لیکن گزشتہ اٹھارہ ماہ سے افغان امن بات چیت سانپ اور سیڑھی کا کھیل ثابت ہوئی ہے
طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ توطے پا گیا، لیکن دستخط سے پہلے ہی اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ برسلز میں امن معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے امریکی وزیردفاع مارک ایسپر نے کہا کہ ’’امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والا سمجھوتا خدشات سے خالی نہیں، تاہم بہت ہی امید افزا ہے۔‘‘
طالبان اور امریکہ کے درمیاں باقاعدہ بات چیت 2018ء کے اواخر سے جاری ہے۔ گزشتہ برس اگست کے اختتام پر خبر آئی تھی کہ طالبان اور امریکہ معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں، جس کے بعد طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اعلان کیا کہ فریقین نے معاہدے کے مسودے تصدیق کے لیے اپنی قیادت کو بھجوا دیے ہیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کی اور واشنگٹن کے صحافتی حلقوں نے خبر دی کہ صدر ٹرمپ نے کچھ مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے 8 ستمبر کو اپنی تمام مصروفیات منسوخ کردی ہیں۔ اسی دوران 5 ستمبر کو کابل میں امریکہ کا ایک فوجی قافلہ طالبان حملے کا نشانہ بنا جس میں امریکہ کے ایک فوجی سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے۔ امریکہ کے دفاعی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس کارروائی کے ذریعے طالبان یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ امن ان کی مجبوری نہیں، اور کابل چھائونی سمیت سارا افغانستان ان کی پہنچ میں ہے۔ اپنے سرکاری اعلان میں طالبان نے کہا کہ وہ بہت غیر مبہم انداز میں امریکیوں کو بتا چکے ہیں کہ امن معاہدے پر دستخط سے پہلے ان کی عسکری کارروائیاں معمول کے مطابق رہیں گی اور کابل کا واقعہ ایسی ہی ایک کارروائی تھی۔
صدر ٹرمپ اس حملے پر مشتعل ہوگئے اور 7 ستمبر کو اپنے مخصوص آتشیں ٹویٹ پیغامات میں انھوں نے طالبان کو قاتل اور خونی قرار دیتے ہوئے امن مذاکرات معطل بلکہ منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ وحشی بے گناہو ں کا خون بہاکر مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط بنارہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان نہ تو امن کے لیے مخلص ہیں، نہ ہی وہ امن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘ اسی دوران امریکی صدر نے انکشاف کیا کہ بالمشافہ ملاقات کے لیے انھوں نے 8 ستمبر کو طالبان نمائندوں کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی تھی لیکن حملے کے بعد دعوت نامہ منسوخ کردیا گیا۔ طالبان نے امن مذاکرات معطل کردینے کے اعلان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کا مزید قیام خود امریکہ کے لیے بہترنہیں اور انھیں یقین ہے کہ امریکی مذاکرات کی میز پر جلد واپس آئیں گے۔
بات چیت کی معطلی کو امریکی فوج کے جنگجو عناصر نے خونریزی کا اجازت نامہ سمجھا اور سارے ملک میں خوفناک بمباری کا سلسلہ شروع ہوا۔ دوسری طرف عبدالرشید دوستم کی بھتہ خور مافیا ’جنبش ملی‘ کی جانب سے شمالی افغانستان میں شہریوں پر حملے شدت اختیار کرگئے۔ عبدالرشید دوستم اس وقت افغانستان کے سینئر نائب صد ر ہیں جن کی سکھا شاہی سے 2014ء کے انتخابات میں ڈاکٹر اشرف غنی صدر ’’منتخب‘‘ ہوئے تھے۔ قندوز، بادغیس، غزنی، بغلان، سمنگان، ننگرہار، تخار، فاریاب اور دوسرے علاقوں پر اتحادی طیاروں کی بمباری سے معصوم بچوں سمیت درجنوں شہری مارے گئے۔ دوسری طرف منشیات کے رسیا افغان فوج کے سپاہیوں نے ناکے لگاکر شہریوں کو لوٹنے کا سلسلہ تیز کردیا۔ طالبان نے بھی اس دوران مؤثر جوابی کارروائیاں کیں جن میں قندوز بغلان شاہراہ پر ناکہ لگاکر افغان فوج کے ایک قافلے کا صفایا، کابل کی مشہورِ زمانہ مارشل فہیم ملٹری اکیڈمی پر حملہ، غزنی، تخار اور فاریاب کے ساتھ جوزجان میں دوستم ملیشیا کے قلب پر یلغار شامل ہیں۔
