ترک صدر کا اہل پاکستان سے خطاب، قومی رہنماؤں کے تاثرات

ترک صدر کی جانب سے امت مسلمہ کے تصور کو اجاگر کرنا زندگی بخش ہوا کا خوشگوار جھونکا ہے،سینیٹر سراج الحق

( امیر جماعت اسلامی پاکستان)

برادر ملک ترکی کے محترم صدر رجب طیب اردوان نے پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا وہ اس لحاظ سے نہایت خوش آئند ہیں کہ انہوں نے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی عملی تصویر پیش کی کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ آج جب کہ پوری دنیا میں مسلمان نسلی، علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جکڑ بندیوں میں منقسم ہیں، ترکی کے صدر کی جانب سے امتِ مسلمہ کے تصور کو اجاگر کرنا یقیناً زندگی بخش ہوا کا خوشگوار جھونکا ہے۔ انہوں نے اپنے جامع خطاب میں واضح الفاظ میں اس حقیقت کا اظہار کیا کہ رنگ، نسل اور زبان کے رشتوں سے کہیں زیادہ اہم اور مضبوط ہمارے دینِ اسلام کا رشتہ ہے۔ انہوں نے تاریخی حوالوں سے اس بات کو نمایاں کیا کہ کس طرح برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت کے لیے لگن اور محنت سے دن رات کام کیا اور ہر طرح کی قربانیاں دیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کا یہ کہنا کہ ’’آج پاکستان اور ترکی کے تعلقات جو سب کے لیے قابلِ رشک ہیں، دراصل تاریخی واقعات ہی کے نتیجے میں مضبوط اور پائیدار ہوئے ہیں، اور اسے حقیقی برادرانہ تعلقات کا روپ دیا گیا ہے۔ سلطنتِ غزنیہ کے بانی محمود غزنوی کے دور سے ترک اس وسیع جغرافیہ کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ سلطنتِ مغلیہ کے بانی ترکی النسل ظہیر الدین بابر اور دیگر مغل حکمرانوں نے موجودہ پاکستان سمیت تمام خطے پر تقریباً 350 سال حکومت کی اور ہماری مشترکہ تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ہمارے صدارتی نشان جس پر ترکوں کی جانب سے قائم کردہ 16 ریاستوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں، ان میں سے ظہیر الدین بابر کی قائم کردہ مغلیہ سلطنت اور غزنویوں کی سلطنت کے ستارے چمک رہے ہیں۔ اردو ادب کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب، تحریک خلافت کے روحِ رواں جوہر برادران، بلقانی جنگوں کے موقع پر سلطنتِ عثمانیہ کے فوجی دستوں کی مدد کرنے کے لیے آنے والے عبدالرحمٰن پشاوری جیسی ہستیاں ہماری مشترکہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جانے والی ہستیوں میں سے چند ایک ہیں۔ ترکی اور پاکستان کے تعلقات شاعرِ اعظم محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے قیمتی ورثے ہی کے نتیجے میں موجودہ دور تک پہنچے ہیں۔ حیدرآباد سے لے کر اسلام آباد تک ترکی کے لیے دعائیں کرنے والوں کو بھلا کیسے بھول سکتے ہیں۔ ایسا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘ یہ دراصل ترک صدر کی جانب سے تاریخی حقائق کا جرأت مندانہ اعتراف اور اظہار ہے۔ ترک صدر نے امریکی انتظامیہ اور صدر ٹرمپ کی طرف سے ’’صدی کا منصوبہ‘‘ کے نام سے پیش کردہ بیت المقدس کو اسرائیل کے حوالے کرنے کے منصوبے کو جس دوٹوک انداز میں مسترد کیا وہ بھی امتِ مسلمہ کے جذبات کی حقیقی ترجمانی ہے۔ انہوں نے جن بلند عزائم کا اظہار کیا ہے وہ پوری پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے حوصلوں کو مہمیز دینے کا باعث بنیں گے۔ یہ وہ حقائق اور جذبات ہیں جنہیں مسلمان ممالک کے مغرب پرست حکمران فراموش کرچکے ہیں۔ ہم ان اعلیٰ خیالات اور ان کے جرأت مندانہ اظہار پر ترک صدر رجب طیب اردوان کے شکر گزار بھی ہیں اور انہیں ہدیۂ تبریک بھی پیش کرتے ہیں…!!!

