سپریم کورٹ آف پاکستان کے فاضل جج جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں اپنا جو تازہ بیان جمع کرایا ہے اُسے پاکستان کی سیاسی، انتظامی اور عدالتی اشرافیہ کا نوحہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔ سپریم کورٹ میں اپنے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں اپنے وکیل منیر اے ملک کے ذریعے انہوں نے ہفتہ کے روز جو جواب الجواب جمع کرایا اس کا ایک ایک لفظ قابلِ غور ہے۔ اس بیان کی صداقت اور حیثیت کا جائزہ تو فاضل عدالت ہی لے گی، لیکن اس میں اٹھائے گئے بعض نکات پوری قوم کے لیے غور و خوض کے بہت سے در وا کررہے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف غیر ملکی جائدادیں چھپانے کے الزام میں صدرِ مملکت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا، جس کی سماعت اب سپریم کورٹ آف پاکستان کررہی ہے۔ آئین کے مطابق عدلیہ کے فاضل ججوں کے خلاف کسی قسم کے مس کنڈکٹ کے الزام میں دائر کیے جانے والے ریفرنس کی سماعت سپریم جوڈیشل کونسل جیسا اعلیٰ اختیاراتی آئینی ادارہ کرتا ہے، لیکن جسٹس افتخار چودھری کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت فوری طور پر سپریم کورٹ کے فل بینچ نے شروع کرکے جو روایت قائم کی تھی، اُسی روایت کے تحت جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت بھی اب سپریم کورٹ آف پاکستان ہی کررہی ہے۔ اس کیس میں ہماری دلچسپی جسٹس فائز عیسیٰ کے مستقبل سے نہیں ہے کہ فیصلہ اُن کے حق میں آتا ہے یا خلاف۔ لیکن اس ریفرنس کا جائزہ لیا جائے اور جسٹس فائز عیسیٰ کے جواب الجواب کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کی سیاسی، عدالتی اور انتظامی اشرافیہ کے علاوہ مقتدر اسٹیبلشمنٹ کی اخلاقی حیثیت کھل کر سامنے آجاتی ہے، جس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اشرافیہ اخلاقی سطح پر کہاں کھڑی ہے۔ صدارتی ریفرنس میں الزام ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی بیرونِ ملک جائدادیں ہیں جو اُن کی اہلیہ اور بچوں کے نام ہیں جن کا انہوں نے اپنے اثاثہ جات میں ذکر نہیں کیا۔ اسلام آباد کے باخبر حلقوں میں عدالتی دائرے کے کئی دوسرے افراد کے نام بھی لیے جارہے ہیں جن کا معاملہ یہی ہے۔ ملکی عدالتوں میں ہر روز پیش آنے والے واقعات اور سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر غور آنے والے ریفرنسز سے بھی ملک کی سب سے اعلیٰ اختیاراتی اشرافیہ کی اخلاقی پوزیشن کے بارے میں سوالات جنم لیتے رہتے ہیں۔ اب جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے جواب الجواب میں جہاں یہ کہا ہے کہ اُن کی اہلیہ اور بچوں نے بیرونِ ملک جائدادیں اپنے ناموں پر خریدیں اور انہیں کہیں آف شور کمپنیوں میں نہیں چھپایا۔ یقیناً جسٹس فائز عیسیٰ کی یہ بات درست ہوگی، تاہم ابھی معتبر عدلیہ کو یہ طے کرنا ہے کہ کیا ان جائدادوں کی خریداری میں استعمال ہونے والی رقم اُن کی اہلیہ اور بچوں کی اپنی کمائی ہوئی رقم ہے، یا اس کا کچھ تعلق جسٹس صاحب سے بھی ہے؟ کیونکہ سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف ایون فیلڈ فلیٹس میں یہی نکتہ تاحال اُٹھا ہوا ہے کہ کیا یہ جائدادیں حسن اور حسین کی اپنی موروثی یا کمائی ہوئی دولت سے خریدی گئی ہیں یا ان کا اصل سورس سابق وزیراعظم نوازشریف ہیں؟ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے جواب الجواب میں یہ اہم نکتہ بھی اُٹھایا ہے کہ عمران خان نے بھی اپنی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے۔ یہ بات درست ہے، لیکن عمران خان کا یہ عمل کسی دوسرے کو ایسا کرنے کا قانونی حق فراہم نہیں کرتا۔ اور اگر عمران خان کی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے بھی ان لوگوں نے اپنے نام پر اور اپنی کمائی سے خریدے ہیں تو شاید جسٹس فائز عیسیٰ کی طرح عمران خان بھی ان کو ظاہر کرنے کے پابند نہیں (بقول جسٹس فائز عیسیٰ) لیکن اگر یہ جائدادیں عملی طور پر عمران خان کی ہیں تو ان کو ظاہر نہ کرنا قانوناً جرم ہے، اور اگر ملک کے سب سے بڑے منتخب ادارے کا قائدِ ایوان، ملک کا منتخب وزیراعظم اور برسراقتدار جماعت کا سربراہ اس بے ضابطگی کا ذمہ دار ٹھیرایا جاتا ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کی اخلاقی سطح کیا ہے۔ اس سے قبل اپنا اقامہ چھپانے پر سابق وزیراعظم نوازشریف نااہل ہوچکے ہیں، بلکہ کئی دیگر نامور پارلیمنٹرینز اور سابق وزراء بھی غیر اعلانیہ اقاموں کے الزام کی زد میں ہیں۔ خود تحریک انصاف کے کئی رہنمائوں پر بھی اقامہ رکھنے کا الزام ہے، لیکن یہ معاملہ تاحال دبا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ بھی حکمران جماعت کی اخلاقی حیثیت کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو نے بلاول ہائوس لاہور میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے جہاں یہ کہہ کر عدلیہ کی اخلاقی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس ڈیم فنڈ اکٹھا کرنے میں لگے رہے، اب بتایا جائے اس ڈیم فنڈ کا کیا ہوا؟ وہیں انہوں نے سیاسی اشرافیہ کی اخلاقی حیثیت کو بھی یہ کہہ کر چیلنج کیا کہ عمران خان سے قبل نوازشریف بھی سلیکٹڈ تھے۔ اس گفتگو کے دوران اُن کا اگلا اعلان تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ موجودہ پاور شیئرنگ فارمولے کے ساتھ وہ اقتدار میں نہیں آئیں گے۔ اس جملے میں جہاں اسٹیبلشمنٹ کی اخلاقی حیثیت واضح ہے، وہیں یہ پیش کش بھی نظر آتی ہے کہ وہ کسی نئے فارمولے کے تحت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پاور شیئرنگ کرسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعویٰ کرنے والے اور ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ لے کر چلنے والے دونوں، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر نہ صرف بیک فٹ پر آگئے بلکہ اپنے مؤقف سے یکسر پیچھے ہٹ گئے۔ اس معاملے میں جماعت اسلامی، جے یو آئی، نیشنل پارٹی اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کے علاوہ پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان نے پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے اپنی اخلاقی ساکھ کی لاج رکھ لی۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بطور قوم ہم اس پست اخلاقی حیثیت کے ساتھ اگلے انتخابات کی جانب بڑھ رہے ہیں، اور اپنی سیاسی، عدالتی اور انتظامی اشرافیہ کی اس اخلاقی پوزیشن کے ساتھ دنیا کے ساتھ معاملات کرنا چاہتے ہیں، اور اسی اخلاقی ریکارڈ کے ساتھ جمہوریت، ریاستِ مدینہ اور قانون کی حکمرانی کے دعوے کررہے ہیں۔ کاش ہم کبھی غور کریں کہ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