سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت

امریکہ، طالبان اس معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا حساس مرحلہ شروع ہوگا

نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والے دبائو سے پاکستان باہر نکل آیا ہے۔ پاکستان کو جنرل پرویزمشرف کی وجہ سے ناکردہ گناہوں کی سزا ملی تھی، اور پاکستان سیاحت، تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے خطرناک ملک قرار دے دیا گیا تھا۔ سی آئی اے کابل میں بیٹھ کر پاکستان کی کڑی نگرانی کرنے لگی تھی، اور بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرحد پر اپنی فوج جمع کردی اورکلبھوشن جیسے دہشت گرد پاکستان بھجوادیے۔ لیکن امریکہ، نیٹو اور بھارت سب کا غرور خاک میں مل چکا ہے۔ وہ افغانستان فتح کرسکے اور نہ پاکستان کو نقصان پہنچا سکے۔ امریکہ اب کابل سے نکل جانے میں ہی عافیت محسوس کرنے لگا ہے لیکن پاکستان سے تعاون کی بھیک مانگ رہا ہے۔ امریکہ نے کابل چھوڑ دینے کا فیصلہ چار پانچ سال قبل ہی کرلیا تھا، طالبان سے مذاکرات اسی حکمتِ عملی کے تحت شروع کیے گئے تھے۔ یہ فیصلہ اس لیے بھی ہوا تھا کہ نیٹو ممالک نے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ اِس وقت تک اگرچہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ طالبان مذاکرات کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا، تاہم انخلاء کے لیے ایک مکمل روڈمیپ بن چکا ہے۔ یہاں تک امریکہ اور کابل تعلقات کا پہلا مرحلہ ہے۔
دوسرا مرحلہ انٹرا افغان ڈائیلاگ سے شروع ہوگا۔ حقیقت میں یہ مرحلہ انتہائی حساس ہوگا، اسی مرحلے میں فیصلہ ہوگا کہ کابل میں طالبان کا سیاسی کردار کیا ہوگا اور دیگر افغان سیاسی جماعتوں کے ساتھ اُن کے تعلقات کیسے ہوں گے۔ پاکستان نے افغان بحران سے نکلنے کے لیے راستہ دینے میں مدد دی ہے، اسی کے نتیجے میں مغربی فضائی کمپنیاں پاکستان واپس آئی ہیں، امریکی حکام کی متعصبانہ پابندیوں کی گرہ کھل گئی ہے، اقوام متحدہ کی طرف سے بھی سفارت کاروں کے لیے پاکستان ایک فیملی اسٹیشن کے طور پر قبولیت کا درجہ پاچکا ہے۔ برطانوی شاہی جوڑے کا دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی، جس کے بعد سیاحت کے لیے پاکستان کو موسٹ فیورٹ قرار دیا جاچکا ہے۔ یورپی ممالک پاکستان کے لیے نئی ٹریول ایڈوائزری جاری کررہے ہیں اور پاکستان کو سفر کے لیے موزوں قرار دے رہے ہیں۔ امکان ہے کہ اب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) بھی پاکستان کا نام گرے لسٹ سے باہر نکال دے گی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان کے حالیہ دورے میں مقبوضہ کشمیر اور سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔ اس تمام اہم پییش رفت سے ہماری حکومت کس قدر فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ اہم ترین سوال ہمارے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہے۔
موجودہ حکومت کی داخلی سیاست ہیجانی اور اضطرابی کیفیت میں گھری ہوئی ہے۔ جب کابل میں انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہوگا اُس وقت ہمیں داخلی طور پر مکمل ہم آہنگی کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ حکومت اس صلاحیت سے محروم ہے۔ جے یو آئی کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف آرٹیکل 6 لگانے سے متعلق فواد چودھری نے بات کی اور وزیراعظم عمران خان نے تائید کرکے ایک نئے سیاسی ہنگامے کی آبیاری کی ہے۔ حالانکہ چودھری پرویز الٰہی کی مٹھی میں جو امانت بند ہے یہ یقین دہانی انہوں نے خود نہیں بلکہ حکومت کے کہنے پر مولانا فضل الرحمٰن کو کرائی تھی۔ لیکن اب نیا یوٹرن لے لیا گیا ہے۔ وزیراعظم کا یہی رویہ اُن کے حکمت سے خالی ہونے کی دلیل ہے۔ حکومت اِس وقت تنقید سننا نہیں چاہتی۔ جب حکمران صرف خوشامد سننے اور اپنی پسند کی خبریں پڑھنے کے عادی ہوجائیں تو وہ عوامی جذبات، ملکی مسائل اور حکومتی ناکامیوں کے ادراک سے محروم ہوجاتے ہیں، اور دراصل یہی اُن کے اقتدار کے اختتام کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ اگرحکمرانوں کو حکومت اور عوام کے درمیان پھیلتی خلیج کا ادراک ہوجائے تو وہ بے چینی کا علاج کرسکتے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے اقدامات بھی۔ ورنہ زوال تو اقتدار کا مقدر ہے۔ بیدار مغز حکمرانوں کا عرصۂ حکمرانی ہمیشہ طویل ہوتا ہے۔ بیدار مغز کون ہوتا ہے؟ بیدار مغز حکمران وہ ہوتا ہے جس کی انگلی عوامی نبض پر ہو۔ عوامی نبض پر انگلی رکھنے کے لیے سچ اور آزاد ذرائع اطلاعات ناگزیر ہوتے ہیں۔ خوشامد حکمرانوں کی بیدار مغزی کو گہری نیند سلا دیتی ہے۔ اپنی ذات پر حد درجہ اعتماد نے وزیراعظم کو نرگسیت کا شکار کردیا ہے، اسی لیے حکومت میڈیا سے گھبرا کر اسے پابند کرنے کے طریقوں پر غور کررہی ہے، جب کہ اسے ملک میں سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے پہل کرنی چاہیے، کیونکہ ہمارے ہمسائے میں بہت بڑی پیش رفت ہونے جارہی ہے کہ کڑی شرائط کے ساتھ امریکہ کابل چھوڑ دینے کا روڈمیپ بنا چکا ہے، پہلی شرط یہ ہے کہ امریکہ چھوڑی ہوئی جگہ پر افغانستان میں تیس ہزار بھارتی فوجیوں کی تعیناتی مانگ رہا ہے، اس کا مطلب ہوا کہ کابل میں بھارت امریکہ کا قائم مقام بنایا جارہا ہے۔ بھارتی فوجی کابل بھجوانے کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ کی شہہ پر پاکستان کی مشرقی سرحد کے بعد شمال کی جانب سے بھی بھارت آکر بیٹھ جائے گا۔ امریکی خواہش کے باعث پیدا ہونے والی صورتِ حال اسلام آباد میں محتاط فیصلوں کی متقاضی ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کو بھی انٹرا افغان ڈائیلاگ کے چیلنج کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے، کیونکہ کابل میں امن ہی اسلام آباد میں امن کی ضمانت ہے، اس لیے ملک میں سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن کوئی قوت ایسی بھی ہوگی جو اس اہم موقع پر پاکستان میں سیاسی ہم آہنگی نہیں چاہے گی، عین ممکن ہے کہ امریکہ ہی ایسی کسی قوت کی پشت پر ہو۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی آمد پر کوئٹہ میں بم دھماکے کا واقعہ غیر معمولی واردات سمجھا جانا چاہیے، لہٰذا اس صورتِ حال میں حکومت اگر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہے تو اس کے نتائج بھی پاکستان کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں، اور اس طرح ملک کو نائن الیون کے بعد آنے والے دبائو سے باہر نکالنے کی کوششیں رائیگاں بھی جاسکتی ہیں۔
مستقبل میں جب انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہونے جارہے ہوں گے اُس وقت ملک میں سیاسی عدم ہم آہنگی پیدا کرنا خود حکومت اور ملک کے لیے بہتر ثابت نہیں ہوگا۔ افغانستان میں دائمی امن قائم ہوتا ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کو جو ٹاسک سونپا تھا، وہ اسے حاصل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ زلمے خلیل زاد کا معاہدہ تقریباً ہوگیا ہے، طے پایا ہے کہ طالبان آٹھ دس دن کے لیے جنگ بندی کریں گے، اس مدت کی تکمیل کے بعد معاہدے پر دستخط ہوں گے اور دس دن کے اندر بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے، افغان حکومت کی تحویل میں طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہوگا، جبکہ بین الافغان مذاکرات کی پیش رفت کے ساتھ امریکی افواج کے انخلا کے عمل کا آغاز ہوگا۔ اس وقت امریکی سی آئی اے، پینٹاگون اور امریکی انتظامیہ ایک صفحے پر ہیں، اس پورے عمل سے بھارت کو باہر رکھا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ زلمے خلیل زاد کے ساتھ تعاون کیا گیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذاتی دلچسپی کے باعث یہ کام ہوسکا ہے، پاکستان کے بغیر یہ کام ممکن نہیں تھا۔ اب وہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ طالبان کا قومی حکومت میں کردار کیا ہوگا؟ شمالی اتحاد اور دیگر گروہوں کے ساتھ ان کے تعلقات کیسے ہوں گے؟ یہی وجہ ہے کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ بہت اہمیت کے حامل ہیں، لیکن پاکستان انٹرا افغان ڈائیلاگ میں حصہ دار نہیں ہوگا، اور یہ مرحلہ امریکہ، افغانستان اور شمالی اتحاد کے لیے بہت بڑا امتحان ہوگا۔ یہ مرحلہ کامیاب نہ ہوسکا تو اس خطے میں امن نہیں ہوسکے گا۔
ابھی حال ہی میں افغانستان میں صدارتی انتخابات کے کمیشن نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جس کی رو سے ڈاکٹر اشرف غنی کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اشرف غنی پشتون ہیں، جب کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پشتون نہیں بلکہ تاجک ہیں، وہ اشرف غنی کو تسلیم نہیں کررہے۔ یوں یہ صورتِ حال ایک نیا منظر پیش کررہی ہے۔
امریکہ نے ایف اے ٹی ایف کو بھی ہمارے لیے افغان مسئلے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے، لیکن اس فورم پر چین سی پیک کی وجہ سے ہمیں مسلسل سپورٹ کرتا رہے گا۔ اس بارے میں بھی تلخ حقائق یہ ہیں کہ اس وقت حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث یہ دوست ملک تحفظات ظاہر کررہا ہے۔ یہی وقت ہے کہ حکومت پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے اور متفقہ فیصلے کیے جائیں۔

مہنگائی کے خلاف جماعت اسلامی کی تحریک

ملک کی سیاسی جماعتوں نے حکومت کے خلاف مہنگائی کے ایشو پر احتجاج، مظاہرے اور جلسے، جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی یہ تحریک ملک گیر سطح پر چلائے گی۔ ملک میں پیدا ہونے والی مہنگائی کی بنیادی وجہ حکومت کی نالائقی ہے جو انتظامی امور سمجھ نہیں پارہی۔ اشیائے ضروریہ کی قلت اور مہنگے داموں فروخت نے عام صارفین کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ حکومت یہ معاملہ سمجھ کر حل کرنے کے بجائے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے چینی اور گندم کے بحران پر جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور پنجاب حکومت کو کلین چٹ دینا زیادتی ہے۔ وفاق کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ مہنگائی میں اضافہ شرح سود کی وجہ سے ہے۔ ان حالات میں ملک میں روزگار ماند پڑ گئے ہیں اور ملکی صنعت کا پہیہ رک گیا ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران حکومت نے ٹیکس محصولات میں سے سود کی ادائیگیوں پر 57 فیصد خرچ کیا ہے۔ 6ماہ میں حکومت نے سود کی ادائیگیوں کی مد میں ایک کھرب 30 ارب روپے ادا کیے ہیں۔ بجٹ خسارے میں کمی ہوئی ہے، صوبوں کی جانب سے 323 ارب روپے کی بچت، اور اسٹیٹ بینک نے 426 ارب 50 کروڑ روپے منافع کمایا۔ چھے ماہ کے دوران سود کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کو پورا کرنے کے بعد وفاق کی آمدنی 167 ارب روپے رہی جبکہ کُل اخراجات ایک کھرب 81 ارب روپے رہے۔ حکومت سود کی ادائیگی پر اپنی کُل آمدنی کا57 فی صد خرچ کرچکی ہے لیکن صنعتیں چلانے کے لیے بجلی، گیس کی قیمت کم کرنے کو تیار نہیں ہے، اور وہ اشیاء جن کی قیمت پیٹرول یا ڈالر سے منسلک نہیں ہے، وہ کیوں مہنگی ہورہی ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت کا صوبائی حکومتوں کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔ پنجاب میں جو کچھ عثمان بزدار حکومت کررہی ہے اسے سرے سے ہی نظرانداز کرکے محض سندھ حکومت پر انگلی اٹھائی جارہی ہے۔