پاکستان اور ترکی کو باہم مل کر مسلم امہ کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کام کرنا ہوگا، مخدوم شاہ محمود قریشی

(وزیر خارجہ)

صدر اردوان کی پاکستان آمد مسرت و اطمینان کا باعث ہے کہ ترکی اور پاکستان کے مابین تعلقات تاریخی اور مثالی نوعیت کے ہیں، اور ہم نے ہمیشہ علاقائی اور عالمی فورمز پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ صدر طیب اردوان کے دورۂ پاکستان کے دوران ہمارا دوطرفہ تعاون کا ایک نیا فریم ورک تشکیل پائے گا۔ پاکستان اور ترکی کے مابین دوطرفہ اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے باہمی تعلقات مزید گہرے اور مستحکم ہوں گے۔ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں ترک صدر اردوان نے اپنی تقریر میں کشمیر کے حوالے سے کھل کر آواز اٹھائی اور دنیا کو بھارتی مظالم کی جانب متوجہ کیا۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم ان گہرے دوطرفہ سیاسی روابط کو اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پربھی ترکی شروع دن سے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کی وکالت کررہا ہے۔ ایوانِ صدر میں عشائیہ کے موقع پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے مابین ملاقات میں بھی دونوں برادر مسلم ممالک کی قیادتوں میں باہمی قریبی تعلقات کی جھلک نمایاں رہی، اور پاکستان ترکی دوطرفہ تعلقات کو مضبوط و متحرک تجارتی اور اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنے اور ایک دوسرے کے اہم قومی مفادات سے متعلق امور اور پُرجوش تعلقات کی اہمیت مکمل طور پر اجاگر کرنے پر بھی اتفاقِ رائے سامنے آیا۔ جبکہ دونوں ممالک کی قیادتوں نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ پاکستان اور ترکی کو باہم مل کر اسلامو فوبیا سمیت مسلم امہ کو درپیش تمام چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ترک صدر اردوان نے بھی سماجی رابطے کے اکائونٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں اس بنیادی نکتے کو ہی فوکس کیا اور باور کرایا کہ پاکستان اور ترکی کو باہم مل کر اسلامو فوبیا سمیت مسلم امہ کو درپیش تمام چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ برادر ترکی کی بھرپور تائید وحمایت اور چین کی معاونت سے ہمیں ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارم پر سرخروئی حاصل ہونے کا قوی امکان ہے۔ مسلم قیادتیں باہم مل کر اتحادِ امت کو پارہ پارہ کرنے کی تمام سازشیں بھی ناکام بنا سکتی ہیں۔

مسلم دنیا کی قیادت کے لیے رجب طیب اردوان سے توقعات وابستہ ہوگئی ہیں،میاں رضا ربانی

( سابق چیئرمین سینیٹ آف پاکستان)

ترک صدر اردوان جو گراس روٹ سے اپنی سیاست کا آغاز کرکے استنبول کی میئرشپ سے وزیراعظم اور صدرِ ترکی کے بلند ترین مناصب تک پہنچے ہیں، اپنے ملک کے عوام کے ہی مقبول قائد نہیں بلکہ اسلامی دنیا کو درپیش مختلف ایشوز پر ان کے متحرک اور فعال کردار اور اتحادِ امت کے لیے ان کی فکرمندی کے ناتے مسلم دنیا کی قیادت کے لیے بھی ان کے ساتھ توقعات وابستہ ہوچکی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ محض برادر مسلم ملک ہونے کے ناتے سے ہی نہیں، اچھے تجارتی، سفارتی اور اسٹرے ٹیجیکل مراسم کی بنیاد پر بھی ان کے قربت و محبت کے رشتے استوار ہیں۔ ان کی قیادت میں ترکی نے اقوام عالم میں پاکستان کو کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا، اور کشمیر ایشو، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پاکستان کے کردار کی ہمیشہ ستائش کی، اور اس کے مؤقف کی پاکستان سے بڑھ کر وکالت کی۔ پاکستان پر زلزلوں، سیلابوں اور موسمی تغیروتبدل سے ٹوٹنے والی قدرتی آفات سے عہدہ برا ہونے کے لیے برادر ترکی ہمیشہ پاکستان کا ہم قدم رہا ہے اور ترکی کی خاتونِ اول 2012ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں پر خود پاکستان آکر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہی ہیں، اس تناظر میں برادر سعودی عرب ہی کی طرح ترکی اور پاکستان کے دل بھی ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں، اور پاکستان کی جانب سے بھی ترکی کا کسی بھی مشکل وقت پر بے لوث ساتھ دیا جاتا ہے۔ جب اردوان کے اقتدار کے خلاف کچھ عرصہ قبل بغاوت ہوئی تو جہاں ترک عوام نے ایک منتخب جمہوری حکومت کے تحفظ کی ناقابلِ فراموش مثال قائم کی، وہیں پاکستان نے بھی سفارتی سطح پر اردوان حکومت کی تائید اور ان کے مؤقف کی بے لوث حمایت کی، جس پر پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کے مزید نزدیک آگئے۔

