوئے۔ حزبِ اسلامی کے قائد گلبدین معاہدے کے بعد جب کابل لوٹے تو ریڈ کارپٹ پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور اعزاز کے ساتھ صدارتی محل میں انہیں پہنچایا گیا۔ اس استقبال میں حامد کرزئی، رشید دوستم اور عبداللہ عبداللہ سمیت اعلیٰ فوجی حکام بھی شامل تھے۔
گلبدین نے طالبان سے کہا کہ وہ امریکہ سے معاہدے سے پہلے افغان حکومت کو تسلیم کر لیں، یوں ہم بہتر پوزیشن میں ہوں گے اور امریکہ سے بہترین بارگیننگ کرسکیں گے۔ لیکن طالبان نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔
گلبدین کی رائے میں وزن تھا۔ آج جب کہ طالبان اکیلے مذاکرات کی میز پر جمع ہورہے ہیں تو وہ اکیلے ہیں۔ حکومت میں شامل ہوتے تو بہتر پوزیشن میں ہوتے اور طاقتور ہوتے۔
اب امریکہ اور طالبان ایک معاہدے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ امریکہ نے ایک معاہدہ اشرف غنی سے کیا تھا۔ اس کے 15 یا کچھ زیادہ نکات تھے جو اب میرے سامنے موجود نہیں ہیں، اس لیے کہ یہ مضمون کراچی میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔
جب اشرف غنی نے معاہدہ کیا تو اُس وقت 12 ہزار سے زیادہ فوج افغانستان میں تھی۔ اب امریکہ خواہش مند ہے کہ فوج کی تعداد کو اتنا رکھا جائے کہ حالات بگڑیں تو ان پر قابو پایا جا سکے۔ گلبدین بھی چاہتے تھے کہ امریکی فوج کو فیصلے کے لیے وقت دیا جائے کہ کب جائے گی۔ اب طالبان اور امریکہ آمنے سامنے ہیں مگر یقیناً طالبان اور امریکہ کے درمیان سب سے اہم نکتہ فوج کا ہی ہوگا کہ کتنی رکھی جائے، اور واپسی کا ٹائم ٹیبل بھی طے کرنا ہوگا۔
اگر امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ طے پا جائے تو دوسرا مرحلہ افغانستان میں قائم اشرف غنی کی حکومت اور طالبان کے درمیان معاملہ طے کرنا ہوگا۔ ایران کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 40 سے 50 لاکھ افغان مہاجرین ایران میں ہیں۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ ایک تاریخی دن ہوگا۔ ایک بات طے ہے کہ امریکہ افغانستان سے مکمل انخلا نہیں کرے گا، اُسے ایران پر بھی نظر رکھنا ہو گی، اس لیے افغان ایران بارڈر اُس کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا۔
چند سوالات ذہنوں میں ضرور اٹھیں گے، مثلاً کیا طالبان اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم کر لیں گے؟ کیا عبداللہ عبداللہ اس معاہدے کو بلاچوں چرا قبول کر لیں گے؟ کیا بھارت مکمل خاموش رہے گا، اس کا کردار ختم ہو جائے گا؟ اسرائیل موجود رہے گا؟ کیا دوبارہ انتخابات ہوں گے؟
معاہدے کے مرحلے تک پہنچنے میںبے شمار رکاوٹیں موجود ہیں۔ جوں جوں طالبان معاہدے کے قریب پہنچیں گے، اہم نکات سامنے آجائیں گے، پھراس پر کھل کرتحریر کر سکیں گے۔