حضرت ذوالنون مصری

ابوسعدی
ابوالفیض، ثوبان بن ابراہیم المصری ابتدائی دور کے صوفی بزرگ ہیں۔ بالائی مصر کے ایک قصبے اخمیم میں 180ھ کے قریب پیدا ہوئے۔ ان کے والد نوبیہ کے رہنے والے تھے۔ ایک روایت کے مطابق وہ ایک آزاد شدہ غلام تھے۔ انہوں نے طب، علم الکیمیا اور نیر نجات کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہوا تھا۔ ان کے افکار پر یونانی تعلیمات کا اثر بھی موجود تھا۔ ان کے استاد اور مرشد سعدون مصری بتائے جاتے ہیں۔ ذوالنون نے مکہ مکرمہ، دمشق اور کچھ دوسرے شہروں کی سیاحت کی۔ معتزلہ نے ان سے معاندانہ سلوک کیا۔ آخر عمر میں بغداد میں قید ہوئے، مگر خلیفہ متوکل نے انہیں رہا کردیا اور مصر واپس آگئے، جہاں 246ھ میں انتقال ہوا۔ ذوالنون رئیس الصوفیہ کہلاتے ہیں۔ ان کے مرید بہت تھے۔ سحر اور کیمیا کی چند کتابیں ان سے منسوب کی جاتی ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے صوفیہ کے عقائد بیان کیے، جن کا تذکرہ ان کے ہم عصر محاسبی نے کیا ہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)

رابعہؒ اور سفیان ثوریؒ

ایک دفعہ رابعہ بصریؒ (802ء) بیمار ہوگئیں اور اس عہد کے ایک ولی سفیان ثوریؒ (777ء) آپ کی عیادت کو گئے۔ مزاج پرسی کے بعد کہنے لگے: میں آج بعدازتہجد دعا کروں گا کہ اللہ آپ کو شفا دے۔ رابعہؒ بولیں: سفیان! کیا تم جانتے ہو کہ یہ بیماری اللہ کے حکم سے ہے؟ کہا: بے شک۔ فرمایا: تو آپ اللہ سے ایک ایسی چیز مانگیں گے جو اس کے حکم اور مرضی کے خلاف ہے؟ سفیان نے کہا: سبحان اللہ، تسلیم و رضا کا کیا مقام ہے۔

نااہل قیادت

کسی ملک و قوم کی انتہائی بدقسمتی یہی ہوسکتی ہے کہ نااہل اور اخلاق باختہ قیادت اس کے اقتدار پر قابض ہوجائے۔ ایک سفینۂ حیات کو غرق کرنے کے لیے طوفان کی موجیں وہ کام نہیں کرسکتیں جو اس کے خیانت کار ملاح کرسکتے ہیں۔ کسی قلعے کی دیواروں کو دشمن کے گولے اس آسانی سے نہیں چھید سکتے جس آسانی سے اس کے فرض ناشناس سنتری اس کی تباہی کا سامان کرسکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ایک ملت کے لیے بیرونی خطرے اتنے مہلک نہیں ہوتے، جتنا کہ نااہل قیادت کا داخلی خطرہ مہلک ہوتا ہے۔ پھر اگر حالات معمولی نہ ہوں بلکہ ایک قوم کی تعمیر کا آغاز ہورہا ہو، اور یہ آغاز بھی نہایت ناسازگار احوال کے درمیان ہورہا ہو، ایسے حالات میں کسی غیر صالح قیادت کو ایک منٹ کے لیے بھی گوارا کرنا خلافِ مصلحت ہے۔ ایک غلط قیادت کی بقا کے لیے کسی طرح کی کوشش کرنا ملک و قوم کے ساتھ سب سے بڑی غداری، اور غلط قیادت سے نجات دلانے کی فکر کرنا اس کی سب سے بڑی خیر خواہی ہے۔
(نعیم صدیقی۔ ماہنامہ ترجمان القرآن۔ جولائی2009ء)

جس کی لاٹھی

ایک گائے، ایک بھیڑ اور ایک اونٹ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں انہیں سبز گھاس کی ایک گٹھی مل گئی۔ سوال پیدا ہوا کہ اسے کون کھائے؟ وہ آپس میں جھگڑ ہی رہے تھے کہ وہاں ایک لومڑی آنکلی۔ انہوں نے اسے ثالث بنالیا اور اس نے کہاکہ تم میں سے جس کی عمر سب سے زیادہ ہو وہ اسے کھالے۔ اس نے پہلے بھیڑ سے پوچھا۔ وہ کہنے لگی کہ میں اُس بھیڑ کی بیٹی ہوں جسے حضرت ابراہیمؑ نے ذبح کیا تھا۔ گائے بولی: میں اُس بیل کی ماں ہوں جسے حضرت آدمؑ نے ہل میں جوتا تھا۔ اونٹ کی باری آئی تو وہ اس زور سے بڑبڑایا کہ گائے اور بھیڑ ڈر کے بھاگ گئیں اور وہ گھاس کھا گیا۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔دسمبر 2019ء)

آفت اور زندگی

کسی طرح ایک ہرن کی ایک آنکھ جاتی رہی۔ بے چارہ شکاریوں کے ڈر کے مارے دریا کے کنارے چرا کرتا اور کانڑا رخِ دریا کی طرف رکھتا۔
اتفاقاً کوئی شکاری نائو میں سوار چلا جاتا تھا۔ جوں ہی ہرن کے برابر آیا تڑ سے گولی ماری اور ہرن کا کام تمام کیا۔
حاصل: زندگی پر ہر طرف سے آفت ہے۔ کسی حالت میں مطمئن رہنا نہیں چاہیے۔
(” منتخب الحکایات“….نذیر احمد دہلوی)

زبان زد اشعار

اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
(میرتقی میرؔ)

اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
(علامہ اقبال)

نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
(محسن بھوپالی)