ابوالقاسم سرجری کا باوا

تحریر/مائیکل ہیملٹن مورگن/ترجمہ :ناصر فاروق
اندلس کے شہر مدینہ ازہرہ میں ایک خاتون کے گھر ولادت ہوئی۔ یہ 1005ء کا سال تھا۔ گرمیوں کے چمکتے سورج کی کرنوں میں وہ کھڑکی سے باہر قدرے فاصلے پر شہر قرطبہ کے خط وخال دیکھ رہی تھی۔ وہ ڈری ہوئی تھی کہ اس شاندار شہر کا یہ نظارہ زندگی کا آخری منظر نہ ہو! اُس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اُسے یہ دھڑکا بھی لگا ہوا تھا کہ اُس کا نومولود زندہ بچتا ہے یا نہیں۔ زندگی کے بیس سنہرے برس میں جن شاہانہ تجربات سے وہ گزری، کہیں اُس کا بچہ اُن سے محروم نہ رہ جائے۔ وہ اموی شاہی خانوادہ سے متعلق تھی۔ ہشام دوئم کی لونڈی تھی۔ وہ مہینوں سوچتی رہی تھی کہ اگر اُس کے گھر لڑکا پیدا ہوا توکیا وہ کبھی امیر بن پائے گا؟
اس زچگی کی طبی ذمے داری الزہراوی پر عائد ہوئی۔ وہ بہت مشقت اور مہارت سے کام لے رہا تھا۔ اس ماہر obstetricianکوسوسال تک یورپ میں Albucasis کے نام سے جانا گیا۔ دواسازی پر اُس کی عظیم تصنیف ’’التصریف‘‘ کا لاطینی میں ترجمہ ہوا۔ الزہراوی نے جراحی کے آلہ کلاب کی مدد سے اُس بچے کی دنیا میں آمد ممکن بنائی۔ یہ آلہ کلاب forceps اُس کی اپنی ایجاد تھا، جس سے طویل عرصہ مغربی دنیا نے استفادہ کیا۔ ابن سینا سے ڈھائی ہزار میل دور یہ ہم عصر عرب جراح جدید سرجری کا باوا کہلایا۔
الزہراوی مدینہ ازہرہ کی تعمیر کے دوسال بعد پیدا ہوا تھا، یہ 936 کا سن تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اموی امیر عبدالرحمان سوم نے پُراعتماد انداز میں خلافت کا دعویٰ کیا۔ یہی وہ عہد بھی تھا کہ جب عباسی شان وشوکت برائے نام رہ گئی تھی، اور فاطمی حکمران مشرق وسطیٰ سے شمالی افریقا تک نئی سلطنت مستحکم کررہے تھے۔
یہ اندلسی ماہر جراح اور گائنا کولوجسٹ ماہر دندان ساز اور دواساز بھی تھا۔ یہ سارے علوم اُس نے تیس جلدوں پر مبنی ضخیم کتاب میں محفوظ کیے۔ تاہم یہ پیچیدہ اور پیشہ ورانہ اصطلاحات سے بھرپور تھے، تین صدیوں تک یورپی مترجمین کئی ٹکڑوں اور اجزاء میں اس کا ترجمہ کرتے رہے، اسے لاطینی اور دیگر یورپی زبانوں میں منتقل کیا گیا۔
ابھی جب کہ پلاسٹک سرجری کی تکنیک انسانی دسترس سے 950 سال دوری پر تھی، الزہراوی واضح خطوط پر چارکول کوئلے اور scalpel (آلہ جراحی) سے کام لے رہا تھا، یہ سرجری کا آلہ اُس کی اپنی ایجاد تھا۔ وہ بڑی تیزی سے اضافی چربی جسم سے الگ کردیتا تھا، خون کے بہاؤ کو روکنے کے لیے منہ سے کھائی جانے والی دوائیں استعمال کرتا، اور خوبی سے کٹاؤ کی سلائی کردیتا تھا۔ خلیفہ کے ایک مشیر کو گردے میں پتھری کی شکایت ہوئی، درد کے مارے کسی سے سنبھالا نہ جاتا تھا۔ الزہراوی نے اُسے سکون بخش دوا دی، اور چاندی کی باریک تار مثانے کے رستے گردے تک پہنچائی، اس تار کے سرے پر نکتہ برابر ہیرا لگا ہوا تھا، جس نے پتھری ریزہ ریزہ کردی۔ مریض کی آہ وبکا دھیرے دھیرے ختم ہوگئی۔ مریض نے معالج پر سونے کے سکے نچھاور کردیے۔
