صوبہ سندھ میں کچھ عرصے تک امن و امان کی صورت حال بہتر رہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر بہت زیادہ بدامنی شروع ہو گئی ہے اور شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو گا جس میں جرم اور بدامنی کی کوئی بڑی خبر سامنے نہ آتی ہو۔ آئے روز صوبہ کے مختلف علاقوں سے ملنے والی اغوا برائے تاوان کے ساتھ ساتھ قتل و غارت گری کی وارداتوں کی اطلاعات او رخبریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ محکمہ پولیس جرائم پیشہ عناصر کی دیدہ دلیری کے ساتھ کی گئی کارروائیوں کو روکنے میں بالکل ناکام ثابت ہو چکا ہے اور اس پر خرچ کیا جانے والا سالانہ اربوں روپے کا بجٹ ایک طرح سے ضائع ہو رہا ہے۔ ہفتہ رفتہ صرف دو دنوں میں ضلع نوشہرو فیروز میں قتل کی دو بڑی اور دل دہلا دینے والی وارداتیں ہوئی ہیں۔ سندھ اسمبلی کی ممبر شہناز انصاری کو بے دردی سے قتل کرنے والے قاتل ابھی گرفتار بھی نہیں ہو پائے تھے کہ بروز اتوار 16 فروری 2020ء یعنی اس قتل کے دوسرے روز ’’کاوش‘‘ اور ’’کے ٹی این‘‘ کے دلیر اور بے باک سینئر رپورٹر عزیز میمن کی محراب پور کے قریب گوڈو شاخ (نہر) سے ملنے والی لاش نے سندھ بھر میں خوف و ہراس اور اضطراب کی لہر دوڑا دی ہے اور عوام کے احساسِ عدم تحفظ میں مذکورہ دو ہائی پروفائل قتل کی وارداتوں کے باعث حد درجہ اضافہ ہوا ہے۔ صحافی عزیز میمن کے قتل نے تو خصوصیت کے ساتھ بہت سارے سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ آخر اس بے ضرر اور قلم کے توسط سے روزی کمانے والے شریف النفس صحافی کو کیوں اور کس لیے قتل کیا گیا ہے اور وہ بھی اتنی بے رحمی کے ساتھ اور بہیمانہ انداز میں، کیوں کہ پہلے ہنوز نامعلوم قاتلوں نے کیبل کی تار کے ذریعے ان کا گلہ گھونٹ کر انہیں قتل کیا ہے اور ان کی لاش بعد میں جس انداز سے گوڈو نہر میں بے دردی کے ساتھ پھینکی گئی ہے اس سے قاتلوں کی سنگ دلی کا بھی پتا چلتا ہے۔ عزیز میمن کے قتل کے بعد سندھ بھر میں صحافی برادری سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور ان کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ بڑے شدومد کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ عزیز میمن کے اس بہیمانہ قتل کو صحافت پر ایک وار اور حملہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔ تادم تحریر پولیس نے مقتول صحافی کے قتل کے شبے میں تین افراد کو گرفتار کر کے ان سے تفتیش کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جب کہ ایس ایس پی نوشہرو فیروز ڈاکٹر محمد فاروق نے کوتاہی برتنے پر محراب پور تھانے کے ایس ایچ او اکرم جانوری کا تبادلہ کر کے ان کی جگہ پر شہاب اکبر کولاچی کو مقرر کر دیا ہے۔ ڈی آئی جی شہید بے نظیر آباد ڈاکٹر مظہر نواز شیخ کے مطابق ہم نے مقتول صحافی کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے اعلیٰ سطح پر تحقیقاتی ٹیمیں مقرر کر دی ہیں اور امید ہے کہ بہت جلد قاتل گرفتار کر لیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ چار روز گزرنے کے باوجود مقتول صحافی کے قتل کا مقدمہ بھی درج نہیں کیا جا سکا ہے۔ مقتول صحافی کے اہل خانہ تو اس بہیمانہ قتل کی وجہ سے شدید صدمے سے دوچار ہوئے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام اور سیاسی، صحافی و سماجی تنظیمیں بھی دکھ اور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں، اور ان کی جانب سے قاتلوں کی فوری گرفتاری کے بعد انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے مقتول صحافی عزیز میمن کی شہرت ایک سچے، کھرے، دلیر اور بے باک صحافی کی سی تھی اور مختلف عوامی مسائل کو وہ بڑی بہادری کے ساتھ بذریعہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اجاگر کیا کرتے تھے، نیز کرپشن اور بدعنوانی کے حوالے سے بھی اپنی رپورٹنگ میں کسی بھی مداہنت یا مصلحت سے کام لینے کے وہ قائل نہیں تھے۔ یہ پہلا قتل نہیں گزشتہ عرصے میں لگ بھگ تین درجن صحافیوں کو اندرون سندھ بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا جا چکا ہے،جو اپنے اپنے انداز میں معاشرے کے لیے غیر مفید اور مجرمانہ سرگرمیوں کے حامل بدنما کرداروں کو بڑی بے باکی کے ساتھ بے نقاب کر رہے تھے اور جس کی سزا ان صحافیوں کو جرائم پیشہ عناصر اور ان کے سرپرست ظالم بھوتاروں اور وڈیروں نے صفحہ ہستی سے مٹانے کی صورت میں دی۔ عزیز میمن بھی ان میں سے ایک ہیں۔ عزیز میمن کے قتل کے اصل محرکات کیا ہیں؟ اس کا علم تو قاتلوں کی گرفتاری اور ان سے تفتیش کے بعد ہی ہو پائے گا، تاہم اس حوالے سے یہ خبریں زبان زدِ عام ہیں کہ جب انہوں نے گزشتہ برس 27 مارچ 2019ء کو پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ٹرین مارچ میں، محراب پور ریلوے اسٹیشن پر استقبال کے لیے جوگی برادری کی خواتین سے اس مارچ کے متعلق انٹرویو کیے تو انہوں نے یہ بتایا کہ اس ٹرین مارچ کے استقبال کے لیے انہیں گوٹھوں سے فی کس دو ہزار روپے دینے کا کہہ کر لایا گیا ہے لیکن اب انہیں صرف دو سو روپے فی خاتون دیے جارہے ہیں اور اس مبینہ زیادتی پر جوگی برادری کی خواتین نے نہ صرف سخت احتجاج کیا بلکہ اس وعدہ خلافی کی شکایت بھی کی۔ یہ خبر ایک طرف ’’کاوش‘‘ میں شہ سرخیوں کے ساتھ چھپی تو دوسری جانب ’’کے ٹی این‘‘ پر بھی بار بار زورشور کے ساتھ چلائی گئی۔ مذکورہ خبر کو بریک کرنے کے بعد ایک طرف اگر عزیز میمن کو ملک گیر مقبولیت اور شہرت ملی تو دوسری طرف انہیں بااثر حکومتی افراد اور افسران کی جانب سے ’’مزہ چکھانے‘‘ کی دھمکیاں ملنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ جس کے بعد عزیز میمن نے اپنی زندگی سے متعلق لاحق شدید خدشات کو بذریعہ میڈیا بیان کیا تھا۔ اس موقع پر ان کی ایک ریکارڈ کردہ ویڈیو بھی بذریعہ سوشل میڈیا وائرل ہوئی تھی جس میں وہ تشویش اور پریشانی کے عالم میں یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’جب سے میں نے بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ کے حوالے سے یہ خبر بریک کی ہے کہ اس میں شرکت کرنے والے مردو خواتین کرائے پر لائے گئے ہیں مقامی جیالوں، ایم این اے اور ایس ایس پی ضلع نوشہرو فیروز نے ان کا جینا حرام کر دیا ہے اور مختلف طریقوں سے انہیں ہراساں کیا جارہا ہے اور دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اب تمہاری خیر نہیں ہے۔ حالاں کہ میرا کسی بھی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں نے بہ طور ایک غیرجانبدار رپورٹر اور صحافی کے مذکورہ خبر بریک کی ہے۔ اپنی جان کو خطرے میں دیکھ کر میں اب اسلام آباد صحافیوں کے پاس اپنی فریاد لے کر پہنچا ہوں کہ مجھے میرے اہل خانہ کو جان و مال کا تحفظ دیا جائے اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو اس ساری صورت حال کا نوٹس لیں۔ (مفہوم ویڈیو) واضح رہے کہ پی پی کے ایم این اے نوشہرو فیروز سید ابرار شاہ ہیں اور اس وقت ایس ایس پی ضلع نوشہرو فیروز طارق ولایت تھے جو عزیز میمن کے ان الزامات کی زد میں تھے۔ جس روز عزیز میمن کو نامعلوم قاتلوں نے بے رحمی کے ساتھ قتل کیا اس روز بھی وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے حسب معمول گھر سے نکلے تھے۔ جب وہ اپنے کیمرہ مین اویس قریشی کے ساتھ محراب پور کے قریب ضلع خیر پور کے گائوں صوفائی سہتو پہنچے تو انہوں نے یہاں پہنچ کر کیمرہ مین سے کہا کہ اب وہ واپس چلے جائیں میں بعد میں خود آجائوں گا اور اس کے چند گھنٹوں کے بعد ہی مقامی چرواہوں نے مقتول صحافی کی لاش کو گوڈونہر میں دیکھا، جس کی اطلاع انہوں نے فوراً مقامی پولیس کو دی۔ لاش کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر میں مقتول صحافی کی گردن میں کیبل کی تار پڑی ہوئی نظر آتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اس تار کے ذریعے سے ہی ان کا گلا گھونٹا گیا ہو گا۔ لیکن اصل حقائق تو پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس کی تفتیش کے بعد ہی سامنے آسکیں گے کہ انہیں پانی میں ڈبو کر مارا گیا یا گلا گھونٹ کر؟؟ مقتول صحافی کی نماز جناہ میں بعد ازاں ہزاروں افراد نے شرکت کی جن میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سید ظفر علی شاہ سمیت صحافی، سیاسی اور سماجی تنظیموں کے وابستگان اور عام افراد بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔
ان کی تدفین بھیگی آنکھوں کے ساتھ مقامی قبرستان میں کی گئی۔ عزیز میمن اسلام آباد سے جب اپنے آبائی علاقے محراب پور واپس پہنچے تو انہیں یرغمال بنا کر حبس بے جا میں رکھا گیا تھا جس کا الزام مقتول صحافی نے پوسنی کملاتی کے ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر ملک شاہد پر عائد کیا تھا اور مقامی صحافیوں نے بھی اس کے خلاف سخت احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ لہٰذا اس سارے پس منظر میں سندھ کے صحافی پی پی رہنمائوں کے خلاف مذکورہ قتل کے حوالے سے الزامات لگا رہے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں عجلت اور جلد بازی مناسب نہیں لگتی کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس بہیمانہ قتل کی واردات کے پیچھے اصل محرکات، عوامل اور افراد بالکل مختلف ہوں اور ممکن ہے کسی نے پی پی اور مقتول صحافی کے مابین اختلاف اور رنجش کا فائدہ اٹھانے کی مذموم سعی کی ہو؟ لہٰذا اس قتل کے اصل حقائق اسی وقت سامنے آئیں گے جب تفتیش مکمل ہو گی۔ مقتول صحافی کیوں کہ بہ طور ایک سماجی ورکر کے بھی کام کیا کرتے تھے اس لیے ان کے بہیمانہ قتل کا دکھ اور صدمہ عوامی حلقوں میں بھی بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا ہے۔ عزیز میمن کے قتل سے قبل گزشتہ برس 4 مئی 2019ء کو پڈعیدن کے صحافی علی شیرراجپر، شاہ پور جہانیاں کے منیر احمد آرائیں، لاڑکانہ منیر سانگی، شادی لارج بدین کے صوفی محمد خان، شکار پور کے امیر بخش بروہی، گمبٹ کے دو صحافیوں باڈرہ کے شان ڈہر، خیرپور کے مشتاق کھنڈ اور فدا مستوئی سمیت صرف اندرون سندھ تقریبا تین درجن صحافیوں کو عشروں میں بے دردی سے قتل کیا جا چکا ہے۔ ان مقتول صحافیوں کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ مقامی وڈیروں، پولیس اور انتظامیہ کے مظالم بدعنوانیوں اور چیرہ دستیوں کو بڑی دلیری کے ساتھ بے نقاب کرنے میں مصروف تھے، جس کی سزا ان کی جان لے کر دی گئی، صوبہ سندھ کے عوام کے ساتھ ساتھ صحافیوں کا بھی مقتل بنا ہوا ہے۔ قانون کی عمل داری اور انصاف کا دور دور تک سراغ نہیں ملتا۔ معلوم نہیں یہ اندھیرا کب چھٹے گا اور اجالا کب طلوع ہو گا؟