طیب اردوان طرابلس کے شہیدوں کا وارث

ترک عوام اور برصغیر کے مسلمانوں کے درمیان اسلامی، ملّی اور تاریخی رشتوں کی جڑیں بہت گہری ہیں، جس کا حوالہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں دیا۔ یہ ایک بالغ نظر، مدبر سیاست دان کا خطاب تھا جس کی بازگشت تادیر اُن قوتوں کے حوصلوں کو مہمیز دے گی جو مسلم امہ کے تصور کو اپنے عقیدے کا جزوِلاینفک سمجھتی ہیں۔
جناب طیب اردوان نہ صرف ترک عوام کے مقبول رہنما ہیں بلکہ مسلم دنیا کے مقبول ترین اور دنیا کے پانچویں مقبول حکمران ہیں۔ ان کا اصل اعزاز یہ ہے کہ وہ طرابلس کے شہیدوں کے لہو کے وارث ہیں۔
علامہ اقبال کی شہرۂ آفاق نظم ’’طرابلس کے شہیدو‘‘ کو ترکی زبان میں پڑھ کر انھوں نے عزم کا اظہار کیا ہے۔ طیب، شیخ بدیع الزماں سعید نورسی کے فکری ’’ورثہ‘‘ کے امین ہیں۔ شیخ نے جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک کے لادینی نظریات کے خلاف مزاحمت جیل کی کال کوٹھری کی قیدِ تنہائی میں کی، وہاں بوسیدہ کاغذوں پر کوئلے سے لکھی تحریروں کے ذریعے مقابلہ کیا۔ شیخ نے اپنی پوری زندگی مزاحمت میں گزار دی، اور اسلام بیزار اتاترک رجیم کے خلاف مزاحمتی تحریک پروان چڑھائی۔
صدر اردوان سول بالادستی کی علامت ہیں۔ انہوں نے اس کو چیلنج کرنے والے مہم جو فوجیوں کی بغاوت پر عوام کی طاقت سے قابو پایا۔ ملک کوسیاسی استحکام اورتیز رفتار معاشی ترقی بخشی۔ وہ اس سیاسی جدوجہد کے علَم بردار ہیں جو 1950ء کے عام انتخابات میں کمال اتاترک کے پہلے جانشین صدر جنرل عصمت انونو جیسی طاقت ور شخصیت کی ’’جلال بایار‘‘ اور عدنان مندریس کی جماعت کے ہاتھوں شکست کے بعد ایک نئے انداز میں شروع ہوئی تھی۔ جلال بایار کمال اتاترک کے آخری دور میں ترکی کے وزیراعظم تھے۔ عدنان مندریس کو جلال بایار ہی سیاست میں لے کر آئے تھے۔ بعدازاں جلال بایار حکومت سے استعفیٰ دے کر الگ ہوئے تو عدنان مندریس نے بھی سرکاری جماعت کو خیرباد کہہ کر الگ جماعت بنا لی۔ 1950ء میں عدنان مندریس کی جماعت نے بھاری اکثریت سے الیکشن جیت لیا، جس کے نتیجے میں جلال بایار صدر اور عدنان مندریس وزیراعظم بنے۔ 1957ء میں دوبارہ انتخاب ہوا تو فوج کی سرپرستی میں جو اتحاد قائم ہوا وہ ڈیمو کریٹک پارٹی کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ عدنان مندریس کی مقبولیت کا راز کسانوں کی فلاح و بہبود پر بھرپور توجہ مرکوز کرنا، زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے فصلوں کی فی ایکڑ پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا، سیلابوں کے پانی کے آگے بند باندھنا، اور اُن پابندیوں میں کمی کرنا تھا جو اسلامی عبادات اور تعلیمات پر عمل کرنے پر کمال اتاترک نے جبراً لگا رکھی تھیں۔ جیسے کسی مسلمان کو حج پر جانے کی اجازت نہیں تھی، کسی کو عربی زبان میں اذان دینے کی اجازت نہیں تھی، سرکاری تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی تعلیم پر پابندی تھی، ایک میونسپل میں ایک سے زائد مساجد پر پابندی تھی، پردہ یا حجاب کرنا قانوناً قابلِ سزا جرم تھا۔ عدنان مندریس نے27 سال بعد جب پہلی بار عربی زبان میں اذان دینے کی اجازت دی تو اس آواز کو سننے کے لیے مساجد کے باہر مرد و زن کا ازدحام تھا، عالمی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ جیسے پوری کی پوری آبادیاں گھروں سے باہر اس آواز کو سننے کے لیے سڑکوں پر آگئی ہوں۔ عدنان مندریس نے ہی 25 سال بعد ترک مسلمانوں کو حج پر جانے کی اجازت دی تھی، اس کے علاوہ سرکاری شعبے میں امام مسجد مدرسہ اسکول قائم کیا،جس کے سند یافتہ خوش الحان قاری اور عربی زبان میں علوم اسلامیہ کی تعلیم حاصل کرنے والے طیب اردوان دو عشروں سے بار بار آزادانہ انتخاب میں بھاری مینڈیٹ سے پہلے وزیراعظم رہے اور پھر ترکی کے صدرمنتخب ہوئے۔ اردوان نے جدید عصری علوم کی تعلیم سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سرکاری ادارے سے حاصل کی۔ واضح رہے اتاترک کی باقیات فوجی رجیم نے 1957ء میں دوبارہ عدنان مندریس کی کامیابی کے بعد ہر ممکن کوشش کی کہ ان کی حکومت گر جائے۔ جب کامیابی کی کوئی صورت نہ نکلی تو مئی 1960ء میں جنرل گروسیل کی قیادت میں مارشل لا لگا دیا، پارلیمنٹ برخواست کردی۔ برطرف حکومت کے صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کو اتاترک کے نظریات سے انحراف کرنے کے الزام میں چار ماہ بعد ستمبر 1960ء میں موت کی سزا سنا دی۔ معزول صدر جلال بایار کی سزائے موت کو پیرانہ سالی کی بنا پر عمر قید میں تبدیل کردیا، جب کہ معزول وزیراعظم عدنان مندریس، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کو 16 اور 17 ستمبر کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔
1966ء میں سلیمان ڈیمرل کو وزیراعظم بنایا گیا، جس کے بعد ترکی میں اسلامی نظریات رکھنے والی قوتوں نے جو شیخ بدیع الزماں نورسیؒ اور سید مودودیؒ کی فکر سے متاثر تھیں (واضح رہے کہ ترکی میں اُس وقت تک سید مودودیؒ کی کئی کتابوں کا ترکی زبان میں ترجمہ ہو چکا تھا۔) پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی قیادت میں نئی صف بندی عمل میں آئی جس نے 1985ء میں رفاہ پارٹی کے نام سے کام شروع کیا۔ بعدازاں حالات کے جبر کے تحت کبھی ایک نام اور کبھی دوسرے نام سے کام کرتے رہے۔ فوجی رجیم نے پروفیسر نجم الدین اربکان کی وزارتِ عظمیٰ چلنے دی اور نہ ہی ان کی پارٹی کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا۔ حتیٰ کہ ان کو جیل میں ڈال کر انتخابی سیاست سے ہی باہر کردیا۔ صدر رجب طیب اردوان نے جن کا تعلق ایک محنت کش گھرانے سے ہے اور جنہوں نے خود استنبول کے گلی کوچوں میں گھوم پھر کر شربت اور ڈبل روٹی فروخت کرنے کی مزدوری کی ہے، 1983ء میں عملی سیاست میں قدم اپنے مرشد ڈاکٹر نجم الدین اربکان مرحوم و مغفورکی رفاہ پارٹی میں شامل ہوکر رکھا۔ وہ اسی جماعت کے ٹکٹ پر 1991ء میں پارلیمنٹ کے رکن بنے، اور 1994ء میں میئر استنبول منتخب ہوئے۔ حُسنِ اتفاق دیکھیے14 اگست 2001ء کو جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی(آق) کی بنیاد رکھی۔ ’’وہ آیا اور چھا گیا‘‘ کے مصداق ’آق‘ نے چند ماہ میں بھاری اکثریت سے انتخابات جیت لیے۔ ایک نظم پڑھنے کی پاداش میں طیب اردوان کے انتخاب لڑنے پر پابندی تھی، عبداللہ گل ملک کے وزیراعظم بنے تو اردوان پر پابندی ہٹائی گئی، وہ 2003ء میں ضمنی انتخاب میں منتخب ہوئے اور وزیراعظم بنے۔ 1994ء میں رجب طیب اردوان استنبول شہر کے میئر منتخب ہوئے تو استنبول شہر میں شہریوں کو تندوروں پر نہ تو روٹی مل رہی تھی اور نہ ہی شہر میں صفائی ستھرائی تھی۔ اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ 1994ء کا استنبول گندا ترین شہر تھا جس کو تین سال میں میئر اردوان نے دنیا کے سات صاف ستھرے ترین شہروں کی صف میں لا کھڑا کیا تھا۔