مسلم دنیا میں اردوان جیسا کوئی لیڈر نہیں،سینیٹر راجا ظفرالحق

(چیئرمین مسلم لیگ (ن)(قائد حزب اختلاف سینیٹ

اسلامی دنیا میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان جیسی جرأت اور سنجیدگی کا مالک کوئی اور لیڈر اس وقت موجود نہیں، ان کا پوری امت کے مستقبل کے بارے میں مؤقف بالکل واضح ہے اور اس مؤقف کو ہر جگہ پذیرائی بھی مل رہی ہے۔ امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل، خواہ مسئلہ کشمیر ہو، خواہ مسئلہ فلسطین ہو، یا اسلامی فوبیا کا مسئلہ، رجب طیب اردوان کا ان مسائل پر جو واضح اور دوٹوک مؤقف ہے وہ کسی اور مسلمان رہنما کا نہیں ہے۔ انہوں نے امریکی صدر کی طرف سے نام نہاد ’’صدی کا معاہدہ‘‘ کے اعلان پر بالکل بجا طور پر امت کو متوجہ کیا کہ ہم بیت المقدس نہ بچا سکے تو مکہ معظمہ اور مدینہ شریف کو بچانا بھی مشکل ہوجائے گا۔ان کا یہ مؤقف ان کی سوچ کی گہرائی کا غماض ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران ان کا یہ اعلان کہ کشمیر کی جو اہمیت پاکستان کے لیے ہے وہی ترکی کے لیے بھی ہے، ان کی اور ترک عوام کی پاکستان اور کشمیریوں سے لازوال محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستانی قوم ان کے دلیرانہ اظہارِ خیال پر ان کی ممنون رہے گی۔

ترکی پاکستان کا بھائی چارہ اتحاد امت کی مضبوط بنیاد بن سکتا ہے، سید فخر امام

(چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی)

صدر رجب طیب اردوان دورۂ پاکستان کی خوشگوار یادیں سمیٹے اپنے ملک واپس جاچکے ہیں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ان کے خطاب کا سب سے اہم حصہ یہ قرار دیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے غیر مشروط طور پر کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی واضح اور کھلی حمایت کی اور کہا کہ کشمیر پر ترکی کا بھی وہی مؤقف ہے جو پاکستان کا ہے۔ ان کے پاکستان میں دو روزہ قیام نے پاک ترک دوستی کی تاثیر کو چاردانگ عالم میں پھیلا دیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے بنیادی ایشوز پر اس کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کا دوٹوک اور پُرعزم اعلان کیا جو پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کرنے کی بھارتی سازشوں کا بھی ٹھوس جواب ہے۔ اب پاکستان اور ترکی دفاعی معاملات میں بھی ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ پاکستان ترکی کے ساتھ اپنے منفرد تعلقات کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہمیشہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ دونوں برادر مسلم ممالک میں بھائی چارے کا یہ جذبہ خلوص نیت کی بنیاد پر اتحادِ امت کی بھی مضبوط بنیاد بن سکتا ہے، اور اس حوالے سے ترک صدر اردوان کا دورۂ پاکستان یقیناً اہم اور عملی پیش رفت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سی پیک علاقے میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعے اس پورے خطے کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کی شاہراہیں کھلتی نظر آرہی ہیں۔ ترک صدر اردوان نے اسی تناظر میں پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور پاکستانی سرمایہ کاروں کو ترکی کی شہریت کی بھی پیشکش کی ہے۔ دونوں ممالک کی قیادتوں نے مسئلہ کشمیر و فلسطین سمیت عالمی تنازعات اور اسلامو فوبیا کے خلاف مل کر کام کرنے کا عزم باندھا، جس کی مشترکہ اعلامیہ میں بھی توثیق کی گئی ہے۔ اس اعلامیہ میں دونوں ممالک کے لازوال تعلقات کے تحفظ پر زور دیا گیا اور دہشت گردی کی لعنت کے خلاف لڑائی کے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا گیا، جبکہ دہشت گردی کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے پر زور دیا گیا۔

