قاتل کتوں کی ایف آئی آر کس پر کٹوائی جائے؟۔

تحریر: زیب سندھی/ ترجمہ: اسامہ تنولی

معروف صحافی، کالم نگار، ڈراما، افسانہ و ناول نگار، براڈ کاسٹر، شاعر اور اینکر پرسن محمد خان شیخ المعروف زیب سندھی نے اپنا زیر نظر پُراثر تاثراتی کالم جو بروز منگل 18 فروری 2020ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر لکھا ہے، اس میں آئے روز صوبہ سندھ میں کتوں کی وجہ سے بچوں کی المناک ہلاکتوں پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر روز بے شمار افراد اور معصوم بچے آوارہ اور پاگل کتوں کے اچانک حملے اور ان کے کاٹے جانے کی وجہ سے شدید زخمی اور بسااوقات مناسب علاج اور ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں لیکن حکومتِ سندھ کے متعلقہ ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ گزشتہ کچھ عرصے میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کے متعدد المناک واقعات نے اہلِ سندھ کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ افسوس کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے ہاں سگ گزیدہ اور مارگزیدہ متاثرین کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ یہ کالم بھی اسی تناظر میں لکھا گیا ہے اور دو دردناک حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔
……٭٭٭……

’’اسکول سے واپسی پر دس سالہ لڑکی راحماں کے ہاتھوں سے کتابیں تو شاید اُسی وقت گرگئی ہوں گی، جب ویران علاقے میں اُس نے کتوں کو بھونکتے، غرّاتے اور اپنی طرف بھاگ کر آتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ ٹلٹی کے ایک گوٹھ کی یہ معصوم بیٹی اپنی جان بچانے کے لیے کھیتوں میں بھاگتی اور چیختی چلاّتی رہی اور قاتل کتے اُسے نوچتے اور کھاتے رہے۔ ان خونخوار کتوں نے اُس کے چہرے پر بھی کئی مرتبہ کاٹا۔ معصوم بچی راحماں نے مارے دہشت کے معلوم نہیں کتنی چیخیں ماری ہوں گی اور کتنی سسکیاں مارے درد کے بھری ہوں گی، مدد کے لیے پکاری بھی ہوگی۔ لیکن جب تک اُس کی چیخ و پکار سن کر دیہاتی مدد کو پہنچتے، قاتل کتے معصوم راحماں کو کاٹ کاٹ اور نوچ نوچ کر مار چکے تھے۔ دوسرا المناک واقعہ گمبٹ کے قریب ایک گوٹھ کے باہر پیش آیا ہے، جہاں پر کتوں کے کاٹے ہوئے ایک بچے کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ اخبار میں چھپنے والی تصویر میں اس بچے کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ اس بچے نے اپنے جسم کو خود نوچتے، کھسوٹتے اور کھاتے ہوئے دیکھ کر کس قدر درد محسوس کیا ہوگا۔ خبروں کے مطابق بچے کے دھڑ کا نچلا حصہ کتے نوچ کر کھا چکے تھے۔ اس موقع پر اس معصوم بچے نے کتنی اذیت محسوس کی ہوگی۔ اس دردو کرب کا تصور کرنا بھی بے حد مشکل ہے۔ سندھ میں پاگل کتے انسانوں کو کاٹتے تو رہے ہیں، اور ان کے کاٹنے کی وجہ سے ویکسین نہ ملنے کے باعث لوگ مرتے بھی رہے ہیں، لیکن اب ان قاتل پاگل کتوں نے بچوں پر حملے کرکے براہِ راست مارنا بھی شروع کردیا ہے۔ گزشتہ چار روز کے دوران مذکورہ ایسے دو خوفناک واقعات تو ہوئے ہیں لیکن اس سے قبل بھی کئی افراد کتوں کے حملوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوچکے ہیں، بھلے سے وہ اسپتالوں تک بھی پہنچے ہوں، لیکن مسکین اور لاچار افراد کی سرکاری اسپتالوں میں جو حالت ہوتی ہے اُس کے بارے میں آپ بھی باخبر ہیں اورہم بھی بہ خوبی جانتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ اہلِ سندھ کو پاگل کتے کاٹتے رہے ہیں، اور یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے کہ پاگل کتوںکے کاٹے گئے مسکین اور غریب افراد جن کے پاس اپنی یا اپنے پیاروں کی زندگی بچانے کے لیے بازار سے ویکسین خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، وہ سرکار کی طرف سے ملنے والی ویکسین کے آسرے پر سرکاری اسپتالوں میں پہنچتے ہیں، مگر بیشتر سرکاری اسپتالوں میں انہیں ویکسین موجود نہ ہونے کا کہہ کر مایوس واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ اسپتال سے لوٹائے جانے والے یہ افراد اِدھر اُدھر سے مانگ تانگ کر، یا ادھار وغیرہ لے کر بعدازاں اپنے پیاروں کا علاج کراتے ہیں۔ بعض غریب افراد ویکسین کے حصول کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ساری کوشش اور سعی رائیگاں چلی جاتی ہے، اور یہ لاچار اور بے بس افراد عالمِ بے بسی میں اپنے پیاروں کو تڑپتے اور اذیتیں سہتے ہوئے موت کے منہ میں جاتا ہوا دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مجبور اور بے بس افراد کی مدد اور تعاون کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی قابلِ ذکر ادارے تو ہیں نہیں جن سے کوئی امید وابستہ کی جائے، اور جو برائے نام سرکاری ادارے موجود بھی ہیں تو اُن میں براجمان صاحبان کو اگر کوئی فکر ہے تو بس اپنی خوش حالی کی۔ مسکین اور غریب افراد چاہے مریں یا جئیں، اُن کی بلا سے۔ ایسے مظالم اور زیادتیوں کی خبریں پڑھ اور سن کر ہر حساس انسان نیم جان اور مضطرب ہوجاتا ہے کہ لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول کرنے والے 20ویں گریڈ کے سرکاری ملازمین کی بیگمات بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے بٹور کر بیوائوں اور مستحق و لاچار عورتوں کی حق تلفی کرنے میں مصروف ہیں۔ اس اندھیر نگری کے خلاف سرکار نامدار نے یہ حکم نامہ جاری کیا ہے کہ مسکین و غریب ضعیف العمر خواتین اور بیوائوں سے اُن کے منہ کا نوالہ چھیننے والے بڑے سرکاری افسران کی بیگمات سے ہڑپ کردہ پیسے واپس لیے جائیں گے۔ کئی سرکاری خاتون افسران بھی، جن کے شوہر حضرات کی کمائی اس پر مستزاد ہے اور وہ خود بھی بھاری تنخواہیں وصول کیا کرتی ہیں، مستحق خواتین کے حق پر ڈاکا ڈالنے میں ملوث پائی گئی ہیں۔ کیا ان سب بڑے صاحبان اور بیگمات سے محض پیسے واپس لینا ہی کافی ہے؟ کیا غریب، لاچار، بوڑھی اور بے بس مستحق خواتین کی حق تلفی کرنے اور سرکار سے دھوکا کرنے کے جرم میں انہیں قرار واقعی سزا نہیں ملنی چاہیے؟
بات قاتل کتوں کی تھی اور جاپہنچی مسکین اور بے بس عورتوں کو ملنے والی امداد تک، جسے حرام خور افراد ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ایسے ابتر حالات میں بھلا سگ گزیدہ اور دیگر غریب مریضوں کا سرکاری اسپتالوں میں کیا علاج ہوسکتا ہے! ہمارے ہاں اکثر سرکاری اسپتالوں میں حکومت کی طرف سے دی جانے والی دوائیں غریب مریضوں کو نہیں مل پاتیں، اور بے چارے مریض علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر اپنی جان ہار دیتے ہیں، بعد میں سرکاری دوائیں اسپتالوں میں پڑی پڑی پرانی ہوجاتی ہیں اور انہیں اسپتال انتظامیہ گندگی کے ڈھیر پر پھنکوا دیتی ہے (اکثر اس طرح کی خبریں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں، مترجم)۔ سرکاری دوائیں اسپتالوں کے باہر میڈیکل اسٹورز پر بھی بکتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ پتا نہیں یہ دوائیں مستحق اور ضرورت مند مریضوں کو دیتے وقت سرکاری اسپتالوں کے عملے کے ہاتھ کیوں مفلوج ہوجاتے ہیں؟ سکھر کے سول اسپتال کے لیے لائی گئی دوائیں تو حال ہی میں پہنچنے کے ساتھ ہی گم ہوگئی ہیں، اور ’’کاوش‘‘ میں صفحہ اوّل پر کل جو خبر شائع ہوئی ہے اس کے مطابق بیس لاکھ روپے مالیت کی یہ دوائیں ایک ہی دن میں چوری ہوئی ہیں۔ بیس لاکھ کی دوائیں کوئی ایک چور کسی تھیلے میں ڈال کر یا ان کی گٹھڑی باندھ کر اپنے کاندھے پر رکھ کر تو ساتھ نہیں لے گیا ہوگا۔ اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے مطابق تحقیق شروع کردی گئی ہے، لیکن موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ جب تک بیس لاکھ روپے کی یہ دوائیں برآمد ہوں (جس کی امید کم ہی ہے) اُس وقت تک بے چارے مریضوں کا علاج کس پھکی یا دوا سے کیا جائے گا؟ یہ زبانی کلامی جانچ (تحقیق) چلتی رہے گی اور دوائیں سکھر میں ہی یا پھر کسی دوسرے شہر میں لے جاکر بیچی جاتی رہیں گی… اور رہے غریب مریض، تو وہ بے چارے اسپتال میں دھکے کھاتے رہیں گے۔ تحقیق کا جو نتیجہ نکلے گا اُس کے بارے میں سبھی پیشگی طور پر جانتے ہیں۔ پہلے کون سا نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب اس تحقیق سے کسی اچھائی کی امید رکھی جائے!
خونخوار اور قاتل کتوں کے حملوں کی وجہ سے مرنے والے انسانوں کی ذمہ داری ہمارے ہاں کوئی بھی ادارہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ صحت کھاتے (محکمۂ صحت) کی تو بات چھوڑیے کہ اکثر سرکاری اسپتال، خاص طور پر چھوٹے شہروں کے اسپتال اور رورل ہیلتھ سینٹر اپنے شفا خانے ہونے کی شناخت گنوا چکے ہیں، بلدیاتی ادارے فنڈز کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے حکومتِ سندھ پر الزامات عائد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، تو سندھ سرکار وفاقی حکومت کی جانب انگشت نمائی کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر قاتل کتوں کی ایف آئی آر کس پر کٹوائی جائے؟