ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان دو روزہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچے۔ ترک صدر وزیراعظم عمران خان کی دعوت پر پاکستان آئے۔ نور خان ایئربیس پہنچنے پر ترک صدر کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ صدر اردوان خصوصی طیارے کے ذریعے مقامی وقت کے مطابق 10 بجے روانہ ہوئے، اسلام آباد پہنچنے پر پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ان کا استقبال کیا۔ دورے میں ان کی اہلیہ امینہ اردوان، وزیر خارجہ میولود چاوش اولو، وزیر توانائی و قدرتی وسائل فاتح دونمیز، وزیر خزانہ بیرات آلبائراک، وزیر تجارت رخسار پیک جان، وزیر مواصلات و انفرااسٹرکچر مہمت جاہد طورخان، وزیر مواصلات فخر الدین آلتن اور صدارتی ترجمان ابراہیم قالن بھی صدر رجب طیب اردوان کے ہمراہ تھے۔ وزیر تجارت، ٹرانسپورٹ اینڈ انفرا اسٹرکچر اور وزیر امور خارجہ اور تاجروں کا ایک بڑا وفد بھی پاکستان پہنچا تھا۔ ترک صدر کے ہمراہ ان کی مترجم فاطمہ ابو شناب بھی اسلام آباد آئیں۔ فاطمہ ابوشناب ایک بہت ہی قابل خاتون مانی جاتی ہیں جو ترکی کی مشہور مسلمان خاتون سیاست دان مروہ قواکچی کی صاحبزادی ہیں۔ مروہ قواکچی کو اپنے اسلامی نظریات کی وجہ سے ترکی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ اپنی پارلیمنٹ کی رکنیت اور شہریت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ رجب طیب اردوان کے اقتدار میں آنے کے بعد مروہ قواکچی کو بیرون ملک ترکی کا سفیر تعینات کردیا گیا تھا۔ جبکہ اب ان کی صاحبزادی فاطمہ ابوشناب صدر رجب طیب اردوان کے قریبی ترین ساتھیوں میں سے ایک تصور کی جاتی ہیں۔ اس دورے میں پاکستان اور ترکی کے درمیان 13 اہم ترین معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ حکومت، قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہبازشریف، اپوزیشن جماعتوں اور جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے جماعت اسلامی کی جانب سے ترک صدر کے دورۂ پاکستان کا خوش دلی سے خیرمقدم کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے نورخان ایئربیس پر تر ک صدر کا استقبال کیا اور انہیں خود گاڑی چلا کر وزیراعظم ہائوس پہنچے۔ ایئربیس پر معزز مہمان کا پُرتپاک خیرمقدم کیا گیا۔ ترک صدر کے دورۂ پاکستان میں یہ بات طے ہوئی کہ دونوں ملک باہمی تجارت بڑھائیں گے، ترکی سی پیک کا بھی حصہ بنے گا، اس نے گوادر میں سی پورٹ پر برتھنگ میں دلچسپی لی ہے۔ ترک کمپنیوں کو کراچی اور گوادر کے بندرگاہی شہروں میں قائم ہونے والے ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز میں اپنی صنعتیں قائم کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ فیصلہ ہوا کہ اس سال کے آخر میں کراچی میں میری ٹائم ایکسپو ہوگی اور ترک کمپنیاں اس میں شریک ہوں گی۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ پارلیمنٹ سے ان کا یہ چوتھی بار خطاب تھا۔ ترک صدر طیب اردوان نے دورہ پاکستان کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران اور بعد میں مشترکہ اعلامیے میں بھی بھارت پر واضح کردیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور ترکی کا مؤقف ایک ہے۔ صدر اردوان نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار بھی کیا۔ پارلیمنٹ سے خطاب اور اپنی گفتگو میں کشمیریوں کی حمایت کرکے ترک صدر نے تو اپنا فرض پورا کردیا، لیکن ہماری حکومت نے آج تک نہیں بتایا کہ کشمیر پر اس کا مؤقف کیا ہے؟ پانچ اگست کے اقدام کے بعد مکمل خاموشی ہے، محض نمائشی کام ہورہے ہیں۔ حکومت نے ترک صدر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا موقع دیا لیکن پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں کے ساتھ ان کی ملاقات کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اپوزیشن سے بہت خوف زدہ تھی۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا یہ دورہ ترکی پاکستان اعلیٰ سطحی اسٹرے ٹیجک تعاون کونسل کے چھٹے اجلاس میں شرکت کے لیے تھا، لیکن ترک صدر رجب طیب اردوان اور وزیراعظم عمران خان کی ون آن ون ملاقات ہوئی۔ دونوں رہنمائوں نے پاک، ترک اسٹرے ٹیجک تعاون کونسل کی مشترکہ صدارت کی اور ترک صدر کے دورے کے دوران متعدد معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔ ان کے دورۂ اسلام آباد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترک صدر کے صدارتی دفتر سے ان کے دورۂ پاکستان کے بارے میں خصوصی بیان بھی جاری کیا گیا کہ ’’ترکی پاکستان اعلیٰ سطحی اسٹرے ٹیجک تعاون کونسل کا اجلاس صدر رجب طیب اردوان اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی زیر قیادت اور متعلقہ وزراء کی شرکت سے اسلام آباد میںہوگا، اجلاس میں ترکی اور پاکستان کے باہمی تعلقات کا تمام پہلوئوں سے جائزہ لیا جائے گا اور باہمی تعاون کے فروغ کے لیے اٹھائے جاسکنے والے اقدامات پر بات چیت کی جائے گی، اجلاس میں متعدد سمجھوتوں پر بھی دستخط کیے جائیں گے۔ ترکی پاکستان ٹریڈ فورم کا اجلاس بھی ہوگا۔‘‘
صدر رجب طیب اردوان نے صدر عارف علوی کے ساتھ بھی ملاقات کی اور قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ ترک صدر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو وزیراعظم عمران خان، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے معزز مہمان کا استقبال کیا۔ تینوں مسلح افواج کے سربراہ بھی موجود تھے۔ پارلیمنٹ کے ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر ترک صدر کا استقبال کیا۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے قومی ترانے بھی بجائے گئے۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے کیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ترک صدر کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ طیب اردوان مسلم دنیا کے حقیقی رہنما ہیں۔ وہ پاکستان کے سچے دوست اور مسلم امہ کے اہم رہنما ہیں۔ رجب طیب اردوان اس قوم کے رہنما ہیں جس سے ہمارا صدیوں پرانا رشتہ ہے۔ مسئلہ کشمیر پر دوٹوک مؤقف پر پاکستانی عوام رجب طیب اردوان کو سلام پیش کرتے ہیں۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گورنرز، وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر اور مسلح افواج کے سربراہ بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ صدر اردوان کا پارلیمنٹ سے خطاب جرأت کی علامت تھا، انہوں نے اپنے خطاب میں مودی کو للکارا، کہ کشمیر پر ترکی کا وہی مؤقف ہے جو پاکستان کا ہے۔ ترک صدر نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان میرے لیے دوسرے گھر کا درجہ رکھتا ہے، کشمیر ہمارے لیے وہی ہے جو آپ کے لیے ہے، دونوں ممالک تجارت، سرمایہ کاری اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھا رہے ہیں، پاکستانی حکومت کے مثبت اقدامات سے سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے سازگار ماحول بن رہا ہے، کوشش ہوگی کہ پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بھرپور فروغ دیا جائے، ترک تاجروں اور صنعت کاروں کے بڑے وفد کے ساتھ پاکستان آیا ہوں، پاکستان ترقی و خوشحالی کی جانب رواں دواں ہے، پاکستان قوم نے جس طرح اپنا پیٹ کاٹ کر ہماری مدد کی تھی وہ کبھی نہیں بھول سکتے، دونوں ممالک کی دوستی مفاد پر نہیں عشق و محبت پر مبنی ہے، ترک تحریکِ آزادی میں پاکستانی خواتین نے زیور اور بزرگوں نے جمع پونجی تک وقف کردی تھی۔ انہوں نے تحریکِ خلافت میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی خدمات کو بھی سراہا اور کہا کہ ترکی کی آزادی میں برصغیر کے مسلمانوں کے جذبے اور کردار کو فراموش نہیں کرسکتے، ترک قوم کی جدوجہد کے وقت لاہور میں کیے گئے حمایتی جلسے آج بھی ہمیں یاد ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے یہ بھی کہاکہ ایف اے ٹی ایف میں تمام تر دبائو کے باوجود پاکستان کا ساتھ دینے کا یقین دلاتے ہیں۔ ٹرمپ کی طرف سے صدی کے منصوبے سے تباہی کا منصوبہ پیش کرنے کی سب سے زیادہ مخالفت ہم نے کی۔ فلسطین، قبرص، کشمیر اور دیگر مسائل حل ہونے کے لیے ہیں۔ خاص طور پر ٹرمپ اور اسرائیل کے درمیان القدس پر قبضے کا منصوبہ ہے، امریکہ اور اسرائیل کا منصوبہ امن کا منصوبہ نہیں۔ ہم 40 لاکھ شامیوں کی میزبانی کررہے ہیں۔40 ملین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کررہے ہیں۔ لیبیا سے لے کر یمن تک ترکی کا اوّلین مقصد خون اور آنسووں کا سدباب کرنا ہے۔ ترک قوم35 سال سے علیحدگی پسند تنظیموں سے نبرد آزما ہے۔ پاکستان میں زلزلے اور سیلاب کے دوران ترک عوام نے بھرپور مدد کی۔ کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل جبری پالیسیوں سے نہیں بلکہ انصاف کے ذریعے ممکن ہے، بھارت کے یک طرفہ اقدام سے کشمیری بھائیوں کی تکالیف میں مزید اضافہ ہوا ہے، مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں ترکی نے اپنا بھرپور مؤقف اپنایا ہے۔ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کے اقدامات قابلِ تعریف ہیں۔ ہم فلسطین، قبرص اور کشمیر کے مسلمانوں کے لیے دعاگو ہیں۔ سرحد اور فاصلے مسلمانوں کے درمیان فاصلہ پیدا نہیں کرسکتے، اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان سے ترک صدر طیب اردوان کی ون آن ون ملاقات بھی ہوئی۔ ترک صدر رجب طیب اردوان وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو وزیراعظم عمران خان نے اُن کا استقبال کیا۔ اس ملاقات میں دو طرفہ امور، مسلم امہ کے مسائل اور خطے کی صورتِ حال زیر غور آئی۔ ترک صدر نے پاکستان سے تجارتی حجم کو 5 ارب ڈالر تک لے جانے کا اعلان کیا اورکہا کہ پاکستان کے ساتھ اکنامک اسٹریٹجی فریم ورک کا تاریخی معاہدہ کیا جائے گا، ترک تاجروں کو سی پیک پر بریفنگ دینے کی ضرورت ہے، ترک سرمایہ کاروں کی سی پیک سے آگاہی کے لیے ہم مدد کو تیار ہیں۔
پاکستان اور ترکی کے مابین دوطرفہ تعلقات اور تعاون کو مستحکم کرنے کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ براڈ اسٹرے ٹیجک معاشی فریم ورک کا اجلاس ہوا۔ سینئر جوائنٹ سیکرٹری ایوی ایشن ڈویژن عبدالستار کھوکھر اور ڈپٹی ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی ایئر کموڈور سید ناصر رضا ہمدانی نے پاکستان، ترکی مشترکہ ورکنگ گروپ کو پی آئی اے اور پیگاسس کے مابین کوڈ شیئرنگ معاہدے سے متعلق آگاہ کیا۔ قومی ہوا بازی پالیسی 2019 کی روشنی میں ہوائی نقل و حمل اور فضائی خدمات کے معاہدے کا جائزہ لیتے ہوئے باہمی راستوں کی تلاش پر بھی باہمی اتفاق کیا گیا۔ اسلام آباد میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ ملاقات کی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے معاملات کے پُرامن حل کے لیے سفارتی ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے فریقین کو مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ترک وزیر دفاع سے ملاقات کی۔ آئی ایس پی آر نے اس ملاقات سے متعلق ایک بیان جاری کیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ترک وزیر دفاع نے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سیکورٹی صورت حال اور دو طرفہ دفاعی تعاون کو فروغ دینے پر بات چیت کی گئی۔ ترک وزیردفاع نے کہا کہ ترکی ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان ترکی کے ساتھ اپنے برادرانہ تعلقات کو بڑی اہمیت دیتا ہے، پاکستان ترکی کے ساتھ ہمیشہ ایک بھائی کی طرح کھڑا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے مشترکہ اقتصادی فورم میں کہا کہ اگر ترک صدر رجب طیب اردوان پاکستان میں انتخابات میں حصہ لیں تو وہ جیت جائیں گے۔ پاک ترک بزنس فورم کی تقریب بھی ہوئی، جس میں ترک صدر طیب اردوان اور خاتونِ اول موجود تھیں۔