اگر مسلم دنیا ہم آہنگ ہوجائے تو یہودو ہنود اور الحاوی طاقتوں کی سازشیں ناکام ہوجائیں گی، خواجہ محمد آصف

(پارلیمانی لیڈر پاکستان مسلم لیگ(ن)

اردوان ایک سچے مسلمان کی حیثیت میں بھائی چارے کے جذبے سے سرشار ہیں، اور اقوام عالم میں مسلم امہ کو درپیش مسائل پر دبنگ لب و لہجے میں آواز اٹھاتے ہیں۔ اس ناتے سے اُن کے ساتھ مسلم دنیا کی قیادت کی توقعات بھی وابستہ ہوچکی ہیں۔ وہ سپرپاور امریکہ کی بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، مسلمانوں کے خلاف بھارت اور اسرائیل کے شر کو بھی بے نقاب کرتے ہیں، اور مسلم دنیا کی قیادتوں کو مصلحتوں اور مفادات کے لبادوں سے باہر نکل کر اتحادِ امت کے لیے یکسو ہونے کی فکر انگیز تلقین کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر مسلم دنیا باہم متحد ہوکر اپنے قدرتی اور زمینی وسائل بشمول تیل، گیس، دھاتوں اور آب و ہوا کو مشترکہ میکنزم طے کرکے ایک دوسرے کی ترقی کے لیے بروئے کار لائے تو مسلم دنیا سے زیادہ خوشحال، مضبوط اور طاقتور کوئی دوسرا خطہ اس کارخانۂ کائنات میں نظر نہ آئے۔ رجب طیب اردوان اسی حقیقت کا ادراک کرکے مسلم دنیا کے اتحاد پر زور دیتے ہیں اور عرب ریاستوں کے علاوہ پاکستان کے ساتھ بھی ان کے اسی ناتے سے گہرے مراسم استوار ہیں۔ یقیناً اہلِ پاکستان بھی اردوان کو اسی حوالے سے احترام و محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی پاکستان آمد پر دیدہ و دل فرشِ راہ کیے رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کے لیے ان کے پارلیمنٹ میں آنے پر فقیدالمثال استقبال کیا گیا اور تمام ارکانِ پارلیمنٹ ان کی آمد پر اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اور ڈیسک بجا کر انہیں خوش آمدید کہا۔ وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ میں ان کا استقبال کرتے ہوئے بجا طور پر یہ ریمارکس دیے کہ اردوان پاکستان میں اتنے مقبول ہیں کہ وہ یہاں سے انتخاب لڑیں تو بھاری اکثریت کے ساتھ جیت جائیں۔ ترک صدر اردوان نے کشمیر ایشو اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کے معاملے میں پاکستان کے مؤقف کی اعلانیہ حمایت کرکے اور مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں پر جاری بھارتی سفاکانہ مظالم کو اجاگر کرکے اہلِ پاکستان کے فی الواقع دل جیت لیے۔ اگر اسی جذبے کے ساتھ پوری مسلم دنیا ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے تو ہمیں منتشر یا کمزور کرنے کی ہنود و یہود و نصاریٰ اور دوسری الحادی قوتوں کی کوئی سازش پنپنے ہی نہ پائے۔ اس کے لیے فکرمندی کا اظہار بھی اردوان ہی کی جانب سے کیا جاتا ہے، جن کی تجاویز کو عملی قالب میں ڈھال کر مسلم دنیا کو ایک مضبوط بلاک اور خطے کی اہم قوت کے طور پر اقوام عالم میں تسلیم کرایا جاسکتا ہے۔