مذاکرات کی معطلی پر طالبان نے جو پیشن گوئی کی تھی وہ صحیح ثابت ہوئی اور اس سال کے آغاز پر امریکہ نے قطری حکام کے ذریعے طالبان کو بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کی دعوت دے دی۔ پیشکش قبول کرتے ہوئے طالبان نے بات چیت وہیں سے دوبارہ شروع کرنے پر اصرار کیا جہاں سے ستمبر میں یہ سلسلہ رکا تھا، یعنی پہلے فوجی انخلا کا معاہدہ اور اس کے بعد مزید تفصیلات پر گفت و شنید۔ طالبان نے یہ بھی اصرار کیاکہ امریکہ اپنی تمام شرائط کا اخباری نمائندوں کے سامنے اعلان کرے تاکہ انھیں بنیاد بناکر گفتگو کو آگے بڑھایا جاسکے۔ طالبان شکایت کررہے ہیں کہ معاملات پر اتفاقِ رائے کے بعد زلمے خلیل زاد کچھ نئے نکات اٹھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے بات چیت کا سلسلہ غیر ضروری طور پر طول پکڑتا جارہا ہے۔ سہیل شاہین نے اسےMoving goal postحکمت عملی قرار دیا۔ طالبان کو خدشہ ہے کہ امن مذاکرات میں طوالت سے میدان میں برسرِپیکار ان کے سپاہیوں کی توجہ میں خلل پڑسکتا ہے۔ اسے خطرے کے پیشِ نظر طالبان نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مذاکراتی ٹیم اور جنگ میں مصروف عسکری قائدین کو ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ رکھا ہوا ہے، اور یہ دونوں سرگرمیاں متوازی سمت میں چل رہی ہیں۔
اسی دوران کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں State of the Union Addressکے دوران صدر ٹرمپ نے امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ختم کرنے کے عزم کا دوٹوک اظہار کیا۔ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران کیا جانے والا وعدہ دہرایا کہ افغانستان کی طویل و غیر ضروری جنگ کا خاتمہ ان کی ترجیح ہے، اور وہ طالبان سے ایک باوقار معاہدہ کرنے کو تیار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں اپنے اڈوں تک محدود ہمارے سپاہی پولیس کا کردار ادا کررہے ہیں جو دلاوروں کے شایانِ شان نہیں۔ اس موقع پر انھوں نے افغانستان میں تعینات ایک امریکی سارجنٹ کو پیش کیا جس کی واپسی کے لیے اُس کی بیوی نے امریکی صدر سے خصوصی درخواست کی تھی۔ انھوں نے سپاہی کے اہلِ خانہ کو یقین دلایا کہ اسے دوبارہ افغانستان نہیں بھیجا جائے گا، بلکہ اس کے دوسرے ساتھی بھی جلد وطن واپس آجائیں گے۔
ان مذاکرات کا سب سے مایوس کن پہلو یہ ہے کہ بات چیت کے کسی بھی دور کے خاتمے پر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوتا، اور تمام اشارے طالبان کے سہیل شاہین اور امریکی وفد کے قائد زلمے خلیل زاد کے ٹویٹ پیغامات سے ملتے ہیں جو امید افزا ہونے کے باوجود کسی حد تک مبہم ہیں۔ وقتاً فوقتاً امریکی حکام کی جانب سے بات چیت کی تفصیلات سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن حکام کو صحافیوں سے براہِ راست گفتگو کا اختیار نہیں، جس کی وجہ سے ان لوگوں کی شناخت ظاہر نہیں کی جاتی۔ مروجہ صحافتی ضابطوں کے مطابق ان بیانات کی صحت پر تو کوئی شبہ نہیں، لیکن اسے سرکاری مؤقف قرار دینا بھی مشکل ہے۔
