ہر سال وہ اسے گلاب بھیجتا تھا

پروفیسر اطہر صدیقی
ہر سالگرہ پر وہ اسے گلاب بھیجتا تھا اور پھولوں کے ساتھ نتھی نوٹ میں لکھا ہوتا تھا:
’’میں تمہیں اِس برس پچھلے برس کے مقابلے میں اور بھی زیادہ چاہتا ہوں۔ میری محبت ہر برس کے گزرنے کے ساتھ بڑھتی ہی رہے گی‘‘۔
وہ جانتی تھی کہ یہ آخری مرتبہ ہے جب گلاب آئیں گے۔ اس نے سوچا کہ اس دن کے لیے اس نے پھولوں کا آرڈر پہلے سے دے دیا ہوگا۔ اس کا محبت کرنے والا شوہر نہیں جانتا تھا کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا، وہ ہمیشہ وقت سے پہلے کام کرنا پسند کرتا تھا، تاکہ اگر وہ مشغول ہوجائے تب بھی سب کام صحیح وقت پر ہوجائیں۔
اس نے گلاب کی شاخوں کو مناسب طریقے سے کاٹ کر ایک خاص پھول دان میں لگایا اور اسے ایسی جگہ رکھ دیا جہاں اس کی تصویر میں مسکراتا ہوا چہرہ نظر آرہا تھا۔ اپنے شوہر کی مخصوص کرسی پر وہ گھنٹوں بیٹھی گلاب کے پاس رکھی اس کی تصویر کو دیکھتی رہتی۔
ایک سال اور گزر گیا اور اب اپنے شوہر کے بغیر تنہائی اور اکیلے پن کے ساتھ زندگی تو گزارنا ہی تھی جو اب اس کی قسمت بن گئی تھی۔ تب اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی اور باہر… دروازے کے پاس گلاب رکھے ہوئے تھے!!
وہ گلاب اندر لے آئی اور ان کو تعجب اور بے اعتباری سے دیکھا۔ تب وہ فون اٹھا کر لائی اور پھول والے کی دکان پر فون کیا۔ مالکِ دکان نے فون اٹھایا، اس نے اُس سے دریافت کیا کہ کیا وہ بتائے گا کہ اسے اس قدر تکلیف پہنچانے کے لیے کوئی ایسا کیوں کرے گا؟
’’مجھے معلوم ہے آپ کے شوہر کو فوت ہوئے ایک سال سے زیادہ ہوگیا‘‘ دکاندار نے جواب دیا ’’میں جانتا تھا کہ آپ فون کریں گی اور ان پھولوں کے بارے میں جاننا چاہیں گی جو آپ کو آج ملے ہیں۔ ان کی قیمت پہلے سے پیشگی ادا کردی گئی تھی، آپ کے شوہر ہر کام وقت سے پہلے کرنے کے عادی تھے۔ میری فائل میں ایک آرڈر ہے، اس کے مطابق آپ کو پھول ہر سال پہنچتے رہیں گے، جن کی قیمت پیشگی ادا کردی گئی ہے۔ ایک اور بات جو میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو معلوم ہونی چاہیے، انہوں نے ایک خاص چھوٹا سا کارڈ بھی لکھا تھا۔ یہ انہوں نے برسوں پہلے کیا تھا۔ جب کبھی مجھے معلوم ہو کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں، تو وہ کارڈ اگلے سال بھیج دیا جائے‘‘۔
اس نے پھول والے کا شکریہ ادا کیا، فون بند کیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور انگلیاں کانپ رہی تھیں، جب اس نے آہستہ سے وہ کارڈ اٹھایا۔ کارڈ کے اندر اس کے لیے ایک نوٹ لکھا تھا:
’’ہیلو میری محبت، میں جانتا ہوں کہ مجھے گزرے ہوئے ایک برس بیت گیا۔ میں امید کرتا ہوں کہ تم پر یہ سخت وقت بہت مشکل سے نہ گزرا ہو۔ میں جانتا ہوں کہ بہت تنہا ہوگی اور تکلیف بھی بہت شدید ہوگی۔
اور اگر ایسا نہیں ہے تو میں جانتا ہوں کہ میں کیسا محسوس کروں گا۔ جو محبت ہم لوگوں نے شیئر کی اس نے زندگی کی ہر شے کو بے حد خوب صورت بنادیا تھا۔ میں نے تمہیں بہت چاہا ہے جس کا بیان الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔ تم پرفیکٹ بیوی تھیں، تم میری دوست اور محبوبہ تھیں، تم نے میری ہر ضرورت کو پورا کیا۔ میں جانتا ہوں کہ ابھی ایک ہی سال ہوا ہے لیکن براہِ مہربانی کوشش کرو کہ غمگین نہ رہو۔ میں چاہتا ہوں کہ تم خوش رہو اُس وقت بھی جب تم روتی ہو۔ اسی لیے تمہیں گلاب ہر سال پہنچتے رہیں گے۔ جب یہ گلاب تمہیں ملیں تو خوشی کے ان لمحات کے بارے میں سوچو جو ہم نے ساتھ گزارے، اور ہم دونوں کس قدر خوش نصیب تھے۔ میں نے تمہیں ہمیشہ چاہا اور میں جانتا ہوں کہ میں تمہیں ہمیشہ چاہتا رہوں گا۔ زندگی تو گزارنا ہی ہے، اسے گزارو۔ مہربانی کرکے اپنا وقت گزارنے میں خوشی تلاش کرو، اور مجھے امید ہے کہ تمہیں اس کے لیے راستہ بھی مل جائے گا۔
گلاب ہر سال پہنچتے رہیں گے اور اُس وقت آنا بند ہوں گے جب تمہارے دروازے پر دستک دینے پر کوئی جواب نہیں دے گا۔ وہ اُس روز پانچ مرتبہ دستک دینے پہنچے گا، ممکن ہے اُس وقت تم باہر گئی ہوئی ہو، لیکن اس کے آخری بار وہاں جانے پر پتا چل جائے گا، تو وہ بغیر شک و شبہ جان جائے گا کہ گلاب کہاں لے جانا ہے۔ میں نے اسے ہدایت کردی ہے اور جگہ بھی بتادی ہے کہ وہ گلاب وہاں رکھ دے جہاں اب ہم دونوں پھر سے ایک جگہ ہیں‘‘۔
بعض اوقات زندگی میں آپ کو ایک خاص دوست مل جاتا ہے، کوئی ایسا، جو آپ کی زندگی بدل دیتا ہے صرف اس کا حصہ بن کر۔ کوئی ایسا جو آپ کو اتنا ہنساتا ہے کہ آپ ہنسنا بند نہیں کرسکتے، کوئی ایسا جو آپ کو اس امر کا یقین دلاتا ہے کہ دنیا ایک اچھی جگہ ہے، کوئی ایسا جو آپ کو قائل کردیتا ہے کہ ایک ایسا دروازہ ہے جس پر تالا نہیں لگا ہے اور آپ کا منتظر ہے اسے کھولنے کے لیے۔
(انٹرنیٹ پر موصول ای میل کا انگریزی سے اردو ترجمہ)