عالمی امن کے لیے ضروری ہے کہ امت متحد ہو، سینیٹرکامل علی آغا

 جنرل سیکریٹری مسلم لیگ (ق) پنجاب

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی پاکستان کے دورے کے دوران باتیں ان کے حوصلے اور برداشت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ پاکستان نے ملائشیا کانفرنس میں شرکت نہیں کی، اس کے باوجود انہوں نے پاکستان اور مسلم امہ سے متحد ہونے اور اتفاق کی توقعات وابستہ کررکھی ہیں، جو اُن کی بڑی شخصیت اور لیڈرشپ کا اظہار ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اُن کا مؤقف لگی لپٹی رکھے بغیر سچ کو تقویت پہنچاتا ہے اور ترک قوم کی پاکستان سے والہانہ محبت کا خوبصورت اظہار ہے۔ یہ ضروری ہے کہ عالمی امن اور مسلمانوں کی بہتری کے لیے مسلمہ امہ اکٹھی ہو، اُن کی یہ خواہش ہے کہ اسلامی ملک مل کر ایسا فورم بنائیں جس سے مسلمہ امہ کا تاثر عالمی سطح پر بہتر ہو۔ جب کہ مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا مؤثر توڑ کیا جا سکے۔ پاکستان نے ملائشیا کانفرنس میں شرکت نہ کرکے نالائقی کا ثبوت دیا، اس کے باوجود طیب اردوان کا مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی بھرپور تائید و حمایت کرنا اُن کی قائدانہ صلاحیتوں اور امتِ مسلمہ کے لیے اُن کے دل میں موجزن جذبات کا عکاس ہے۔

خود کو عالم اسلام کا ایک حقیقی لیڈر تسلیم کروایا ہے، رحیم اللہ یو سف زئی

( سینئرصحافی اور افغان امور کے ماہر)