تعطل کے بعد جب مذاکرا ت دوبارہ شروع ہوئے تو قطر کے وزیرخارجہ محمد عبدالرحمٰن بن جاسم الثانی بھی اجلاس میں شریک تھے۔ جناب عبدالرحمٰن بن جاسم الثانی جو قطر کے نائب وزیراعظم بھی ہیں، امیر قطر کے بے حد قریب سمجھے جاتے ہیں۔ سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ قطر ثالث کا کردار ادا کرنے پر رضامند ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے قطریوں کا اصرار تھا کہ امن کی مبارک کوششوں میں وہ صرف میزبان اور سہولت کار ہیں۔ 20 جنوری کو افغانستان میں امریکی و نیٹو فوج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر نے طالبان وفد سے خصوصی ملاقات کی جس میں طالبان نے انھیں انخلا کے دوران واپس جاتی فوج کے لیے محفوظ راہداری کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
بات چیت کے آغاز پر طالبان کے اس اصرار کے جواب میں کہ مزید گفتگو سے پہلے ستمبر میں طے پانے والے معاہدے پر دستخط کیے جائیں، جناب خلیل زاد نے طالبان سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا، جس پر طالبان نے اپنا پرانا مؤقف دہرایا کہ انخلا کے ٹائم ٹیبل سے پہلے جنگ بندی نہیں ہوگی۔ طالبان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر اتفاق رائے ہوچکا ہے اور طے شدہ نکتے پر گفتگو دائرے میں سفر کے مترادف ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق اس بات پر کشیدگی اتنی بڑھی کہ طالبان نے باہر جانے کے لیے اپنے بستے سنبھال لیے، لیکن قطری وزیرخارجہ کی درخواست پر ایک مختصر وقفہ کردیا گیا۔ وقفے کے بعد جنگ بندی کے بجائے امریکیوں کی جانب سے ’تشدد آمیز واقعات میں کمی‘ کی تجویز سامنے آئی۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ فوج کے انخلا کے لیے پُرامن ماحول ضروری ہے جس کا طالبان نے وعدہ کیا ہے، ہمیں اس باب میں طالبان کے اخلاص اور صلاحیت پر کوئی شبہ نہیں، لیکن افغانستان میں القاعدہ اور داعش سمیت دوسرے عناصر اور جنگجو بھی موجود ہیں، اور دنیا یہ مشاہدہ کرنا چاہتی ہے کہ طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے بعد افغانستان میں امن کی صورتِ حال کیا ہوگی۔ یہ تجویز اس اعتبار سے مہمل ہے کہ طالبان دوسرے عناصر کے رویوں کی ذمہ داری کیسے قبول کرسکتے ہیں! تاہم یہ بات طے پائی کہ امن معاہدے پر دستخط سے پہلے طالبان اپنی عسکری کارروائیوں کو ایک ہفتے کے لیے محدود کردیں گے۔
طالبان کی جانب سے عسکری کارروائی محدود کرنے پر آمادگی کے بعد 11 فروری کو نیویارک ٹائمز میں امریکی وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ حکام کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی کہ صدر ٹرمپ نے طالبان سے امن معاہدے کی مشروط منظوری دے دی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق امریکہ مکمل جنگ بندی پر اپنے اصرار میں لچک پیدا کرتے ہوئے پُرتشدد کارروائیوں میں ’نمایاں کمی‘ پر آمادہ ہوگیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے رفقا سے کہا ہے کہ اگر طالبان امن کے لیے اپنے عزم، صلاحیت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم از کم 7 دنوں کے لیے عسکری کارروائیوں میں نمایاں کمی کردیں تو امریکہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کو تیار ہے جس پر گزشتہ سال ستمبر میں اتفاق ہوچکا ہے۔
