امانت ودیانت کا نشان نعمت اللہ خان بھی رخصت ہوئے۔ نظریاتی بانکپن، اصول، دلیل اور جرأت ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ تعصب سے پاک، ملنسار، خندہ پیشانی سے پیش آنے والے نعمت اللہ خان مرشد مودودی کی خوبصورت نثر کا مجسم فن پارہ تھے۔ اپنے پیچھے اچھائیاں، نیکیاں، دعائیں اور بھلائی کا صدقۂ جاریہ چھوڑ گئے۔ کراچی کے ایسے جلیل القدر فرزند تھے کہ ان کی کمی تا ابد محسوس کی جائے گی۔ وہ ایسے دل نواز شہردار تھے کہ اردیشر کائوس جی جیسا زود رنج فرزندِ شہر گھنٹوں نعمت اللہ خان کے لیے رطب اللسان رہا۔ قحط الرجال میں ایسے دیوقامت عبقری کا اٹھ جانا رحمتِ خداوندی سے محروم ہونا ہی قرار پائے گا۔ وہ ’’بابائے شہر‘‘، ’’باغبان‘‘ اور ’’نیک روح‘‘ تھے۔ کراچی انسانوں کا جنگل ہے، اس جنگل میں کسی باکردار انسان کا ہونا اس جنگل کو مہذب سماج کے معنی عطا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ نعمت اللہ خان کراچی کا تابندہ اور روشن چہرہ تھے۔ وگرنہ بھتہ، ٹی ٹی، بوری بند لاشیں، لنگڑے، چرسی، ککی قسائی جیسے بدنما اوصاف نے پورے پاکستان کو وحشت زدہ بنادیا تھا۔
نعمت اللہ خان نے درگاہ اجمیر کے پہلو میں آنکھ کھولی۔ پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں گریجویشن کیا، لیکن صحافت کے کوچے میں آنے کے بجائے قانون دان بننے کی ٹھانی اور کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اپنایا۔ پاکستان کی سب سے بڑی، غیرسرکاری سطح پر سماجی خدمت کی تنظیم الخدمت فائونڈیشن کے چیئرمین رہے۔ عظمت ان پر ٹوٹ کر برس رہی تھی، وہ دنیا کے 20 بہترین اور سرفہرست ’میئرز‘ کے انتخاب کی فہرست میں شامل کیے گئے۔ پرویزمشرف کے دور میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے تحت وجود میں آنے والی شہری حکومت میں کراچی نے نعمت اللہ خان پر اعتماد کیا اور وہ 2001ء میں اس نظام کے اوّل ناظم اعلیٰ منتخب ہوگئے۔ ان کے دورِ نظامت کو کراچی کا سنہرا ترین دور قرار دیا جاتا ہے جو ان کی امانت، دیانت اور صلاحیتوں کا بیّن ثبوت ہے۔ نعمت اللہ خان میدان میں اترے تو دنیا نے یہ منظر دیکھاکہ 4سال کی مختصر مدت میں کراچی کا بجٹ معجزانہ طور پر 6ارب سے بڑھ کر ریکارڈ 42 ارب تک پہنچ گیا۔ سڑکوں پر پہلی بار300کے قریب بڑی گرین بسیں رواں ہوگئیں۔ 18ماڈل پارکس سمیت 300 پارکس اور300 پلے گرائونڈز کی ازسرنو تعمیر کی گئی، طلبہ کے لیے 32 نئے کالج بنائے گئے، اسکولوں کا معیار اس قدر بلند ہوا کہ 4 سال کے عرصے میں اے ون اور اے گریڈ کے طلبہ کی تعداد 200 سے بڑھ کر 2000 تک پہنچ گئی۔ 6 کالجز میں بی سی ایس پروگرام شروع ہوا توطلبہ نہایت معمولی فیس کی ادائیگی کے بعد آئی ٹی گریجویشن کرنے لگے۔ نعمت اللہ خان نے اہلِ کراچی کو جدید سہولیات سے آراستہ کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کا تحفہ دیا۔ کے ایم ڈی سی فیزٹوتکمیل کو پہنچا، ایف ٹی سی فلائی اوور مکمل ہوچکا تھا، شاہراہ قائدین اور شاہراہ فیصل فلائی اوور کا افتتاح ہورہا تھا، لیاری ایکسپریس وے اور ناردرن بائی پاس جیسے میگا پراجیکٹس پر تیزی سے کام جاری تھا، سہراب گوٹھ فلائی اوور، قائدآباد فلائی اوور، اورسب سے بڑھ کر کورنگی تا شاہ فیصل ملیر ریور برج پر تعمیر کراچی پروگرام کے تحت کام کا آغاز ہوا۔ حسن اسکوائر فلائی اوور،کارسازفلائی اوور، اورغریب آباد انڈرپاس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔کلفٹن انڈرپاس پر کام کا آغاز ہوا۔ اسی عرصے میں کراچی کو پانی کی فراہمی کا عظیم منصوبہ کے-تھری شروع ہوا توشہریوں کو کروڑوں گیلن پانی میسر آیا۔ جوترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے تھے میں سمجھتا ہوں ’کے تھری‘ منصوبہ ان میں سب سے اہم منصوبہ تھا۔ راشدمنہاس روڈ، جہانگیر روڈ، ماڑی پور، ڈالمیاروڈ، مہران ہائی وے، ابن سینا روڈ، مائی کلاچی روڈ اور شاہراہ اورنگی سے درجنوں بڑی سڑکوں کی تعمیر کی گئی۔ سفاری پارک کا سفاری ایریا 34سال میں پہلی بار کھلا اورچیئرلفٹ کی تنصیب کا کام مکمل کیاگیا۔ نعمت اللہ خان نے شہر کے لیے 29 ارب روپے کا تعمیر کراچی پروگرام منظورکرایا۔ اب کے پی ٹی، پاکستان اسٹیل اور سول ایوی ایشن اتھارٹی جیسے ادارے ترقی کے عمل میں شریک ہوگئے۔ بے شمار قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل المدتی منصوبے تھے جو متعلقہ اداروں کو سونپ دیئے گئے۔ کراچی شہرمیں ترقیاتی کاموں کا سیلاب آیا تو جنرل پرویزمشرف نے واشگاف الفاظ میں کہاکہ تعمیر کراچی پروگرام نعمت اللہ خان کا آئیڈیا ہے، اصل ہیرو وہی ہیں، حیرت انگیز ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ انہی کوجاتا ہے۔ کراچی میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں تو نعمت اللہ خان کا چرچا دنیا بھرمیں ہونے لگا۔ ورلڈگیزڈاٹ کام نے 2005ء میں بہترین میئر کے مقابلے کے لیے پورے جنوبی ایشیا سے صرف نعمت اللہ خان کو شارٹ لسٹ کیا اوراعتراف کیا کہ اگر نعمت اللہ خان مقابلے کے قوانین کے مطابق اکتوبر 2005ء تک میئر رہ جاتے تو دنیا کے 10بہترین میئرز کے لیے مضبوط ترین امیدوار تھے۔ 4سال میں کراچی کا بجٹ محض 6 سے ریکارڈ 42 ارب تک پہنچ چکا۔ چمکتا، مہکتا اور دمکتا کراچی ان کا خواب تھا جسے انہوںنے مجسم کردکھایا تھا۔ وہ تو رخصت ہوئے لیکن فرزندانِ شہر انہیں بھلا نہ پائیں گے۔ یہ ان کے کردار کا اجلا پن تھا کہ تاریخ میں پہلی بار ترقیاتی کاموں میں سب فریقین کو بلا امتیاز شریک کیاگیا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس وقت کے گورنر ایم کیو ایم ڈاکٹر عشرت العباد خان بھی نعمت اللہ خان کے کردار کے معترف ہوئے۔ انہوں نے کراچی کے لیے ترقیاتی منصوبوں کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے الفاظ نعمت اللہ خان کے کردار کی گواہی تھی کہ ’’عوامی نمائندوں کے لیے آج کا میئر ایمانداری اور بصیرت کی مثال ہے۔ میں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ میرے سینئر ہیں۔ کراچی کے ترقیاتی منصوبے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔‘‘ان کے تخلیقی ذہن سے یہ منصوبہ بھی آشکار ہوا کہ کراچی کی ساحلی پٹی پر رہنے والے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کیا جائے۔ یہ نوجوان بہت اچھے پیراک ہیں۔ ان کے اسی ہنر کو انہوں نے کام میں لانے کا فیصلہ کیا، اور یوں ان نوجوانوں کو کنٹریکٹ پر پیراک کے طور پر بھرتی کرلیاگیا۔ اس طرح انہوں نے نوجوانوں کو مثبت سوچ دی اور ساتھ ہی ساحل پر آنے والوں کی زندگیاں بچانے کا بھی مؤثر انتظام کیا اور کئی جانیں بچائیں۔ ان کے اندر خیرکا چشمہ ہی تھا کہ انہوں نے تھر جیسے محروم اور پسماندہ خطے کے باسیوں کی طرف توجہ کی، اور وہاں خیراتی کام شروع کیے۔ انہوں نے اس علاقے میں اسپتال بھی تعمیر کرایا اور چائنا کٹنگ جیسی قبضہ مافیا کی جدید واردات کو روکنے میں بھی جرأت مندانہ اور دلیرانہ کردار ادا کیا۔ وہ عوامی خدمت کا پیکر تھے۔ نیکی کرنے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر نے ان کی سوچ اور کردار کی آبیاری کی۔ وہ ابوالاعلیٰ کے ان مقلدین میں سے تھے جو محض تحریر تک محدود نہ تھے، بلکہ قرآن کی روشنی پھیلانے والے اس بزرگ کی تفسیر گویا ان کی روح کے خمیر میں گوندھی جاچکی تھی۔ وہ اپنے اعمال سے بھی فکرِ مودودی کے پرچارک اور مثال بن گئے۔ انہوں نے عالمی سطح پر کراچی کا تاثر اور تشخص بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس میں ان کی دنیا کے بہترین میئرز کی فہرست میں انتخاب کی کڑی نہایت کارگر ثابت ہوئی۔ گولی، گالی، بارود، دھماکوں اور لوٹ مار سے پہچانے جانے شہر کو یکایک نئی شناخت مل گئی جو عوامی خدمت، فلاح و بہبود اور ترقی سے عبارت تھی۔ وہ کراچی کی نیک نامی بن کر ابھرے۔ نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی۔ انہوں نے بینکاک، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، چین، امریکہ، روم، فرانس، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، جاپان، ماسکو سمیت دنیا بھر میں کراچی کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے کے لیے کاوشیں کیں۔ کراچی میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار کی۔ تعلیم اور صحت کے منصوبوں پر بھی انہوں نے خصوصی توجہ دی۔ وسائل کی کمیابی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے این جی اوز اور مخیر حضرات کی شراکت داری سے اسکیم شروع کی جس کے تحت ایلمنٹری، پرائمری، سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن کی بہتری کے لیے قابلِ قدر کام کیاگیا۔ سٹیزن فائونڈیشن کے ذریعے کم آمدنی والے علاقوں میں صحت اور تعلیم کی سہولتوں کو بہتر بنایاگیا۔ انہوں نے کراچی میں 32 نئے کالج تعمیر کرائے اور پڑھے لکھے اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے افراد کو اساتذہ کے طور پر مقرر کیاگیا جو تنخواہ کے بغیر ان تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے لگے۔ اس میں ایسے پیشہ ور ماہرین بھی شامل تھے جنہوں نے کراچی کے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے فی سبیل اللہ خدمات انجام دیں۔ انہوں نے تعلیمی اداروں میں داخلوں کی جامع پالیسی بنائی اور یکساں اصول وضع کیے۔ یہ نعمت اللہ خان ہی تھے جنہوں نے تعلیمی اداروں میں مفت درسی کتب کی فراہمی کا نیک کام بھی شروع کیا۔ نعمت اللہ خان کے کارناموں اور خدمات پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ ان کے جانے کا دکھ اپنی جگہ لیکن وہ ان چند خوش بخت فرزندانِ وطن میں شامل تھے جن کی زندگی میں ان کی خدمات کو ساری قوم نے سراہا۔ الخدمت کا اربوں کابجٹ صاف شفاف رکھا۔ فارغ ہوئے تو پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ احسان اللہ وقاص ہمارے پیارے ثانی شاہ ان کی عظمتِ کردار کی ایسی داستانیں سناتے ہیں کہ قرونِ اولیٰ کا دور مجسم ہو جاتا ہے۔ بڑھاپے کے عوارض بلند فشار خون اور ذیابیطس جیسی بیماریاں 90 سالہ، جواں ہمت نعمت اللہ خان کے کام کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ وہ سرتاپا فکرِ مودودی کا نمونہ تھے۔ اقامتِ دین کے ایسے سچے اور مخلص کارکن جو سید بادشاہ کی نثر کا زندۂ جاوید نمونہ تھے۔کراچی ان کا محسن تھا اور وہ کراچی کے محسن تھے۔ اس شان سے رخصت ہوئے کہ عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر ان پر برس رہی ہے۔
(اسلم خان ،نوائے وقت،26فروری2020ء)