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں غور سے سنا جاتا ہے۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان کے ساتھ ساتھ ایک بہترین منتظم اور ڈپلومیٹ بھی ہیں۔ اس دورے کے ذریعے وہ اہلِ پاکستان اور ساری امتِ مسلمہ کو یہ پیغام دینے میں کامیاب رہے ہیں کہ طیب اردوان اور ترکی کسی فرد یا جماعت کے بجائے حکومتوں اور ریاستوںکے ساتھ دوستی نبھانے پر یقین رکھتے ہیں، جس کا ثبوت انھوں نے اپنے کردار سے اس دورے اور اپنے حالیہ خطاب کے ذریعے دیا ہے۔ ان کے اس مؤقف سے یہ بات بھی واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ پاک ترک تعلقات افراد اور حکومتوں کی سطح سے بلند ہیں، اور ان تعلقات کے ساتھ عقیدت اور اخوت و محبت کا مضبوط رشتہ ہے۔ ترکی اور اس کے موجودہ صدر طیب اردوان اور پاکستان نے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر ہمیشہ یکساں مؤقف دیا ہے۔ دونوں ممالک کا عالم اسلام کو درپیش فلسطین، کشمیر، قبرص اور شام کے بحرانوں پر یکساں مؤقف ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ خطے اور عالمی مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان قریبی مشاورت ہوتی ہے، اور اکثر فورمز پر یہ دونوں بردار ممالک یکساں مؤقف کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ ہماری یادداشت کے مطابق آج تک ترکی اور پاکستان میں کسی بھی علاقائی اور عالمی مسئلے پر کوئی اختلاف دیکھنے میں نہیں آیا ہے، جو ان دونوں ممالک کے قریبی تعلقات کی واضح مثال ہے۔ یہاں ہمیں ان نکات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ترکی نیٹو کا رکن ہونے اور اس کی افواج افغانستان میں موجود ہونے کے علاوہ اس کے اسرائیل کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات رہے ہیں۔ اور شام و عراق کے بحرانوں کے ساتھ ساتھ کرد مسئلے پر بھی اس کا ایک مخصوص مؤقف ہے، لیکن ان سب کے باوجود ترکی نے نہ صرف خود کو عالم اسلام کا ایک حقیقی لیڈر تسلیم کروایا ہے، بلکہ اس نے پاکستان کے ساتھ مل کر امتِ مسلمہ کو درپیش بحرانوں سے نکالنے میں بھی ایک مخلص اور قریبی دوست کا کردار ادا کیا ہے۔ طیب اردوان جس جرأت سے کشمیر، فلسطین اور قبرص کے مسائل کی بات کرتے ہیں وہ عالم اسلام کا کوئی اور لیڈر اس لیے نہیں کرسکتا کیونکہ اردوان ایک منتخب عوامی راہنما ہیں، جبکہ دیگر مسلمان ممالک میں یا تو بادشاہتیں ہیں، یا پھر وہاں فوجی اور نیم فوجی آمرانہ حکومتیں برسراقتدار ہیں، جو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے زیراثر ہیں، اس لیے اُن کے لیے عالم اسلام کو درپیش مسائل پر کوئی آزادانہ مؤقف اختیار کرنا ممکن نہیں۔ چند ہی اسلامی ممالک ایسے ہیں جن کی خارجہ پالیسی مغربی دبائو سے آزاد ہے، ترکی ان ممالک میں سرفہرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر اسرائیل، امریکہ اور بھارت کی ناراضی اور ان کے دبائو کو کبھی بھی خاطر میں نہیں لایا، بلکہ اس نے ہمیشہ کھل کر ان خطوں کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کی ہے۔ اسرائیل نے جب اپنا دارالحکومت تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا اور اس کی دیکھا دیکھی امریکہ نے بھی ایسا کیا تو ترکی دنیا کا وہ پہلا ملک تھا جس نے ان فیصلوں کے خلاف سخت مؤقف اپناکر ان کی واضح مخالفت کی۔ کسی اور اسلامی ملک کو ان فیصلوں کے خلاف سخت مؤقف اپنانے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ اسی طرح جب گزشتہ سال اگست میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی اور وہاں کرفیو نافذ کرکے لاک ڈائون کا ظالمانہ سلسلہ شروع کیا، تو ترکی نے کھل کر اس بھارتی اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کشمیر کے مسلمانوں کو حق خودارادیت دینے کا مطالبہ کیا، حالانکہ بھارت کو دنیا کی سیاست اور معیشت میں جو مقام حاصل ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی ملک کے لیے اُس کی ناراضی مول لینا آسان نہیں ہے، لیکن ترکی نے اس کی کوئی پروا نہیں کی۔ جہاں تک قبرص کے معاملے کا تعلق ہے یہ تو براہِ راست ترکی کا مسئلہ ہے، اس پر ترکی نے ہمیشہ واضح مؤقف اختیار کیا ہے، جبکہ پاکستان نے بھی ہمیشہ اس مسئلے پر ترکی کے مؤقف کی حمایت کی ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ قریبی دوستی کا عملی ثبوت ہے۔ اسی طرح ترکی نے روس کے ساتھ شام کے ایشو پر اختلافات کے باوجود اپنے تعلقات میں ایک توازن برقرار رکھا ہے جس سے دونوں ممالک آہستہ آہستہ قریب آرہے ہیں، جس کے اثرات خطے کے حالات پر یقیناً مثبت انداز میں پڑیں گے۔

ترکی عالم اسلام کی آواز کے لیے مثال ہے،سکندر حیات خان شیر پائو

(قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر )

پاکستان اور ترکی کے تعلقات پوری اسلامی دنیا کے لیے مثال ہیں۔ ترکی نے ہر کڑے وقت میں نہ صرف پاکستان کا ساتھ دیا ہے بلکہ عالم اسلام کو جب بھی کسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ترکی وہ پہلا ملک ہوتا ہے جو ان مسائل پر عالمِ اسلام کی آواز بن کر ان کی ترجمانی کا حق ادا کرتا ہے۔ طیب اردوان کے حالیہ دورے سے جہاں پاک ترکی تعلقات میں مزید استحکام آئے گا وہیں اس دورے کے نتیجے میں کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ مسائل کے حوالے سے اسرائیل اور بھارت پر عالمی دبائو میں بھی اضافہ ہوگا۔