اس ضمن میں 12 فروری کو طالبان اور امریکی وفد کے درمیان 12 گھنٹے طویل ملاقات ہوئی جس میں صدر ٹرمپ کی جانب سے تشدد میں نمایاں کمی کے مطالبے پر طالبان نے اپنا مؤقف پیش کیا۔ اس سے ایک دن پہلے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے الگ الگ بات کرکے ان دونوں رہنمائوں کو مجوزہ امن معاہدے پر اعتماد میں لے چکے تھے۔ یہ گفتگو مبینہ طور پر نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور طے پایا کہ اس مہینے کی 21 تاریخ سے طالبان اپنی عسکری کارروائیاں محدود کردیں گے، جس کے بعد مارچ کے پہلے ہفتے میں طالبان امریکہ امن معاہدے پر دستخط کا قوی امکان ہے۔
دنیا کو اس کلیدی اور چشم کشا اتفاقِ رائے کی اطلاع بھی امریکی ٹیلی ویژن CNN سے ملی، اور اس سلسلے میں کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔ سی این این نے امریکی وزارتِ دفاع کے دو اعلیٰ افسران کے حوالے سے انکشاف کیا کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے پر اصولی اتفاق ہوچکا ہے اور صدر ٹرمپ جلد از جلد معاہدے پر زور دے رہے ہیں۔ صحافتی ذرائع کے مطابق طے ہونے والے نکات کچھ اس طرح ہیں:
٭ ’پُرتشدد کارروائیوں میں نمایاں کمی‘ اور انخلا کے دوران نیٹو کو محفوظ و باوقار راستہ فراہم کیا جائے گا۔
٭اس عرصے میں طالبان اتحادیوں پر حملے نہیں کریں گے۔
٭فوجی انخلا کے دوران امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے طالبان افغان فوج کے خلاف بھی حملوں میں پہل نہیں کریں گے۔
٭طالبان کا اصرار ہے کہ معاہدہ اماراتِ اسلامیہ افغانستان اور نیٹو کے درمیان ہو، تاہم اس مسئلے پر اتفاق ہوتا نظر نہیں آرہا، اور خیال ہے کہ مسودے پر تحریک طالبان تحریر ہوگا۔
طالبان کی جانب سے سرکاری طور پر اب تک عسکری سرگرمیاں محدود کردینے کی تصدیق نہیں ہوسکی اور صحافتی حلقوں کے مطابق طالبان مذاکراتی وفد کے قائد ملا عبدالغنی برادر نے اپنے امیر ملا ہبت اللہ اخوند اور طالبان کی شوریٰ کو معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کردیا ہے۔ امریکیوں کو یقین ہے کہ طالبان شوریٰ 7 روزہ مفاہمت پر نہ صرف رضامند ہوچکی ہے بلکہ فیلڈ کمانڈروں کو ہدایات بھی جاری کردی گئی ہیں۔ اسی بنا پر وزیردفاع مارک ایسپر نیٹو اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے لیے بنفسِ نفیس برسلز (بیلجیم) پہنچے۔ اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ تشدد میں کمی پر معاہدہ طے پاچکا ہے، اور دونوں فریق افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مخلص اور پُرعزم ہیں۔ جب اُن سے فوجی انخلا کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ 6200 فوجی فوری طور پر واپس بلائے جاسکتے ہیں۔
دوسری طرف ڈاکٹر اشرف غنی نے روایتی لویا جرگہ بلانے کی تیاری شروع کردی ہے۔ لویا جرگہ طالبان سے مذاکرات کے لیے افغان وفد کی تشکیل اور بات چیت کے نکات طے کرے گا۔ طالبان کا اصرار ہے کہ ’کٹھ پتلیوں‘ سے مذاکرات کے بجائے مستقبل کی صورت گری کے لیے افغان ملت سے مشورہ کیا جائے گا۔ لویا جرگا کی تشکیل اسی جانب ایک قدم ہے۔
پُرتشدد کارروائیوں میں کمی پر مفاہمت کے باب میں جاری ہونے والی اطلاعات خاصی مبہم ہیں، یعنی یہ بات واضح نہیں کہ ’کمی‘ سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا اطلاق صرف اُن علاقوں پر ہوگا جہاں اتحادیوں کی چوکیاں، اڈے اور تنصیبات ہیں، یا سارے افغانستان کی بات ہورہی ہے؟ ’کمی‘ کو ناپنے اور جانچنے کا معیار کیا ہوگا اور اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اس دوران ’نامعلوم‘ عناصر کی سرگرمیاں کس کے کھاتے میں جائیں گی؟ طالبان صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ معاہدے کے بعد بھی امن کی ضمانت صرف امریکہ اور نیٹو کے لیے ہے، کٹھ پتلیوں اور داعش کی سرکوبی جاری رہے گی۔ طالبان اشرف غنی سرکار کو کٹھ پتلی کہتے ہیں۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پُرتشدد کارروائیوں میں 7 روزہ کمی لانے سے متعلق معاہدے کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ پہلے کہا جارہا تھا کہ اعلان 16 فروری کو ہوگا جس کے بعد پیر17 فروری سے مفاہمت پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا، اب کہا جارہا ہے کہ امیرِطالبان کی جانب سے توثیق کے بعد 20 فروری کو باضابطہ اعلان کے بعد 21 فروری سے عسکری کارروائیاں محدود کردی جائیں گی، اور اگر7 دن امن رہا تو 29 فروری کو انخلا کے معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔
امریکہ کی جانب سے ایک اہم تبدیلی یہ نوٹ کی گئی ہے کہ اِس بار صدرٹرمپ نے اپنے وزیردفاع کو تفصیلات طے کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ گزشتہ سال ان امور کی نگرانی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کررہے تھے۔ جناب پومپیو کے بارے میں ایک عام تاثر ہے کہ موصوف سخت گیر اور جنگجو صفت کے ساتھ مسلم مخالف جذبات کے حامل ہیں۔ گزشتہ بار انھوں نے امن معاہدے کے مسودے کو دستخط کے لیے صدر ٹرمپ کو بھجوانے سے پہلے اس پر سرِنام یا initialثبت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ کچھ تحفظات کے باوجود مارک ایسپر امن معاہدے کے بارے میں پُرامید نظر آتے ہیں۔ میونخ میں سلامتی سے متعلق اجلاس میں انھوں نے اپنے اتحادیوں سے کہا کہ ’’ہمیں امن کو ایک موقع دینا چاہیے اور خدشات و خطرات کے خوف سے اس سنہرے موقع کو گنوادینا مناسب نہیں۔‘‘
افغان شاہراہِ امن میں جگہ جگہ تخریب کاری کی بارودی سرنگیں اور ٹائم بم نصب ہیں۔ داعش کے ساتھ ساتھ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود افغان حکومت ہے، جس کے پیروں تلے زمین کھسکتی نظر آرہی ہے۔ مکمل امن کے باوجود حالیہ انتخابات میں 10 فیصد سے کم افغان، ووٹ ڈالنے گھر سے باہر نکلے، اس کے باوجود ڈاکٹر اشرف غنی خود کو افغانیوں کا منتخب نمائندہ قرار دے رہے ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکی فوج کے جاتے ہی ان کی حکومت ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ جائے گی، لہٰذا ان کی پوری کوشش ہے کہ طالبان و امریکہ کے درمیان کوئی مفاہمت نہ ہونے پائے۔
ایک بہت بڑا خطرہ مسلح جنگجو گروہ ہیں جو افغانستان کی قبائلی ہیئت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ پشتونوں کی اکثریت طالبان کی حامی ہے، چنانچہ انھوں نے غیر پشتون فارسی بانوں کی پشت پناہی کی۔ فوج، پولیس اور انتظامیہ میں بڑے عہدوں پر فارسی بانوں کو تعینات کیا گیا۔ افغانستان پر حملے کے دوران شمالی اتحاد نے طالبان دشمنی میں امریکہ کی بھرپور حمایت کی تھی جس کی وجہ سے جنگجو سرداروں کے پاس جدید ترین اسلحہ کے انبار موجود ہیں۔ حمایت کے صلے میں ڈالروں کی بھی خاصی ریل پیل ہے، اور اب بہت سے جنگجو سردار، خاص طور سے جمعیت اسلامی کے حاجی عطا محمد نور، جنبش ملی کے عبدالرشید دوستم اور ہزارہ رہنما محمد محقق کی زیرقیادت ملیشیا خاصی منظم ہیں جنھیں طالبان کی زیرقیادت ایک مضبوط وفاقی حکومت کسی طور گوارا نہیں۔
بعد از انخلا بندوبست کے بارے میں خدشات اور حالیہ مذاکرات کے حوالے سے ابہام و تحفظات کے باوجود اب تک تمام اشارے مثبت نظر آرہے ہیں۔ لیکن گزشتہ اٹھارہ ماہ سے افغان امن بات چیت سانپ اور سیڑھی کا کھیل ثابت ہوئی ہے، اس لیے جب تک غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد اتفاقِ رائے سے افغان قومی حکومت قائم نہیں ہوجاتی، کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