اردوان کی میئر شپ سے پہلے استنبول میں واقع میزبانِ رسولؐ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزارِ مبارک کے باہر صفائی ستھرائی کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے زائرین کا مزار پر جانا دشوار تھا۔ میئر اردوان نے اس علاقے کو خوب صورت پارک کے ذریعے نہایت دل کش علاقے میں تبدیل کردیا۔ شہر میں اتنے تندور لگوا دیے تھے کہ نہایت ارزاں نرخ پر ہر شہری کے لیے روٹی حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہ رہا۔ پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان (مرحوم و مغفور) کو رجب طیب اردوان آج بھی اپنا مرشد تسلیم کرتے ہیں، حالانکہ وہ ان کی جماعت سے 2001ء میں الگ ہوکر اپنی نئی جماعت کے پلیٹ فارم سے سیاست کررہے ہیں۔ ترکی کی ایک صدی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ اس سیلف میڈ آدمی نے اپنی شب و روز کی سخت محنت و لگن سے اپنی دنیا آپ بنائی ہے، اور اچھی حکمرانی کی مثال قائم کرکے دنیا سے اپنے آپ کو کامیاب سیاست دان کے طور پر منوایا ہے۔
صدرِ ترکی رجب طیب اردوان نے اپنے ملک میں معاشی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچا کر ان کی زندگیوں میں آسودگی پیدا کی ہے۔ اس کی وجہ سے یورپ کا مردِ بیمار ترقی پذیر ممالک کے لیے رول ماڈل بن رہا ہے۔
صدر اردوان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمارے رہنمائوں کے برعکس اپنے سیاسی مخالفوں کے خلاف اپنے ملک سے باہر لب کشائی نہیں کرتے، اور نہ ہی اپنے ملک پر غیر ملکی قرضوں کے بوجھ کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو قرار دے کر فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اردوان نے بھی سابقہ حکومتوں کے دور میں لیے گئے بھاری غیر ملکی قرضوں کی مع سود ادائیگی کی ہے اور کررہے ہیں، مگر کسی نے اُن کے منہ سے یہ لفظ نہیں سنا کہ فلاں شعبے میں ہماری ناکامی کی وجہ ہمارے سیاسی حریف ہیں۔ حالانکہ ترکی میں بھی اور ترکی سے باہر بھی ان کے طاقتور حریفوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو اُن کی مقبولیت اور آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے انہیں منظر سے ہٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ صدرِ ترکی کا پاکستان کا یہ چوتھا دورہ تھا، مگر اس دورے کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ صدر اردوان نے گزشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں کرفیو میں محصور مظلوم کشمیریوں پر ہونے والے بدترین ظلم و ستم پر صدائے احتجاج بلند کی اور ان کے حقِ خود ارادیت کے مطالبے کی پُرجوش حمایت کی تھی، جس کا اعادہ اسی انداز میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی کیا۔
انہوں نے FATF کی گرے لسٹ سے نکلوانے کی حمایت کا بھی بارِ دگر اعادہ کیا۔ یہ پاکستان اور کشمیریوں کے لیے ترک عوام اور ترکی کی حکومت کی لازوال محبت کا مظہرہے۔