الزہراوی وہ پہلا طبیب تھا جس نے hemophilia کی وضاحت کی، hydrocephalus (دماغ کے پردوں میں پانی آجانے) کے مرض کی تشخیص کی۔ مگر وہ اب تک کے کام کو کافی نہیں سمجھتا تھا۔ یہ وہ پہلا معالج تھا جس نے عارضۂ قلب کا مؤثر علم العلاج پیش کیا، قبض کا علاج کیا، صحت بخش خوراک کا تعین کیا، ادویہ میں اجزا کی درست پیمائش کی۔ اُس نے زخموں کی دیکھ بھال، اور ٹوٹی ہڈیوں کی اقسام اور علاج پرتفصیل سے لکھا۔
اُس نے کئی تجرباتی طریقے وضع کیے، جیسے جانوروں کی آنتوں، اون اور ریشم کا زخموں کے ٹانکوں میں استعمال کیا۔ پیشاب کی نالی میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنے کے طبی طریقوں پر عمدہ کام کیا۔ الزہراوی ایک بہترین دندان ساز بھی تھا، کئی ایسے کام کیے جو جدید orthodontia تک رائج ہیں۔ زچگی کی بہترین حالت الزہراوی نے واضح کی، مگر یہ کارنامہ انیسویں صدی کے جرمن ڈاکٹرWalcher کے نام کردیا گیا۔ الزہراوی نے دوسو سے زائد طبی آلات ایجاد کیے، جن میں سے اکثر اُس نے ذاتی طور پر ڈیزائن کیے، ان میں سے کئی معمولی تبدیلی کے بعد ہزار سال تک استعمال کیے گئے۔ اُس کی چار ایجادات میں obstetrical forceps ، کان اور مثانے میں استعمال ہونے والے آلات، اور حلق کی صفائی اور سرجری سے متعلق آلات شامل ہیں۔ اب جب کہ الزہراوی کی عمر اور قوت جواب دے رہی تھی، یہ سب کچھ اُسے ناکافی دکھائی دیتا تھا۔ اُس کی نظر اپنی کامیابیوں پر نہیں بلکہ ناکامیوں پر تھی۔ وہ مدینہ ازہرہ کی اداس شاموں میں سوچا کرتا کہ انسانی زندگی کس قدر ناپائیدار ہے اور انسان کے ذمے کس قدر اہم کام ہیں۔ وہ سوچتا تھا کہ اُس کے بعد نہ جانے علم طب اور مریضوں پر کیا گزرے گی؟
چند ہی برس میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نے وہ تباہی مچائی کہ الزہراوی کی نگاہوں کے سامنے عظیم کتب خانے راکھ ہوگئے۔ بہت سارے عزیز الزہراوی کی آنکھوں کے سامنے تہِ تیغ کردیے گئے۔ دوسوپچاس سال سے قائم اموی خلافت روبہ زوال ہوئی، اور اس کے ساتھ ہی الزہراوی نے بھی داعیِ اجل کو لبیک کہہ دیا۔
زبانی کہانیوں سے قطع نظر، الزہراوی کی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ سامنے نہیں آسکا، کہ آیا وہ کس مزاج کا آدمی تھا، کتنی بیویاں اور کتنے بچے تھے، اور اُس کی شکل صورت کیسی تھی، اور یہ کہ فارغ اوقات میں اُس کے کیا مشاغل تھے؟ اُس کے دوست کون تھے؟ اور کتنی جائداد تھی؟
سب کچھ جدید پہاڑی سلسلے Sierra Morena تلے خاک ہوچکا تھا، ایک عظیم علمی وتہذیبی ورثہ تاریخ میں گُم ہوچکا تھا۔ جو کچھ بچا تھا، وہ بس الزہراوی کی دستی کتب کا ایک مجموعہ ’’کتاب التصریف لمن عجز عن التألیف‘‘ (The Method of Medicine)تھا، جو ایک عرصے تک ذاتی ملکیت میں بے مصرف رہا، اور پھرسو سال بعدایک اطالوی پادری کے ہاتھ لگا، اور اُس نے سوچا کہ شاید شمال کے عیسائیوں کے کچھ کام آسکے!
(جاری ہے)