اردوان حقیقی معنوں میں عالم اسلام کے رہنما بن کر سامنے آئے ہیں،پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام

(پاکستان اسٹڈی سینٹر یونیورسٹی آف پشاور کے ڈائریکٹر اور معروف ماہر تعلیم)

طیب اردوان نے پاکستان کے ویسے تو کئی دورے کیے ہیں لیکن اُن کا حالیہ دورہ پچھلے دوروں سے اس لیے مختلف تھا کہ وہ ان اطلاعات کے بعد پاکستان تشریف لائے کہ کوالالمپور کانفرنس میں عدم شرکت پر وہ پاکستان سے ناراض ہیں، لیکن اب جب وہ پاکستان کا ایک کامیاب دورہ کرچکے ہیں تو اس سے یہ سارے خدشات غلط ثابت ہوگئے ہیں۔ یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ پاکستان اور ترکی نے عالمِ اسلام کو درپیش مسائل پر ہمیشہ یکساں مؤقف اپنایا ہے، خاص کر فلسطین، کشمیر، قبرص اور روہنگیا کے مسلمانوں کو درپیش چیلنجز پر ان دونوں برادر ممالک کا ہمیشہ ایک ہی مؤقف رہا ہے۔ یہ ترکی کے صدر طیب اردوان ہی تھے جنہوں نے برما کے روہنگیا مسلمانوں کی اجتماعی نسل کُشی کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھائی تھی۔ اسی طرح جب بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے راہنمائوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع ہوا تو ترکی عالم اسلام کا وہ پہلا ملک تھا جس نے ان غیر انسانی اور غیر جمہوری اقدامات پر بنگلادیش حکومت کی نہ صرف مذمت کی تھی بلکہ اس کے سفیرکو طلب کرکے ان انتقامی کارروائیوں پر غم وغصے کا اظہار بھی کیا تھا۔ ترک صدر نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر کشمیر، فلسطین اور امتِ مسلمہ کے دیگر مسائل پر جو جان دار مؤقف اختیار کیا تھا اُس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں عالم اسلام کے ایک معتبر راہنما بن کر سامنے آئے ہیں۔ طیب اردوان نے پاکستان کے ساتھ اپنی تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کی اقتصادی طور پر مدد کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کے ایک حقیقی دوست کی نشانی ہے۔

مظاہرہ کرنا ہوگا،حاجی عبدالجلیل جان

۔(جمعیت علمائے اسلام (ف) کے صوبائی ترجمان اور سرحد چیمبر آف کامرس کے نائب صدر )۔

ہمارے حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی سے تو کشمیر کا ایشو پس منظر میں جا چکا ہے، البتہ یہ کریڈٹ ترکی کے صدر طیب اردوان کو جاتا ہے جنہوں نے فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر بغیر کسی مصلحت کے اپنی توانا آواز اٹھائی ہے۔ ترکی کے ساتھ پاکستان اپنے اقتصادی تعلقات کو فروغ دے کر مغربی طاقتوں کے دبائو سے نکل سکتا ہے جس کے لیے پاکستان کے حکمرانوں کو طیب اردوان کی طرح جرأت مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

کشمیر اور فلسطین صرف دوخطوں کے مسائل نہیں ہیں،فضل اللہ دائودزئی

(مسلم لیگ(ن) خیبر پختون خوا کے صدر )

کشمیر اور فلسطین صرف دوخطوں کے مسائل نہیں ہیں، بلکہ یہ لاکھوں مسلمانوں کی زندگی اور موت سے متعلق مسائل ہیں۔ ان مسائل پر طیب اردوان نے جو مؤقف اپنایا ہے اس نے انہیں امتِ مسلمہ کا حقیقی اور متفقہ لیڈر بنادیا ہے۔ ترکی، پاکستان اور ملائشیا مل کر نہ صرف مسلمانوں کی راہنمائی کر سکتے ہیں بلکہ امتِ مسلمہ کو اقتصادی میدان میں درپیش چیلنجز کا بھی مل کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